عمران خان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان دوری کی وجوہات سے پہلے آپ کو مسلم دنیاکے تیسرے بڑے تنازعے کو جاننا ہوگا، ترک صدر طیب اردگان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد سمجھتے ہیں۔
مسلمانوں کی تعداد عربوں سے زیادہ ہے لہٰذا ہم لوگ اسلام کے اصل امین ہیں جب کہ عربوں کا دعویٰ ہے ہمارے پاس مکہ اور مدینہ ہیں چناں چہ ہم اسلام کے وارث ہیں، او آئی سی عربوں کی سب سے بڑی سیاسی اور سفارتی طاقت ہے، یہ اس پر بہت حساس ہیں اورطیب اردگان اور مہاتیر محمد یہ طاقت ان سے چھیننا چاہتے ہیں اور پاکستان نے اس کشمکش میں ہمیشہ عربوں کا ساتھ دیا، کیوں؟
کیوں کہ ہمارے پچاس لاکھ ہنر مند عرب ملکوں میں کام کرتے ہیں اور یہ "فارن ریمیٹنس" کا سب سے بڑا سورس ہیں، دوسرا عرب ملک 70 برسوں سے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں اور تیسرا سعودی عرب ہماری مذہبی عقیدت کا مرکز ہے چناں چہ ہم ہمیشہ سعودی عرب کے گروپ میں رہے لیکن عمران خان کے دور میں یہ پرانی اور مضبوط دیوار بھی ہلنے لگی۔
سعودی حکمران خاندان نے شروع میں عمران خان کا والہانہ استقبال کیا، ولی عہد نے عمران خان کو اپنا بڑا بھائی تک ڈکلیئر کر دیا لیکن پھر اچانک عمران خان کے مزاج نے پلٹا کھایا اوریہ تعلقات خراب ہوتے چلے گئے، 2019کے وسط میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے اسلامی ملک کے وزیر خارجہ کے کان میں سرگوشی کر دی۔
ہم ملائیشیا کے ساتھ مل کر او آئی سی کا متبادل بنا رہے ہیں، اس وزیر خارجہ نے یہ بات سعودی عرب کو بتا دی اور یہاں سے تعلقات میں پہلی دراڑ آ گئی، ملائیشیا2014سے کوالالمپور سمٹ کرا رہا تھا لیکن یہ زیادہ کام یاب نہیں ہوتی تھی تاہم 2019 کی کانفرنس ماضی سے مختلف تھی، اس میں ترکی اور پاکستان ملائیشیا کے ساتھ مل کر او آئی سی سے بڑی تنظیم کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے اور اس منصوبے کے روح رواں عمران خان تھے، یہ ان کا آئیڈیا تھا، انھوں نے مہاتیر محمد کو بھی تیار کر لیا اور طیب اردگان کو بھی، سعودی عرب اس پر خوش نہیں تھا۔
19 دسمبر 2019 کو کوالالمپور سمٹ تھی، سعودی عرب چاہتا تھا پاکستان اس میں شرکت نہ کرے، عمران خان پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے اور یوں تعلقات تقریباً خاتمے تک پہنچ گئے، ٹینشن کے اس دور میں وزیراعظم کے معاون خصوصی حافظ طاہر اشرفی نے اہم کردار ادا کیا، یہ سعودی شاہی خاندان کے بہت قریب ہیں، اسٹیبلشمنٹ نے انھیں درمیان میں ڈالا اور انھوں نے بڑی مشکل سے ولی عہد کو عمران خان سے ملاقات کے لیے راضی کیا، وزیراعظم سے پہلے جنرل فیض حمید اور شاہ محمود قریشی ریاض گئے۔
سعودی وزیر خرجہ نے شاہ محمود کو بہت ٹف ٹائم دیا تاہم جنرل فیض کی میٹنگ تھوڑی سی کام یاب رہی، قصہ مختصر وزیراعظم 14 دسمبر 2019 کو کوالالمپور سمٹ سے پانچ دن پہلے ایک دن کے لیے ریاض پہنچے، یہ رٹس کارٹل ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، ملاقات کا وقت دن ڈیڑھ بجے تھا، وزیراعظم ہوٹل میں بیٹھے رہے لیکن ولی عہد نے عمران خان کو نہیں بلایا، یہ رویہ ماضی سے بالکل مختلف تھا۔
ایک وقت تھا جب کرائون پرنس وزیراعظم کوائیرپورٹ پر ریسیو کرتے تھے اور خود ڈرائیو کر کے واپس ائیرپورٹ چھوڑتے تھے اور ایک یہ وقت آ گیا جب ہمارے وزیراعظم ہوٹل میں بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں اور کرائون پرنس شیڈولڈ میٹنگ کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، تین ساڑھے تین گھنٹے گزر گئے لیکن دوسری طرف سے "انتظار کریں" کا پیغام آتا رہا، عمران خان، عمران خان ہیں چناں چہ انھوں نے ہوٹل کے ریستوران میں کھانے کی میز پر کرائون پرنس کے خلاف تقریر شروع کر دی۔
ان کا کہنا تھا "میں نے اگر ان سے پیسے نہ لینے ہوتے تو میں۔۔ کر دیتا"ہوٹل کا اسٹاف صرف ہوٹل کا اسٹاف نہیں تھا لہٰذا یہ گفتگو دوسری طرف پہنچ گئی، قصہ مزید مختصروزیراعظم کے اسٹاف نے آرمی چیف سے رابطہ کیا، انھیں درمیان میں ڈالا گیا اور یوں جنرل باجوہ کی کال کے بعد ولی عہد شام ساڑھے چھ بجے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے ہوٹل آئے، میٹنگ میں فیصلہ ہوا پاکستان کا کوئی وفد کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کرے گا، ملاقات ختم ہوگئی۔
وزیراعظم ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے تو انھوں نے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے سیکریٹری خارجہ کی سربراہی میں وفد کوالالمپور بھجوانے کی ہدایات دے دیں، یہ ہدایات بھی سعودی حکام تک پہنچ گئیں، وزیراعظم ابھی فضا میں تھے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں فون آگیا "آپ نے آدھ گھنٹے میں وعدہ توڑ دیا" سعودی عرب کو یقین دلایا گیا "ہم وعدہ پورا کریں گے" اور یوں پاکستان نے ملائیشیا سے معذرت کر لی، یہ معاملہ سیٹل ہوگیا لیکن چند دنوں میں دو نئے کٹے کھل گئے۔
وزیراعظم نے واپسی پر کابینہ کے اجلاس میں کرائون پرنس کے رویے کو ناشائستہ اور پاکستان کی توہین قرار دے دیا اور پھر انھیں دس بارہ منٹ پنجابی میں برا بھلا کہتے رہے، یہ گفتگو دو وزراء نے سعودی سفیر تک پہنچا دی، سفیر نے ٹرانسلیشن شروع کرائی تو یہ اطلاع اسٹیبلشمنٹ تک پہنچ گئی، حافظ طاہر اشرفی کو ایک بار پھر درمیان میں ڈالا گیا اور انھوں نے بڑی مشکل سے یہ مسئلہ بھی حل کرایا۔
میں نے اشرفی صاحب سے پوچھا "وزیراعظم کی تحقیقات کے مطابق یہ اطلاع۔۔ اور۔۔ نے سفیر تک پہنچائی تھی" طاہر اشرفی کا جواب تھا " میں تصدیق اور تردید کی پوزیشن میں نہیں ہوں"۔ دوسرا کٹا طیب اردگان نے کھول دیا، ڈیوس میں 21 جنوری 2020 کو ورلڈ اکنامک فورم کی میٹنگ تھی، عمران خان نے وہاں ساری بات طیب اردگان کو بتا دی اور طیب اردگان نے یہ راز میڈیا ٹاک میں پوری دنیا تک پہنچا دیا اور یوں سرد مہری برف میں تبدیل ہوگئی۔
2020 پاک سعودی تعلقات کا بدترین سال تھا، اس سال عمران خان سعودی عرب گئے اور نہ کوئی وہاں سے یہاں آیا، عمران خان نے سعودیز کو مزید چڑانے کے لیے اپریل 2020 میں پاکستان میں ارطغرل ڈرامہ بھی شروع کرا دیا، سعودی عرب اور ترکی میں 1517 سے اختلافات ہیں، ترک پہلی جنگ عظیم تک سعودی عرب پر قابض رہے، ترکوں نے آل سعودکے تمام مرد قتل کر دیے تھے، صرف تین چار مرد بچے تھے اور یہ بھی کویت میں پناہ گزین رہے تھے لہٰذا یہ ہمیشہ ترکی سے فاصلے پر رہے مگر ہم نے عین اختلافات کے دنوں میں ارطغرل ڈرامہ چلا دیا اور اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔
اونٹ کی کمر پر آخری تنکا شاہ محمود قریشی نے 5 اگست 2020 کو رکھ دیا، انھوں نے ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر سعودی عرب کو سیدھی سادی دھمکی دے دی اور جواب میں سعودی عرب نے ہمیں ڈیفر پے منٹ پر پٹرول دینا بھی بند کر دیا اور اسٹیٹ بینک میں پارک اپنے ایک بلین ڈالر بھی واپس مانگ لیے، پاکستان کے پاس اس وقت سرمائے کی قلت تھی۔
وزیراعظم نے حسب عادت یہ ایشو بھی فوج کے حوالے کر دیا اور آرمی چیف نے بڑی مشکل سے چین سے سود پر بلین ڈالر لے کر سعودی عرب کو واپس کیے اور پاک سعودی سرد مہری کا کلائمیکس 9 دسمبر 2020کو بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند نروانے کا سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ تھا، یہ کسی بھارتی آرمی چیف کا سعودی عرب اور یو اے ای کا پہلا دورہ تھا۔
یہ خطرے کا آخری الارم تھا کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی ریڈنگ کے مطابق بھارت سعودی عرب کو عسکری ٹریننگ اور مسلمان فوج دینے کے لیے تیار تھا، اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر درمیان میں آنا پڑا، جنرل فیض حمید کی کوششوں سے بھارتی آرمی چیف کے دورے کی تاریخیں تبدیل ہوئیں اوراس کی ولی عہد کے ساتھ میٹنگ بھی نہ ہو سکی۔
یہ آخری حد تھی، پاکستان اور سعودی عرب کا دھاگا ٹوٹ رہا تھا، اسے بچانے کے لیے آرمی چیف اور ڈی جی آئی کو بے تحاشا کام کرنا پڑا، اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب آرمی چیف نے سعودی عرب کے ڈپٹی ڈیفنس منسٹر کو کہا "آپ اگر ہم پر سارے دروازے بند بھی کر دیں گے تو بھی ہم باہر بیٹھ جائیں گے کیوں کہ آپ بیت اللہ اور روضہ رسولؐ کے محافظ ہیں" یہ سن کر ڈپٹی ڈیفنس منسٹر اٹھا، اس نے آرمی چیف کو سینے سے لگایا اور کہا "آپ اور میں آج سے بھائی بھائی ہیں۔
آپ کا کوئی بھی مسئلہ ہو آپ مجھ سے براہ راست بات کریں" ایک طرف سعودی عرب کو منانے کی کوششیں جاری تھیں اور دوسری طرف تین مارچ 2021 کو جب ٹیلی ویژن پر یوسف رضا گیلانی کے جیتنے اور حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کے ہارنے کی خبر چل رہی تھی عین اس وقت عمران خان نے اپنے دفتر میں چار لوگوں کے سامنے کہہ دیا "کیا۔۔۔ کا تختہ نہیں الٹا جا سکتا" وزیراعظم کے سامنے ایک ایسا شخص بھی بیٹھا تھا جو تعلقات کی بحالی کی خوش خبری سنانے آیا تھا وہ یہ سن کر حیران رہ گیا۔
وہ اٹھا، سیدھا جی ایچ کیو گیا اور آرمی چیف سے کہا "سر مجھے نکالیں، میں خواہ مخواہ مارا جائوں گا" اسے تسلی دی گئی اور کہا گیا "آپ یہ کام ملک کے لیے کر رہے ہیں کسی ایک شخص کے لیے نہیں" بہرحال قصہ مختصر 2021 کے رمضان میں کرائون پرنس اور عمران خان کے درمیان پہلا ٹیلی فونک رابطہ ہوا، رابطے کی یہ خبر طاہر اشرفی وزیراعظم کے پاس لے کر گئے اور وزیراعظم نے بڑی نخوت سے کہا "چھوڑو یار وہ مجھے کہاں فون کرے گا؟"
وزیراعظم کو بتایا گیا" فون آئے گا لیکن آپ نے پلیز ایران، یمن، عالم اسلام اور ریاست مدینہ کی بات نہیں کرنی، آپ صرف دو برادر ملکوں کے درمیان تعلقات تک محدود رہیں" یہ ہدایات وزیراعظم کے اسٹاف کو بھی دے دی گئیں، انھیں کہا گیا، وزیراعظم اس کے علاوہ ایک لفظ نہیں بولیں گے، تعلقات کا دھاگا بڑی مشکل سے جڑا تھا اور ریاست وزیراعظم کی ذرا سی بے احتیاطی بھی افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔
(جاری ہے)