سلیم کوثر ملک کے مشہور شاعر ہیں، ان کی ایک غزل میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے" نے بین الاقوامی شہرت پائی، دنیا میں بعض شاعر، بعض ادیب انتہائی خوش نصیب ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے کسی ایک شعر، کسی ایک غزل، کسی ایک مضمون اور کسی ایک افسانے کو اس کی وجہ شہرت، اس کے لیے باعث عزت اور اس کے لیے رزق کا ذریعہ بنا دیتا ہے اور یہ غزل سلیم کوثر کے لیے شہرت، عزت اور رزق تینوں کا ذریعہ بنی، یہ پچھلے دنوں کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گئے، کراچی میں علاج کرایا، علاج مہنگا تھا، یہ بل ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، صدر ممنون حسین ان کے بہت بڑے فین ہیں، صدر کو علم ہوا تو انھوں نے سلیم کوثر کے بل کا علم اٹھا لیا، سلیم کوثر پی ٹی وی کے ملازم رہے ہیں چنانچہ صدر نے ان کے علاج کی ادائیگی کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات سے رابطہ کیا، وزارت نے درخواست پر لکھ دیا "یہ علاج جس اسپتال میں ہوا، وہ اسپتال حکومت کے پینل پر نہیں " صدر نے وزیر اطلاعات پرویز رشید سے بات کی، وزیر اطلاعات نے سلیم کوثر کی مدد کی حامی بھر لی۔
سیکریٹری اطلاعات کو حکم دیا گیا، فائل ایک بار پھر "موو" ہونے لگی، یہ موومنٹ دو تین ماہ سے جاری ہے، جمعہ کے روز صدر ممنون حسین نے مجھے لنچ پر بلایا، صدر کے رہائشی کمپائونڈ کے چھوٹے سے ڈائننگ روم میں چھوٹی سی بیضوی میز لگی تھی، ایک کرسی پر صدر بیٹھ گئے اور دوسری میں نے سنبھال لی، گفتگو مختلف موضوعات سے ہوتی ہوئی دفتری نظام پر آئی تو صدر نے یہ واقعہ سنایا، ان کا کہنا تھا "میں دو ماہ سے سلیم کوثر کی فائل کا پیچھا کر رہا ہوں، میں نے آج اسلام آباد کلب میں بھی سیکریٹری اطلاعات کو پکڑ لیا، میں نے ان سے پوچھا "سلیم کوثر کا بل کلیئر کیوں نہیں ہوا" سیکریٹری صاحب نے آئیں بائیں شائیں کر کے معاملہ ٹال دیا، صدر کا کہنا تھا، ہمارا دفتری نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، نااہلی بھی ہے اور سستی بھی۔
لوگ کام ہی نہیں کرنا چاہتے، میں جب بھی اپنے عملے سے کوئی کام کہتا ہوں تو میں ان سے عرض کرتا ہوں " آپ ابھی جائیے، لکھ کر لائیے اور مجھ سے دستخط کروائیے اور یہ جب تک سمری لے کر نہیں آتے میں وہاں بیٹھا رہتا ہوں " صدر نے اس کے بعد 1964ء کی ایک مثال دی۔
انھوں نے کہا "میں ان دنوں آئی بی اے (انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) سے ایم بی اے کر رہا تھا، ہمارے دو سمسٹر ہو چکے تھے، میں نے اپنے بھائی کے ساتھ ہندوستان کا چکر لگانے کا فیصلہ کیا، ہمارے ایک بزرگ دوست کو پتہ چلا تو اس نے مشورہ دیا تم کراچی سے اپنی آخری منزل تک کا ٹکٹ لے لینا، تم سیکنڈ کلاس ٹکٹ لینا، تمہاری ٹرین جب انڈیا میں داخل ہو گی تو یہ سیکنڈ کلاس خود بخود فرسٹ کلاس میں تبدیل ہو جائے گا" صدر نے اس کے بعد ٹھنڈی سانس بھری اور اس کے بعد فرمایا " آپ اندازہ لگائیے، ہماری ریلوے کی سیکنڈ کلاس 1964ء میں بھارتی ریلوے کی فرسٹ کلاس کے برابر تھی لیکن آج وہ کہاں ہیں اور ہم کہاں ہیں؟
صدر نے اس کے بعد سعودی عرب کا ذکر چھیڑ دیا، صدر چالیس کے قریب عمرے اور حج کر چکے ہیں، ان کے پاس جب بھی تھوڑے سے پیسے جمع ہو جاتے تھے، یہ ٹکٹ لے کر سعودی عرب چلے جاتے تھے، ان کا کہنا تھا " میں نے اپنی آنکھوں سے سعودی عرب کے حالات تبدیل ہوتے دیکھے۔
1975ء میں خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم کے بعد ریت اور کنکریاں ہوتی تھیں، فرش بہت گرم ہوتا تھا، طواف کے دوران ہمارے پائوں میں چھالے پڑ جاتے تھے جب کہ چلتے چلتے پائوں میں کنکر بھی چبھ جاتے تھے، ہم لوگ طواف کے بعد خانہ کعبہ سے ذرا سے فاصلے پر بیٹھ جاتے تھے، ہمارے پاس پانی کی صراحیاں ہوتی تھیں، ہم یہ صراحیاں ریت اور کنکریوں میں پھنسا دیتے تھے، ریت میں رہنے کی وجہ سے آب زم زم ٹھنڈا ہو جاتا تھا"۔
صدر نے بتایا " میں 1975ء میں ریاض گیا تو شہر کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے، بطحا اس وقت ریاض کا پوش اور مہنگا ترین علاقہ ہے، ہم اس علاقے میں ایک امیر عرب تاجر سے ملنے گئے، اس کی دکان گارے کی بنی ہوئی تھی اور وہ زمین پر قالین بچھا کر بیٹھا تھا، لوگ ہمیں جدہ لے کر جاتے تھے تو شہر کے حالات اور غربت دیکھ کر ہمیں افسوس ہوتا تھا، ہمارے ایک عربی دوست ہمیں ایک بار جدہ شہر دکھانے کے لیے لے گئے، وہ شہر میں اگنے والے سبزے پر بہت اترا رہے تھے، میں نے اس سے کہا، بھائی میرے! تم کراچی آئو، ہم تمہیں دکھاتے ہیں، شہر کیسے ہوتے ہیں اور سبزہ اور درخت کسے کہتے ہیں "۔ صدر نے اس کے بعد ایک اور ٹھنڈی سانس بھری اور کہا " ہمارے کراچی کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی"۔
سعودی عرب پر گفتگو کے دوران میں نے ان سے عرض کیا " سعودی عرب نے ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر عنایت کیے، یہ تحفہ ہیں، امداد ہیں یا پھر قرضہ"۔ صدر نے فوراً جواب دیا " سعودی عرب کا شاہی خاندان پاکستان سے حقیقتاً محبت کرتا ہے، میں جب اکتوبر 2013ء میں حج پرگیا تو شاہ عبداللہ سے ملاقات کے لیے شاہی محل بھی گیا، شاہ اس وقت علیل تھے، وہ اپنے واکر پر بیٹھے تھے، میں پہنچا تو وہ بڑی مشکل سے کھڑے ہوئے اور بڑی گرم جوشی سے میرا ہاتھ تھام لیا، وہ میرا ہاتھ پکڑ کر دس منٹ تک کھڑے رہے، ان کا کہنا تھا، پاکستان میرا دوسرا گھر ہے اور میں اپنے گھر کے لیے وہ سب کچھ کروں گا جس کی ایک گھر والے سے توقع کی جا سکتی ہے" صدر ممنون حسین کا کہنا تھا " ہم اس وقت مشکل میں ہیں، ہماری معیشت کو مشکل کا سامنا ہے چنانچہ سعودی عرب نے ہماری مشکلیں آسان کرنے کی کوشش کی" میں نے عرض کیا " لیکن ہم اس امداد کو خفیہ رکھنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں " صدر نے فرمایا " سعودی عرب تشہیر نہیں چاہتا تھا، اس کی خواہش تھی، یہ دوستوں کا معاملہ ہے، یہ اگر دو دوستوں کے درمیان رہے تو زیادہ اچھا ہو گا، ہمارے لوگوں نے ان کی بات مان لی لیکن انھیں سوچنا چاہیے تھا، آج کے دور میں چیزوں کو خفیہ رکھنا ممکن نہیں رہا، آج آپ جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو قبر میں ہاتھ ڈال کر مردے کی آنتیں ماپ لیتے ہیں۔
چنانچہ ہماری حکومت کو اس امداد کی کوئی ایسی جسٹی فکیشن بنانی چاہیے تھی کہ دنیا اعتراض نہ کر سکتی، قیاس آرائیاں نہ ہوتیں " میں نے پوچھا " سعودی عرب کی اس امداد کو فوج کے ساتھ نتھی کیا جا رہا ہے، کیا ہم شام میں فوج بھجوا رہے ہیں " صدر نے فوراً جواب دیا " نہیں، ہرگز نہیں، سعودی عرب اور بحرین کے ساتھ ہمارے انتہائی برادرانہ تعلقات ہیں، سعودی عرب شام میں "سٹیکس" بھی رکھتا ہے لیکن ہمیں اس پھڈے میں نہیں پڑنا چاہیے، ہمارے لیے تمام ممالک بالخصوص مسلم ممالک محترم ہیں، ہمیں ان کے داخلی معاملات میں ملوث نہیں ہونا چاہیے، ہم اگر شام میں اسد خاندان کے ساتھ لڑتے ہیں تو ہم سے ایران ناراض ہو جائے گا اور ہمیں ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہیے، یہ ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور پرانا دوست بھی چنانچہ ہم شام اور سعودی عرب کی لڑائی میں نہیں پڑیں گے، یہ امداد خالصتاً ایک دوست ملک کی طرف سے دوسرے ملک کے لیے تحفہ ہے اور ہمیں اس پر سعودی عرب کا شکر گزار ہونا چاہیے" میں نے ان سے پوچھا "سعودی عرب اور یو اے ای جنرل پرویز مشرف کے گارنٹر تھے، ان ممالک کی قیادت آپ سے ملاقات کرتی رہی، کیا انھوں نے کبھی آپ سے جنرل پرویز مشرف کی بات کی"۔
صدر نے مسکرا کر جواب دیا " نہیں کبھی نہیں، سعودی عرب کے ولی عہد بھی مجھ سے ملے، یو اے ای کے نمائندے بھی میرے پاس آئے اور بحرین کے شاہ بھی ایوان صدر تشریف لائے، یہ مجھ سے لوگوں کے درمیان بھی ملے اور تنہائی میں بھی لیکن کسی نے میرے ساتھ جنرل پرویز مشرف کا ذکر نہیں کیا، یہ مکافات عمل اور باعث عبرت ہے، میرا خیال تھا، مشرف کے پرانے دوست اور گارنٹر مجھ سے اس کے بارے میں کوئی نہ کوئی بات ضرور کریں گے لیکن انھوں نے اس معاملے میں ہونٹ تک نہیں ہلائے، جنرل مشرف کو دراصل امریکا تک نے فراموش کر دیا، امریکا ان کا سب سے بڑا دوست تھا لیکن وقت گیا اور بات بھی اس وقت کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی، کاش جنرل مشرف وقت کی نزاکت سمجھ جاتے، یہ ریٹائرمنٹ کا فیصلہ جلد کر لیتے، یہ وقت پر اقتدار سے رخصت ہو جاتے اور یہ ملک سے باہر جانے کے بعد واپس نہ آتے، میرا خیال ہے یہ مکافات عمل کا شکار ہو گئے، اللہ تعالیٰ نے ان کی عقل پر پردہ ڈال دیا اور یہ اس ملک میں واپس آ گئے جس میں کھڑے ہو کر یہ دوسروں کو مکے دکھاتے تھے" میں نے ان سے پوچھا " میرے سمیت بے شمار لوگوں کا خیال ہے، جنرل پرویز مشرف کو عدالت سے سزا ہو جائے گی، سزا کے بعد یہ معاملہ آپ کے پاس آئے گا اور آپ ان کی سزا معاف کر دیں گے" صدر ممنون حسین نے فرمایا " اس معاملے کے دو پہلو ہیں، ایک ذاتی اور دوسرا آئینی۔
میں آئینی لحاظ سے کسی بھی مجرم کی سزا معاف کرنے کے لیے حکومتی ایڈوائس کا پابند ہوں، حکومت اگر جنرل پرویز مشرف کا کیس میرے پاس بھجواتی ہے تو میں اس پر فیصلے کا مختار ہوں اور اگر جنرل مشرف کا کیس ہی میرے پاس نہیں آتا تو میں ان کی سزا کیسے معاف کر سکتا ہوں چنانچہ یہ معاملہ پہلے حکومت کے پاس جائے گا اور اس کے بعد میرے پاس آئے گا اور میں آئین کے دائرے میں رہ کر اس کا فیصلہ کروں گا اور ہم اب آ جاتے ہیں، میری ذاتی رائے کی طرف۔
میرے خیال میں جنرل پرویز مشرف کو سزا کے بعد "پارڈن" ملنی چاہیے، یہ آمر تھے، انھوں نے 1999ء میں جمہوری حکومت ختم کی، انھوں نے 2007ء میں ایمرجنسی بھی لگائی اور انھوں نے سپریم جوڈیشری پر حملہ بھی کیا، یہ سارے جرائم اپنی جگہ لیکن یہ اس کے باوجود ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہے، یہ ملک کے صدر رہے ہیں، یہ عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی بھی کرتے رہے چنانچہ ایسے شخص کو غداری کی سزا دینے سے ملک کی بدنامی ہوگی، میری ذاتی رائے میں قانون اور انصاف کا عمل پورا ہونا چاہیے اور اس کے بعد اگر گنجائش ہو تو جنرل پرویز مشرف کو "پارڈن" کر کے ملک سے باہر بھیج دینا چاہیے"۔
صدر کا لنچ ختم ہوگیا، میں ایوان صدر سے نکل رہا تھا، دیواروں سے لپٹی دھوپ کی شدت دم توڑ رہی تھی، میں اس ایوان کے مکین چوہدری فضل الٰہی سے ملاقات نہیں کر سکا، یہ میرے ہوش سنبھالنے سے قبل اس ایوان سے رخصت ہو گئے تھے تاہم میں نے ان کے بارے میں بہت کچھ پڑھا، مجھے جمہوری صدر رفیق احمد تارڑ سے ملاقات کا شرف ضرور رہا لیکن مجھے صدر ممنون حسین ان دونوں سے مختلف لگے، یہ ایوان صدر میں بیٹھ کر رفیق احمد تارڑ یا چوہدری فضل الٰہی نہیں بننا چاہتے، یہ ایکٹو جمہوری صدر بننا چاہتے ہیں، یہ ایوان صدر کو سیاست، ثقافت اور ادب تینوں شعبوں میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور یہ بڑی حد تک اس سلسلے میں کامیاب جا رہے ہیں، یہ ٹیک آف کر رہے ہیں۔