جنید جمشید ملک کی مشہور کاروباری اور تبلیغی شخصیت ہیں، یہ 1987ء سے 2004ء تک پاکستان کے نامور پاپ اسٹار رہے، جنید جمشید نے 1983ء میں "وائیٹل سائنز" کے نام سے اپنا بینڈ بنایا، شعیب منصور نے 14 اگست 1987ء کو جنید جمشید کا گایا ہوا ملی نغمہ "دل دل پاکستان" پی ٹی وی سے نشر کیا اور یوں جنید جمشید دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں مشہور ہو گئے۔
"وائیٹل سائنز" نے ملک میں موسیقی کا نیا ٹرینڈ قائم کیا، آپ کو ملک میں آج جتنے بھی بینڈ نظر آتے ہیں یہ وائیٹل سائنز کی ایکسٹینشن ہیں، جنید جمشید 2004ء تک موسیقی کے آسمان پر چمکتے رہے، کامیابی کے اس دور میں انھوں نے ہر وہ کام کیا جو ایسے حالات میں کیا جاسکتا ہے، لڑکیاں ان پر باقاعدہ مرتی تھیں، جوانی کی کامیابی انسان کی ذات میں ایک مہیب خلا پیدا کرتی ہے، یہ خلا انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے، انسان اس خلا کو چار چیزوں سے پر کرتا ہے۔
منشیات، فراریت، فن کشی یا پھر مذہب۔ دنیا میں ہر سال درجنوں انٹرنیشنل اسٹارز منشیات کے ہاتھوں وقت کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں، سیکڑوں لوگ شہرت کی چکا چوند چھوڑ کر اچانک گمنامی میں غائب ہو جاتے ہیں، دنیا کے بے شمار فنکار اپنی پوری زندگی فن کو ودیعت کردیتے ہیں، یہ فن میں غرق ہو جاتے ہیں اور غرقابی کے اس عمل میں اپنی خاندانی، سماجی اور ذاتی زندگی قربان کر بیٹھتے ہیں، میں اس عمل کو فن کشی کہتا ہوں اور دنیا کے بے شمار فنکار آواز اور روشنی کا یہ گورکھ دھندہ چھوڑ کرمذہب کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، جنید جمشید کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی، یہ مولانا طارق جمیل سے متاثر ہوئے، یہ 2004ء میں تبلیغی جماعت میں شامل ہوئے، مغربی لباس ترک کیا، گانا بند کیا۔
داڑھی رکھی، نماز اور روزے شروع کیے اور آہستہ آہستہ تبلیغ کا کام شروع کر دیا، یہ جنید جمشید کا دوسرا جنم تھا، ان کا تیسرا جنم 2002ء میں شروع ہوا جب انھوں نے اپنا بوتیک بنایا، یہ کاروبار میں آئے اور انھوں نے اس میں بھی نیا ٹرینڈ دے دیا، جنید جمشید کا برانڈ کامیاب ہو گیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں بلکہ اربوں میں کھیلنے لگے، یہ اگر خود کو یہاں تک محدود کر لیتے تو یہ ایک سکھی اور کامیاب زندگی گزارتے لیکن دنیا کے تین پیشوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ ایسا لہو ہیں جو اگر ایک بار منہ کو لگ جائے تو پھر یہ ہونٹوں سے نہیں ہٹتا، ایک بادشاہت ہے، انسان اگر ایک بار کرسی تک پہنچ جائے تو پھر یہ اسے چھوڑ نہیں سکتا اور یہ اگر اسے چھوڑ دے تو پھر یہ عام انسان نہیں ہوتا، یہ نیلسن مینڈیلا ہوتا ہے، دو، انسان اگر ایک بار عوام سے مخاطب ہو جائے اور عوام اس کے حق میں تالیاں بجا دیں تو پھر انسان اسٹیج سے نہیں اترتا اور تیسرا جس شخص کو اسکرین کی عادت پڑ جائے یہ پھر اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جنید جمشید کی کایا پلٹ گئی لیکن کایا پلٹنے سے قبل اسکرین ان کے اندر جگہ بنا چکی تھی اور یہ اسکرین انھیں کسی نہ کسی بہانے کسی نہ کسی اسکرین پر کھینچ لاتی تھی، جنید جمشید کی واپسی موسیقی کے بغیر "دل دل پاکستان" سے ہوئی، کسی ٹیلی ویژن پروگرام میں انھوں نے شلوار قمیض، داڑھی اور ٹوپی کے ساتھ دل دل پاکستان گایا اور اس کے ساتھ ہی وہ دروازہ کھل گیا جو نہیں کھلنا چاہیے تھا، دنیا میں صرف وہ انسان کامیاب ہوتے ہیں جو اگر ایک بار گزر جائیں تو پھر گزر جائیں، وہ واپس مڑ کر نہ دیکھیں، میرا مطالعہ، تجربہ اور مشاہدہ ہے جو لوگ جانے کے بعد مڑ کر دیکھتے رہتے ہیں وہ پھنس جاتے ہیں اور جنید جمشید کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
یہ واپس مڑکر دیکھنے کی غلطی کر بیٹھے، نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوا پھر جنید جمشید نے ٹیلی ویژن پر رمضان کے پروگرام شروع کیے، پھر مذہبی پروگرام شروع ہوئے اور آخر میں واعظ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر وہ ہو گیا جس کا خطرہ تھا، وہ کیا ہے؟ ہم اس طرف آنے سے قبل جنید جمشید کی ایک خامی کا ذکر کریں گے، جنید جمشید مذہبی ہو چکے ہیں، یہ اسلام کے رنگ میں بھی رنگے جا چکے ہیں مگر وہ میری طرح اسلام کے بارے میں سطحی علم رکھتے ہیں، جنید جمشید جیسے لوگوں کے دو المیے ہیں، ایک یہ لوگ مذہبی علم میں خام ہیں اور دوسرا ملک میں مذہبی برداشت ختم ہو چکی ہے، ہمارے ملک میں آج خاندانی، کاروباری اور شخصی مخالفت میں کسی بھی شخص کو گستاخ رسول قرار دیا جا سکتا ہے، لوگ اس پر بلاتحقیق حملہ کر دیتے ہیں، اسے قتل کر دیا جاتا ہے، اس کی املاک کو جلا دیا جاتا ہے اور تحقیق اور تفتیش بعد میں ہوتی ہے۔
جنید جمشید شاید ان دونوں حقیقتوں سے واقف نہیں تھے، یہ ٹیلی ویژن انڈسٹری کی ریٹنگ کی دوڑ کا شکار بھی ہو گئے، ہماری ٹیلی ویژن انڈسٹری کو ہر وقت ایسے چہرے درکار ہوتے ہیں جنھیں یہ بیچ کر منافع بھی کما سکے اور حریفوں کو خاک بھی چٹوا سکے، مذہب بدقسمتی سے میڈیا انڈسٹری کے لیے منافع خوری کا ذریعہ بن چکا ہے، آپ کوئی ٹیلی ویژن چینل آن کر کے دیکھ لیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی ایسا ماڈرن مولوی مل جائے گا جو مذہب، روحانیت اور وظائف کو چاکلیٹ کے ریپر میں لپیٹ کر بیچ رہا ہو گا۔
جنید جمشید بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئے اور پھر نازک آبگینوں کے ٹوٹنے کا وہ لمحہ آ گیا۔ جنید جمشید نے واعظ کیا اور اس واعظ کے دوران اس سے ایک مقدس ہستی کی شان میں گستاخی ہو گئی، یہ گستاخی یقینا گستاخی ہے لیکن اس گستاخی کی وجہ جنید جمشید کی بدنیتی نہیں تھی، یہ کم علمی اور مذہب کے بارے میں ادراک کی کمی کے ہاتھوں مارے گئے، جنید جمشید کا مقصد توہین نہیں تھا، بہرحال تیر کمان سے نکل گیا، احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، ملک کے مختلف حصوں میں ایف آئی آر درج ہوئیں اور یہ ملک سے باہر چلے گئے، جنید جمشید فیس بک پر ہاتھ باندھ کر معافی بھی مانگ چکے ہیں لیکن شاید بات معافی سے آگے نکل چکی ہے۔
میں جنید جمشید کے واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے علماء کرام، حکومت اور معاشرے سے چند درخواستیں کرنا چاہتا ہوں، میری علماء کرام سے درخواست ہے آپ جنید جمشید کے معاملے میں احتیاط سے کام لیں، یہ ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو ماڈرن زندگی چھوڑ کر مذہب کی طرف راغب ہوئے، اگر جنید جمشید کو نقصان پہنچا تو ملک کے ایسے ہزاروں لوگ مذہب سے دور ہو جائیں گے جو دنیاوی زندگی چھوڑ کر اللہ کے راستے پر آنا چاہتے ہیں، یہ واقعہ ان لوگوں اور ان کے خاندانوں کے لیے بری مثال بن جائے گا، لوگ مذہب کی طرف آتے ہوئے گھبرائیں گے، ہماری مذہبی کتب میں مقدس ہستیوں کے بارے میں بے شمار ایسے واقعات اور احادیث موجود ہیں جنھیں ہم جیسے دنیا دار پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔
علماء کرام سے درخواست ہے آپ یہ تمام کتب یا ان کتب میں موجود یہ مواد "ایڈٹ" کرا دیں یا پھر آپ مذہبی کتب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں، علماء کے لیے کتب اور عام لوگوں کے لیے کتب۔ علماء کی کتابیں عام لوگوں کو دستیاب نہیں ہونی چاہئیں، حکومت علماء کا بورڈ بنائے اور یہ بورڈ جب تک کسی کتاب کی منظوری نہ دے، اس وقت تک مذہب سے متعلقہ کوئی کتاب یا کسی کتاب کا کوئی حصہ شایع نہیں ہونا چاہیے، کتابوں کے آخر میں یہ سر ٹیفکیٹ بھی شایع ہونا چاہیے، علماء کرام اگر احادیث کی کتابوں کا بھی از سر نو جائزہ لے لیں تو یہ بھی ہم جیسے عام مسلمانوں کے لیے خصوصی مہربانی ہو گی، حکومت ٹیلی ویژن پر مذہبی پروگراموں کے لیے فوری طور پر ضابطہ اخلاق طے کرے، ٹیلی ویژن پر مذہبی گفتگو کرنے والے لوگ جب تک اس معیار پر پورا نہ اتریں انھیں اس وقت تک ٹیلی ویژن پر مذہبی گفتگو کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، ہمارے معاشرے میں نعت، منقبت اور قوالی کے لیے کوئی ضابط اخلاق موجود نہیں۔
ہمارے نعت خوان، منقبت لکھنے والے اور قوال اکثر اوقات جذب و مستی میں عقیدت کی لکیر عبور کر جاتے ہیں، ملک میں نعتوں، منقبت اور قوالیوں کو پاس کرنے کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے اور جب تک حکومت سکہ بند علماء کی مدد سے پاس نہ کرے کسی نعت خواں اور کسی قوال کو کوئی نئی قوالی کہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، عقائد ریاست کے تابع ہوتے ہیں، ریاست عقائد کی ماتحت نہیں ہوتی، ریاست فوراً ایکٹو کریں، ریاست کو مسجد اور امام مسجد سے لے کر ٹیلی ویژن پر اذان تک ہر مذہبی معاملے میں نظر آنا چاہیے کیونکہ ریاست اگر اسی طرح پیچھے ہٹتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب کوئی شخص اٹھ کر ریاست کے خلاف فتویٰ دے گا اور ملک میں لاشوں کے انبار لگ جائیں گے۔
آپ القاعدہ اور داعش کو ذہن میں رکھیں، یہ لوگ ایک خاص شریعت کے حامی ہیں، یہ روز اللہ اکبر کے نعروں میں کلمہ گو مسلمانوں کے گلے کاٹتے ہیں، سوشل میڈیا پر کلپس نشر کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے سرخ تلواروں کا اسلام پیش کرتے ہیں، ہم اگر ملک کو اس انجام سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ریاست، علماء کرام اور معاشرے تینوں کو جاگنا ہو گا، آپ خود سوچئے لوگ جس ملک میں خدا کے بجائے بندوں سے ڈرنے لگیں، کیا اس ملک کی حکومت سونے کا رسک لے سکتی ہے؟ ریاست کو جاگنا چاہیے ورنہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلام کے نام پر ہی ختم ہو جائے گا۔