Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Salzburg Ki Aik Udas Thandi Sham

    Salzburg Ki Aik Udas Thandi Sham

    گیسٹائین (Gastein) سالسبرگ کی خوبصورت وادی ہے اور سالسبرگ آسٹریا بلکہ پورے یورپ کا خوبصورت ترین شہر۔ سالسبرگ برف پوش پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا علاقہ ہے، یہ علاقہ بہار اور گرمیوں میں سبزے، آبشاروں، پھولوں اور وادیوں کی وجہ سے سیاحوں کی خصوصی توجہ کا باعث ہوتا ہے، گیسٹائین سالسبرگ کا بھی خوبصورت ترین علاقہ ہے، یہ تین چھوٹے شہروں کا مجموعہ ہے، ڈارف گیسٹائین، بیڈ ہاف گیسٹائین اور بیڈ گیسٹائین۔ گیسٹائین پہاڑوں کی ڈھلوان پر آباد ہے۔

    آپ کھڑکی کھولتے ہیں تو آپ کو سامنے برف پوش پہاڑ، پہاڑوں کی اترائیوں پر گھنے جنگل اور جنگلوں کے درمیان سے آبشاریں، پہاڑی جھرنے اور سفید برفیلے پانی کی ندیاں دکھائی دیتی ہیں، آپ کے قدموں کے نیچے سے دریا بہتا ہے اور آپ کو دور دور تک بھیڑ بکریاں، گائے اور سیاہ ہرن نظر آتے ہیں، یہ علاقہ حقیقتاً جنت کا ٹکڑا ہے، گیسٹائین کے مضافات میں یورپ کی خوبصورت ترین سڑک بھی موجود ہے۔

    یہ سڑک لائف ٹائم تجربہ ہے، یہ پچاس کلو میٹر لمبی سڑک ہے، آپ 45 یورو ادا کر کے اپنی گاڑی اس روڈ پر لے جاتے ہیں، یہ سڑک جنت کا سفر ہے، آپ اس کے کسی موڑ، کسی راستے، کسی اسٹاپ کو زندگی میں فراموش نہیں کر سکتے، آپ کو راستے میں درجنوں ریستوران، کافی شاپس اورجوس کارنر ملتے ہیں اور بچوں کے پلے پارکس بھی۔ گیسٹائین اور گیسٹائین کی اس سڑک پر نومبر کے شروع میں برف باری شروع ہو جاتی ہے۔

    میں سالسبرگ کی پہلی برف باری دیکھنا چاہتا تھا اور ہمیں یہ برف باری دیکھنے کے لیے دو ملکوں اور دن بھر کا سفر کرنا پڑا، میں اور مبشر ویلنس سے بائی ائیر کوپن ہیگن پہنچے، ہم نے کوپن ہیگن سے زیورچ کی فلائیٹ لی اور پیرس سے میرے دوست ضیغم ملک گاڑی لے کر زیورچ پہنچے، ضیغم ملک اور ان کے بھائی ازرم چکوال کے گاؤں کھاٹی کے رہنے والے ہیں، یہ پیرس شہر میں کاروبار کرتے ہیں، ضیغم 17 سال کی عمرمیں پیرس آئے، انھوں نے دن رات محنت کی، اللہ نے کرم کیا اور یہ اب پیرس میں شاندار زندگی گزار رہے ہیں، یہ اپنے گاؤں میں ویلفیئر کے کئی منصوبے چلا رہے ہیں، میرے قریبی دوست ہیں، اس قسم کے سفروں میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔

    یہ نوگھنٹے ڈرائیو کر کے زیورچ پہنچے، ہم آٹھ بجے زیورچ اترے اوراس کے بعد سالسبرگ کا سفر شروع کر دیا، یہاں برف باری شروع ہو چکی تھی، یہ سوئٹزر لینڈ کی اس سال کی پہلی برف باری تھی، ہم رات کے سناٹے میں سفر کر رہے تھے، گاڑی کی ہیڈ لائیٹس میں برف کے گالے! یہ ایک عجیب تجربہ تھا، ہماری زندگی میں چند ایسے اوقات آتے ہیں ہم جنھیں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے، صرف محسوس کر سکتے ہیں، ہم انھیں صرف آنکھوں سے چکھ سکتے ہیں، ہماری زندگی میں بعض ایسے مقامات بھی آتے ہیں جب ہماری آنکھیں صرف آنکھیں نہیں رہتیں ان میں اچانک چکھنے اور سونگھنے کی حس بھی پیدا ہو جاتی ہے، آپ جب اس مقام پر پہنچتے ہیں تو آپ کی آنکھیں آپ کو منظر کاذائقہ اور خوشبو بھی ٹرانسمٹ کرتی ہیں، آپ کو اگرمیری بات کا یقین نہ آئے تو آپ تصویریں دیکھنا شروع کر دیں۔

    آپ انٹرنیٹ پر تصویریں تبدیل کرتے جائیں، آپ البم کے ورق الٹتے جائیں، آپ کو بہت جلد وہ تصویر مل جائے گی جس میں ذائقہ بھی ہو گا اور خوشبو بھی، آپ کو اگر یہ تجربہ ہو جائے تو آپ پھرمحسوس کیجیے گا میں اس وقت کیا محسوس کر رہا تھا، ہمارے چاروں اطراف برف گر رہی تھی اور ہم آگے، آگے، مزید آگے سفر کر رہے تھے، ہم راستے میں ایک جگہ رک گئے، یہ سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا کے بارڈر پر ایک چھوٹا سا ریستوران تھا۔

    یہ ریستوران رات کے درمیانے حصے میں بھی آباد تھا، ہم گاڑی سے نکل کر ریستوران تک پہنچے تو ہم آسمان سے اترتی ہوئی روئی میں گم ہو چکے تھے، ریستوران کے اندر کا موسم گرم تھا، یورپ نے ہم سے سو سال قبل زندگی کا سراغ پا لیا، یہ موسم کو کنٹرول کرنے کاہنر سیکھ گئے، آپ کو عمارتوں سے باہر منفی تیس درجہ حرارت ملے گا لیکن آپ جوں ہی عمارت کے اندر داخل ہوں گے آپ کوفوراً 20 سینٹی گریڈ درجہ حرارت ملے گا، کاش ہم بھی یہ ہنر سیکھ جائیں۔

    ہم ساری رات سفرکرتے رہے، صبح چار بجے سالسبرگ پہنچے، ہوٹل تلاش کرنا شروع کیے، ہوٹلوں کی انتظامیہ بارش اور سردی کی وجہ سے کاؤنٹر چھوڑکر غائب ہو چکی تھی، ہم نے کھڑے کھڑے گیسٹائین جانے کا فیصلہ کیا، گیسٹائین سالسبرگ سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا، ہم گیسٹائین روانہ ہو گئے، ضیغم صاحب گیسٹائین کے ایک ہوٹل کی مالک کو جانتے تھے، فون کیا، خاتون نے فون اٹھا لیا، ہمیں دو کمرے مل گئے، صبح ہو چکی تھی۔ ہم نے تقریباً 20 گھنٹے سفر کیا تھا، یہ سفر اب تھکاوٹ بن کر پورے جسم پر اتر رہا تھا، ہم بے سدھ ہو گئے، اگلی صبح، صبح نہیں تھی، وہ ایک ایسی یاد تھی جو شاید مرنے کے بعد بھی ہمارے جینز کے حافظے میں درج رہے، ہمارے کمرے کے تین اطراف دلفریب مناظر تھے، دائیں کھڑکی کے سامنے دو شاندار آبشاریں تھیں، آبشاروں کے گرد گھنا جنگل تھا۔

    آپ ذراتصور کیجیے، گھنا جنگل ہو، درخت سیاہ ہوں، سیاہی مائل تنوں کے آخری سروں پر سرخ اور پیلے رنگ کے پتے ہوں، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہو، اس جنگل کے درمیان سے آبشاریں گر رہی ہوں تو آپ کیسا محسوس کریں گے، ہم بالکل وہی محسوس کر رہے تھے جوآپ ایسے منظر کے سامنے بیٹھ کر محسوس کر سکتے ہیں، بیڈ کی پائینتی میں دوسری کھڑکی تھی اور اس سے شوریدہ سر دریا نظر آتا تھا، دریا کا پاٹ زیادہ نہیں تھا۔

    دوسری طرف شاپنگ سینٹرز اور کافی شاپس تھیں اُدھر اور اِدھر دریا کے ساتھ ساتھ کرسمس ٹری کا جنگل تھا، یہ صنوبر کے چھوٹے سائز کے درخت تھے جنھیں یہ لوگ کرسمس کے دنوں میں سجا کر کرسمس مناتے ہیں اور کمرے کی بائیں کھڑکی سے دوسرا پہاڑ نظر آتا تھا، یہ چیڑھ کے درختوں کا گھنا جنگل تھا، یہ منظر صرف منظر نہیں تھا، یہ پتھر کی لکیر تھا اور یہ لکیر ہماری جمالیات کی سلیٹ پر نقش ہو گئی۔

    یہ ہوٹل ایک آسٹرین خاتون کی ملکیت تھا، یہ درمیانی عمر کی ایک پرجوش اور فرینڈلی خاتون تھی، یہ ایک بزرگ خاتون کے ساتھ مل کر پورا ہوٹل مینج کر رہی تھی، یہ 27 کمروں کا تین منزلہ ہوٹل تھا، کمرے صاف ستھرے اور آرام دہ تھے، مجھے یورپ کی یہ عادت بہت اچھی لگتی ہے، یورپ میں دو تین لوگ پورا پورا ریستوران، پورا پورا ہوٹل اور پوری پوری دکان چلاتے ہیں اور کسی کے چہرے پر بیزاری یا تھکن نظر نہیں آتی، ہم جس ریستوران میں جاتے ہیں، وہاں دو تین لوگ سو سو لوگوں کو کھانا بنا کر کھلاتے ہیں اور کسی جگہ گند ہوتا ہے اور نہ ہی بدنظمی دکھائی دیتی ہے جب کہ ہمارے اسٹورز، ریستورانوں اور ہوٹلوں میں درجنوں ملازم ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں گندگی کے ڈھیر بھی ہوتے ہیں، بدنظمی بھی اور سروس بھی ٹھیک نہیں ہوتی، یہ لوگ دل لگا کر کام کرتے ہیں اور کام سے یہ دلچسپی ان کی کامیابی کا بہت بڑا راز ہے۔

    ہم لوگ ناشتے کے بعد یورپ کی خوبصورت سڑک کی طرف نکل گئے لیکن بدقسمتی سے برف باری کی وجہ سے سڑک بند ہو چکی تھی، ہم ٹول پلازے تک پہنچے تو اس پر سرخ رنگ سے کراس کا نشان لگا تھا، ٹول پلازہ سنسان تھا، انتظامیہ برف باری شروع ہوتے ہی نیچے شہر میں منتقل ہو گئی تھی، وہاں دور دور تک کوئی بندہ بشر دکھائی نہیں دیتا تھا، میں نے اپنے ساتھیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی ہم بیریئر ہٹا کر آگے نکل جاتے ہیں لیکن دونوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر انکار کر دیا، یہ بیس سال سے یورپ میں رہ رہے ہیں، یہ قانون سے بہت ڈرتے ہیں، ان کا کہنا تھا حکومت نے کراس کانشان لگا کر یہ سڑک بند کر دی ہے۔

    یہ نشان پوری ریاست ہے اور کوئی شخص اس نشان کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا، حکومت اس نشان کی خلاف ورزی کو اپنے خلاف آرٹیکل سکس سمجھے گی، میں نے ان سے پوچھا " ہم اگریہ لائین کراس کر جاتے ہیں تو؟ " دونوں نے مسکرا کر جواب دیا حکومت کو اگر معلوم ہو گیا کوئی گاڑی اس ٹول پلازے سے آگے نکلی ہے تو چند لمحوں میں یہاں پولیس اور فوج کی گاڑیاں پہنچ جائیں گی، یہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھی ہم تک پہنچ جائیں گے اور اس کے بعد ہم جیل میں ہوں گے، یہ لوگ اس قسم کی سنگین غلطیاں معاف نہیں کرتے، میں نے گھبرا کر سرخ کراس کی طرف دیکھا، اسے جھک کر سلام کیا اور ٹول پلازے سے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔

    ہمارے چاروں اطراف پہاڑ تھے اور پہاڑوں نے برف کی چادر اوڑھ رکھی تھی، ٹھنڈی ہوا یلغار کر رہی تھی، درجہ حرارت یقینا منفی تھا، پہاڑ کے قدموں میں دو ہرن ہمیں غور سے دیکھ رہے تھے، وہ شاید ہماری حماقت پر ہنس رہے تھے، ان کا خیال تھا جب علاقے کے لوگ نیچے شہر منتقل ہو گئے ہیں تو یہ کون سی مخلوق ہے جو اس وقت احمقانہ انداز سے دائیں بائیں دیکھ رہی ہے، ہم اس وقت واقعی مخلوق لگ رہے تھے، ہم احمقانہ انداز سے دائیں بائیں بھی دیکھ رہے تھے اور ہماری یہ حرکت اس قدر نامعقول تھی کہ ہرن تو رہے ایک طرف برف پوش پہاڑ، گیلی سڑک، بارش کی نرم پھوار اور دائیں سے بائیں جانب ہلکورے لیتی دھند وہ پورا منظر ہمیں احمق سمجھ رہا تھا، ہم نے ماحول کی آواز سن لی چنانچہ ہم واپس چل پڑے، ہم شہر واپس پہنچے تو شام ہو چکی تھی، روشنیاں جل رہی تھیں۔

    ریستورانوں میں میوزک چل رہا تھا اور شہر کی تنگ گلیوں میں لوگ بھوت بن کر پھر رہے تھے، آپ نے اگر کبھی سردیوں میں یورپ کی سیر نہیں کی تو میرا آپ کو مشورہ ہے آپ زندگی میں کم از کم دو تین مرتبہ یہ تجربہ ضرور کریں کیونکہ یہ تجربہ آپ کو نئے ذائقوں سے متعارف کروائے گا، آپ سردی، بارش اور اداسی میں گندھی ایک ایسی رومانویت سے متعارف ہوں گے جو آپ پاکستان میں رہ کر محسوس نہیں کر سکتے، آپ یورپ جائیں اور بارش اور برف میں رات کے کسی پہر گیسٹائین جیسے کسی شہر کی اداس تنگ گلیوں میں نکل جائیں اور شہر کے بیل ٹاور سے ہر آدھ گھنٹے بعد گھڑیال کی آواز سنیں اور گرتی ہوئی برف کی سرسراہٹ اور کافی شاپس اور شراب خانوں کے کھلتے بند ہوتے دروازوں کی آواز سنیں اور چمنیوں سے سفید دھوئیں کی اٹھتی ہوئی بے قرار لکیریں دیکھیں اور اپنے برف ہوتے ہوئے پاؤں کی بے چینی ملاحظہ کریں، آپ یقین کریں آپ کا زندگی کے بارے میں زاویہ بدل جائے گا۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.