صدر الدین ہاشوانی ملک کے ممتاز بزنس مین ہیں، یہ اسماعیلی ہیں، پرنس کریم آغا خان کو اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں، اسماعیلیوں کی تین نشانیاں ہیں، علم دوستی، بزنس اور خیراتی ادارے۔ آپ کے لیے شاید یہ انکشاف ہو، مصر کے دارالحکومت قاہرہ کی بنیاد بھی اسماعیلیوں نے رکھی تھی اور جامع الازہر بھی انھوں نے بنائی تھی، اسماعیلیوں کے چودھویں امام المعوز نے الازہر مسجد اور دنیا کی پہلی اسلامی یونیورسٹی جامع الازہر کی بنیاد رکھی، ہاشوانی صاحب کا خاندان 1840ء میں اسماعیلیوں کے 46ویں امام، امام حسن علی شاہ کے ساتھ ایران سے بلوچستان آیا، امام حسن علی شاہ آغا خان اول کہلاتے ہیں۔
امام سندھ سے ہوتے ہوئے ممبئی چلے گئے لیکن ہاشوانی فیملی بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں اقامت پذیر ہو گئی تاہم والدہ کا خاندان گوادر میں مقیم تھا، والد حسین ہاشوانی کراچی میں کپاس کا کاروبار کرتے تھے، یہ برطانیہ کی کمپنی رالی برادرز کو کپاس سپلائی کرتے تھے، صدر الدین حسین ہاشوانی کے سات بچوں میں سے ایک ہیں، یہ چھٹے بچے ہیں، یہ 1940ء میں کراچی میں پیدا ہوئے، یہ اچھے طالب علم نہیں تھے چنانچہ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے، صدرالدین نے جوانی میں اپنے بہنوئی شمس الدین کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا، یہ لوگ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں گندم سپلائی کرتے تھے، یہ ایک مشکل کام تھا لیکن صدر الدین ہاشوانی یہ کام کرتے رہے۔
یہ دھان منڈی سے خود گندم خریدتے تھے، یہ اس گندم کو خود ٹرکوں پر لدواتے، یہ گندم بلوچستان کے انتہائی مشکل اور دور دراز علاقوں میں بھجوائی جاتی، ہاشوانی صاحب بعد ازاں ٹرکوں، بسوں اور گدھوں پر سفر کرتے ہوئے ان علاقوں میں پہنچتے، بل کلیئر کرواتے اور اسی طرح دھکے کھاتے ہوئے واپس کراچی آجاتے، ہاشوانی نے اپنا سفر وہاں سے شروع کیا، یہ آج پاکستان کے نامور بزنس مین ہیں، یہ ملک میں دس فائیو اسٹار ہوٹلز کے مالک ہیں، یہ ملک کے باہر بھی درجنوں ہوٹل چلا رہے ہیں اور یہ دنیا کے نصف درجن سے زائد ممالک میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام بھی کرتے ہیں۔
ہاشوانی صاحب نے چند روز قبل "ٹروتھ آل ویز پرویلز" کے نام سے اپنی بائیو گرافی لکھی، یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں، یہ کمال کتاب ہے، میں نے کل یہ کتاب پڑھنی شروع کی اور بڑے عرصے بعد ایک ہی نشست میں یہ کتاب پڑھ گیا، یہ کتاب پاکستان کے سیلف میڈ لوگوں کا نوحہ ہے، یہ آپ کو بتاتی ہے ہمارے ملک میں ترقی کرنا کتنا مشکل ہے اور ایک عام انسان کو خاک سے اٹھ کر عرش تک پہنچنے میں کتنے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، انسان کس کس در کے دھکے کھاتا ہے اور اسے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، ہاشوانی صاحب کے ان کٹھن مراحل کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور آپ اگر پاکستان کے سیلف میڈ بزنس مین ہیں تو آپ بھی ان چاروں مراحل سے گزرے ہوں گے یا پھر گزر رہے ہوں گے، ہاشوانی صاحب کی حیات کا پہلا مرحلہ فیملی ایشوز تھے۔
یہ ان تھک کام کرنے والے وژنری شخص ہیں، یہ بہنوئی کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کرتے ہیں، یہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں جب کہ بہنوئی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے، وہ دس بجے دفتر آتے تھے، کرسی پر بیٹھ کر دو تین گھنٹے جھولتے تھے، پھر لنچ کرنے کلب چلے جاتے تھے، شام کوگھر روانہ ہو جاتے تھے اور رات کو دوبارہ سوشل ایکٹوٹیز میں مصروف ہو جاتے تھے مگر ہاشوانی صاحب محنت کرتے رہے، یہ کاروبار کو ترقی دیتے رہے، کاروبار جب اپنی معراج کو چھونے لگا تو بہنوئی نے انھیں فارغ کر دیا، ہاشوانی صاحب لکھ سے ککھ پتی ہو گئے مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری، نئی کمپنی بنائی اور مختلف کمپنیوں کو کپاس کی گانٹھیں باندھنے کی آہنی پٹیاں سپلائی کرنا شروع کر دیں۔
یہ وہاں سے کپاس اور چاول کے بزنس میں آئے اور کمال کر دیا جب کہ ان کے مقابلے میں ان کے بہنوئی دیوالیہ ہو گئے، یہ بزنس کے ساتھ دوسرے فیملی ایشوز میں بھی الجھے رہے، ہم جوں جوں ان کی بائیو گرافی پڑھتے ہیں، ہمیں احساس ہوتا ہے ہمارے ملک میں فیملی ایشوز کام کرنے والے لوگوں کا کارآمد ترین وقت ضایع کر دیتے ہیں، آپ اندازہ لگائیں ہاشوانی صاحب نے ساٹھ کی دہائی میں شادی کی، پانچ بچے پیدا ہوئے، یہ بچے جوان ہوئے اور ہاشوانی صاحب نے 2011ء میں بڑھاپے میں اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی، یہ طلاق ان ایشوز کا نتیجہ تھی جن کا یہ چالیس برس تک سامنا کرتے رہے، ہاشوانی صاحب کی حیات کا دوسرا کٹھن مرحلہ کاروبار تھا، ہمارے ملک میں کوئی سسٹم، کوئی پالیسی نہیں، پاکستان میں لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے ہزاروں جتن کرنے پڑتے ہیں۔
یہ روز ٹنل سے گزرتے ہیں، ہاشوانی صاحب بار بار بتاتے ہیں، حکومت تبدیل ہونے سے ہمارا سارا نظام تبدیل ہو جاتا ہے، جنرل ایوب خان نے ملک میں کاروباری ماحول پیدا کیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے آ کر صنعتوں کو قومیا لیا اور یوں ریورس گیئر لگ گیا، ملک کے درجنوں صنعتی اور کاروباری گروپ صفر ہو گئے، لوگ سرمایہ سمیٹ کر ملک سے باہر چلے گئے، قوم آج تک بھٹو صاحب کے اس غلط فیصلے کا تاوان ادا کر رہی ہے، یہ بار بار بتاتے ہیں حکومتیں کاروباری گروپوں کو نقصان پہنچانے کے لیے انتہائی نچلی سطح پر چلی جاتی ہیں، یہ ٹیکس کے جھوٹے مقدمے بناتی ہیں اور کاروباری شخصیات کو جیلوں میں بھی پھینک دیتی ہیں، ان ہتھکنڈوں سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے، ہاشوانی صاحب کی کتاب کا تیسرا حصہ سیاسی مداخلتوں کی گھناؤنی داستانوں پر مشتمل ہے۔
ہاشوانی صاحب نے کتاب میں ذکر کیا جنرل ضیاء الحق نے کراچی میں ان سے پوچھا " کیا خبر ہے!" ہاشوانی صاحب نے جواب دیا " بھٹو صاحب نے ملک میں صرف پوٹیٹو کارپوریشن آف پاکستان قائم کی تھی لیکن آپ کے دور میں ٹی وی کھولیں تو وہاں مُلا ہی مُلا نظر آتے ہیں، آپ براہ کرم معیشت پر توجہ دیں، ہم ڈوب رہے ہیں، کارپوریشنوں کو بیورو کریٹس سے نجات دلائیں، کرپشن میں اضافہ ہو چکا ہے" جنرل ضیاء الحق اس بات پر ناراض ہو گئے، ہاشوانی صاحب کے خلاف تادیبی کارروائیاں شروع ہو گئیں، یہ گرفتار بھی ہوئے، حوالات میں بھی رکھے گئے اور ان کے خلاف لمبے چوڑے مقدمے بھی قائم ہوئے، ہاشوانی صاحب نے بھٹو صاحب کے بارے میں لکھا، وہ صنعتوں کو قومیانے کے عمل کے دوران کراچی کے مشہور وکیل اور اپنے استاد رام چندانی ڈنگو مل سے ملنے گئے، ڈنگو مل نے ان سے کہا " ذلفی تم نے تعلیم کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا" بھٹو نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا "پریشان مت ہو، تمہارے اور میرے بچوں نے کون سا پاکستان میں تعلیم حاصل کرنی ہے؟ "۔
ہاشوانی نے انکشاف کیا"محمد خان جونیجو نے انھیں اپنی اسمگل شدہ مرسڈیز کار بیچنے کی کوشش کی، یہ نہ مانے تو ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع ہو گئیں، جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو دونوں ان کے خلاف تھے اور یہ جان بچانے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں روپوش ہونے پر مجبور ہو گئے یہاں تک کہ پیر صاحب پگاڑا نے ان کی جان بخشی کرائی، ہاشوانی صاحب نے انکشاف کیا، جنرل ضیاء الحق کو کسی نے غلط فہمی میں مبتلا کر دیا"میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو 25 لاکھ روپے چندہ دیا ہے" جنرل ضیاء نے کارروائیاں تیز کر دیں۔ یہ جنرل ضیاء سے بچے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے رگڑے میں آ گئے، ہاشوانی صاحب نے یہ انکشاف بھی کیا، آصف علی زرداری کا کراچی میں ان کے ہوٹل کے ڈسکو میں کسی سے جھگڑا ہو گیا۔
ہوٹل کی انتظامیہ نے زرداری صاحب کو ہوٹل سے باہر نکال دیا، پیپلز پارٹی کے دونوں ادوار میں انھیں بے تہاشہ تنگ کیا گیا، بے نظیر بھٹو کے پہلے دور اقتدار میں انھیں اغواء اور قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا، جنرل آصف نواز جنجوعہ اس وقت کراچی کے کور کمانڈر تھے، انھوں نے ان کی مدد کی اور یوں یہ لندن میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے، یہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں بھی کبھی ملک کے اندر اور کبھی ملک سے باہر بھاگتے رہے، آصف علی زرداری 2008ء میں صدر بنے تو میریٹ اسلام آباد پر حملہ ہو گیا، یہ حملہ انھیں اور ان کے خاندان کو مروانے کے لیے کیا گیا تھا۔
حکومت نے حملے کے بعد ان پر دباؤ ڈالا، آپ میڈیا کو بیان جاری کریں آصف علی زرداری ہوٹل میں مدعو تھے اور یہ حملہ انھیں مارنے کے لیے ہوا تھا، ہاشوانی صاحب نے انکار کر دیا اور یوں یہ ایک بار پھر عتاب کا شکار ہو گئے اور انھیں جان بچانے کے لیے دوبئی شفٹ ہونا پڑ گیا، یہ پانچ سال دوبئی رہے، ہاشوانی صاحب نے انکشاف کیا، میاں نواز شریف بھی انھیں بے نظیر بھٹو کا آدمی سمجھتے تھے اور یہ میاں صاحب کے دونوں ادوار میں بھی حکومتی انتقام کا نشانہ بنتے رہے، میاں صاحب بھی ان کے خلاف قانونی کارروائی کراتے رہے۔
ہاشوانی صاحب کی کتاب کا چوتھا حصہ ملک میں سرمایہ کاری سے متعلق ہے، ان کا دعویٰ ہے حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملکی سرمایہ کاروں پر فوقیت دیتی ہے، یہ ملک میں تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کر رہے تھے لیکن حکومتیں ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر تی رہیں یہاں تک کہ یہ آئل اور گیس کا کاروبار بیرون ملک شفٹ کرنے پر مجبور ہو گئے، ہاشوانی صاحب کا کہنا ہے حکومت اگر پاکستانی سرمایہ کاروں پر اعتماد کرے تو ملک بہت ترقی کر سکتا ہے، ہاشوانی صاحب نے ہوٹل انڈسٹری کے بارے میں بھی انکشافات کیے، انھوں نے بتایا، یہ کس طرح ہوٹل انڈسٹری میں آئے اور انھوں نے کس طرح ملک میں فائیو اسٹار ہوٹل بنائے۔
یہ کتاب کتاب نہیں، یہ پاکستانی نظام کا نوحہ ہے، میری میاں نواز شریف سے درخواست ہے، آپ یہ کتاب ضرور پڑھیں کیونکہ آپ کو اس کتاب میں ملک کی وہ تمام خامیاں ملیں گی جن کی وجہ سے ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے اور آپ کو ان خامیوں کے وہ حل بھی ملیں گے جن پر عمل کر کے آپ پرانے پاکستان کو نیا بنا سکتے ہیں۔