Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shuhda e Atta

Shuhda e Atta

زہرہ مائی اور کندن مائی دونوں کزن تھیں اور بستی عارف میں رہتی تھیں، اب یہ بستی عارف کہاں ہے؟ یہ جتوئی کے مضافات میں ہے اور اس بستی میں صرف غریب رہتے ہیں، کتنے غریب؟ اتنے غریب کہ یہ صرف آٹے کے ایک تھیلے کے لیے جان دے سکتے ہیں اور کندن مائی اور زہرہ مائی بھی ایسی ہی تھیں، وزیراعظم نے پنجاب اور اسلام آباد میں مفت آٹا دینا شروع کیا ہے۔

اب سوال یہ ہے یہ اسکیم صرف پنجاب اور اسلام آباد تک کیوں محدود ہے؟ شاید وزیراعظم کو 45 مشیروں میں سے کسی نے یہ اطلاع دے دی ہو سندھ اور بلوچستان میں لوگ آٹا نہیں کھاتے، وہاں صرف کیک کھائے جاتے ہیں۔

چناں چہ یہ اسکیم صرف پنجاب اور اسلام آباد تک محدود کر دی گئی اور یہ بھی ممکن ہے وزیراعظم خود کو صرف اسلام آباد اور پنجاب کا وزیراعظم سمجھتے ہوں اور انھوں نے باقی ملک کو آزاد مملکت سمجھ لیا ہو بہرحال ہم زہرہ مائی اور کندن مائی کی طرف واپس آتے ہیں، یہ دونوں بھی ہفتہ 25 مارچ کو مفت آٹا لینے تحصیل جتوئی کے آٹا پوائنٹ پر گئیں۔

لائن لمبی تھی اور آٹے کے تھیلے کم تھے چناں چہ بھگدڑ مچ گئی، یہ دونوں زمین پر گریں اور آٹے کے امیدوار ان کے اوپر سے گزرتے چلے گئے اور یہ دونوں ان کے پاؤں تلے کچلتی چلی گئیں یہاں تک کہ یہ قیمہ بن گئیں۔

انھیں اسپتال پہنچایا گیا لیکن زہرہ مائی اس وقت تک انسان کہاں رہی تھی، وہ قیمہ بن کر دنیا سے رخصت ہو چکی تھی تاہم ڈاکٹرز نے کندن مائی کو بچا لیا لیکن یہ بچنا بھی کیا بچنا تھا، یہ آدھی رہ چکی ہے اور اس کا آدھا وجود آٹے کے میدان کا رزق بن چکا ہے اور یہ واقعہ کہاں پیش آیا؟ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پیش آیا، وہ ملک جو پاک بھی ہے۔

جمہوریہ بھی اور اسلامی بھی لہٰذا میں اگر زہرہ مائی کو شہید آٹا کہوں تو یہ غلط نہیں ہوگا کیوں؟ کیوں کہ اسلامی ملکوں میں مرنے والے خود بخود شہید ہو جاتے ہیں۔

زہرہ مائی بھگدڑ میں شہید ہونے والی پہلی خاتون نہیں ہے، شہدائے آٹا کی تعداد اب تک آدھ درجن ہو چکی ہے اور بہاول نگر، منچن آباد، دیپالپور، ملتان، فیصل آباد، قصور، کوٹ ادو، تونسہ، چارسدہ، بنوں اورمردان میں بھگدڑ مچ چکی ہے اور ان میں درجنوں لوگ زخمی بھی ہو چکے ہیں۔

پشاور میں ہجوم نے فلور مل کا گیٹ توڑ دیا، فیصل آباد میں 74 برس کا بزرگ آٹے کی نذر ہوگیا، حافظ آباد میں رش نے درجن بھر لوگوں کو زخموں کے ساتھ گھر بھجوایا، کمالیہ اور بہاول نگر میں لوگ ایک دوسرے کے نیچے کچلے گئے۔

تین خواتین شدید زخمی ہوگئیں، قصور کے ہاکی گراؤنڈ نے پورے ملک کو پیچھے چھوڑ دیا، پولیس نے بھوک سے مارے لوگوں پر لاٹھی چارج تک کیا، کوٹ ادو میں آٹے کی لائن میں کھڑی خاتون اپنی باری سے پہلے ہارٹ اٹیک سے ماری گئی، ملتان میں بھی ایک بزرگ قطار میں کھڑا کھڑا فوت ہوگیا۔

خیرپور ٹامیوالی، پتوکی اور خان پور میں مظاہرے ہوئے اور آٹے کے لیے لڑائی بھی، شکر گڑھ میں ڈنڈا بردار شہریوں نے آٹے کا ٹرک لوٹ لیا جب کہ رحیم یار خان میں آٹا تقسیم کرنے والوں نے آٹا لے جانے والوں کو تھپڑوں کا نشانہ بنایا اور یہ ایسے درجنوں واقعات میں سے چند ہیں جب کہ پورے پنجاب میں ہر آٹا لائن میں یہی ہو رہا ہے۔

یہ واقعات تین حقیقتیں ثابت کرتے ہیں، اول، ملک میں غربت اس سطح تک پہنچ چکی ہے جہاں لوگ آٹے کے ایک تھیلے کے لیے جان کی بازی لگا دیتے ہیں لہٰذا آپ خود اندازہ کر لیجیے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ دوم، ہم من حیث القوم نظم و ضبط، صبر اور برداشت سے محروم ہیں، ہمارے لوگ آٹے کا تھیلا لینے کے لیے بھی قطار نہیں بنا سکتے، اپنی باری کا انتظار نہیں کر سکتے اور اپنے جیسے غریبوں کا احساس نہیں کر سکتے اور یہ المیوں کی شکار قوم کے لیے کتنا بڑا مسئلہ ہے اور سوم ہمارے بیورو کریٹک اور سرکاری نظام میں اتنی بھی اہلیت نہیں رہی کہ یہ عزت اور ڈسپلن کے ساتھ آٹا ہی تقسیم کر سکے۔

لہٰذا پھر سوال یہ ہے ہماری افسر شاہی اگر یہ بھی نہیں کر سکتی تو پھر اس سارے تام جھام کی کیا ضرورت ہے اور ہم ساری بیوروکریسی ختم کرکے یہ رقم غریبوں میں تقسیم کیوں نہیں کر دیتے؟ کم از کم ان لوگوں کا آٹا تو پورا ہو جائے گا، کیا قومیں ایسی ہوتی ہیں، کیا ملک اس طرح چلتے ہیں؟

ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے ہم سسٹم کے فیلیئر کی بدترین مثال ہیں، ہم ملک میں آج تک ٹریفک سیدھی نہیں کر سکے، ریلوے پھاٹک نہیں بنا سکے، قوم کو سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ کے استعمال پر راضی نہیں کر سکے، ڈاکٹری نسخے کے بغیر ادویات کی فروخت کنٹرول نہیں کر سکے، نشہ آور ادویات پر قابو نہیں پا سکے۔

جھوٹے مقدمات نہیں روک سکے، جعلی ڈاکٹرز، جعلی ڈگریوں اور جعلی پراڈکٹس نہیں روک سکے اور ہم آج تک عوام کو اصلی خوراک تک نہیں دے سکے، سوال یہ ہے پھر ہم خود کو ملک کیوں کہتے ہیں؟ میری حکومت سے درخواست ہے آپ کچھ اور نہ کریں آپ مہربانی فرما کر آٹے کی سپلائی کا کوئی باعزت راستہ تلاش کر لیں، آپ برازیل ہی سے سیکھ لیں، لولاڈی سلوا نے اپنے سابق دور میں برازیل میں غربت کے خاتمے کا شان دار منصوبہ متعارف کرایا تھا۔

حکومت غریبوں کے اکاؤنٹ میں رقم ڈال دیتی تھی اور لوگ اسٹورز سے عام لوگوں کی طرح کھانے پینے کی اشیاء خرید لیتے تھے، پیپلز پارٹی کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام لولا ڈی سلوا کے بولسافیملیا (Bolsa Família)کی کاپی ہے، حکومت بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے غریب لوگوں کو پیسے بھجوا دیتی تھی اور یہ لوگ بازار سے آٹا خرید لیتے تھے، ہم یہ کیوں نہیں کرسکتے؟ ہم موبائل فونز کے ذریعے لوگوں کو پیسے بھجوا دیں اور یہ بازار سے آٹا خرید لیں، ترکی میں ہر شہر میں رضا کار موجود ہیں۔

حکومت انھیں اشیاء اور لوگوں کی فہرست دے دیتی ہے اور یہ رضا کار عزت کے ساتھ کھانے پینے کا سامان لوگوں کے گھروں میں پہنچا دیتے ہیں، ہم 22 کروڑ لوگوں کا ملک ہیں، کیا حکومت کو 22 کروڑ لوگوں میں دو کروڑ رضا کار نہیں مل سکتے؟ ہم ایک ہی بار "رضا کار فورس" کیوں نہیں بنا لیتے؟ حکومت اناؤنس کرے، لوگ خود کو بطور رضا کار رجسٹرڈ کرائیں اور حکومت آفات اور ایسی آٹا اسکیموں کے دوران رضا کاروں کی مدد لے لے، ملک میں اخوت، سیلانی، الخدمت اور ریڈ فاؤنڈیشن جیسی سیکڑوں این جی اوز ہیں۔

یہ نیک نیت لوگ ہیں، حکومت ان کی مدد لے سکتی ہے، یہ لوگ نہایت ایمان داری سے رقم اور راشن تقسیم کر دیں گے اور حکومت فون کرکے تصدیق کر لے گی اور ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کا طویل ترین نیٹ ورک موجود ہے۔

ملک کے تمام حصوں میں اسکول اور کالج ہیں، حکومت یہ فریضہ اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کو بھی سونپ سکتی ہے، آٹے کا ایک ایک ٹرک اسکولوں میں بھجوا دیا جائے اور ہیڈ ماسٹرز اپنی نگرانی میں طالب علموں کے ذریعے یہ آٹا تقسیم کر دیں لیکن یہ تمام طریقے کیوں کہ باعزت ہیں اور ان میں وزیراعظم کی تصاویر چھپنے کی گنجائش بھی نہیں اور ان میں بیوروکریسی کیمپس کے بندوبست کے نام پر کروڑوں روپے بھی پار نہیں کر سکتی چناں چہ حکومت اس طرف نہیں آئے گی۔

ہڑبونگ، افراتفری اور دھکم پیل سے کیوں کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا پروفائل بڑھتا ہے، یہ تھیلے تقسیم کرکے غریبوں کے ساتھ تصویریں اتروا سکتے ہیں اور یہ آٹا شہیدوں کے نام پر بیوروکریٹس کو معطل بھی کر سکتے ہیں اور ٹیلی ویژن چینلز کو وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا یا وزیراعظم سخت برہم کے ٹکرز بھی بھجوا سکتے ہیں چناں چہ یہ سسٹم کی طرف نہیں جا رہے، یہ کوئی باعزت طریقہ تلاش نہیں کر رہے، کیوں؟ کیوں کہ اس میں پبلسٹی کی گنجائش نہیں ہے۔

حکومت مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے اس آٹا اسٹنٹ کا مقصد عمران خان کی مقبولیت کا مقابلہ ہے، عمران خان دن بہ دن مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے، یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے قابو نہیں آ رہا، حکومت نے لاہور کا 25مارچ کا جلسہ ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر لاہور کا جلسہ ہوا اور یہ بھرپور بھی تھا۔

میں عمران خان کی طرز سیاست سے اتفاق نہیں کرتا، میرا خیال ہے عمران خان کے پاس ملک کو بحران سے نکالنے کا کوئی پلان موجود نہیں، یہ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور سپورٹ کے باوجود اگر ساڑھے تین سال میں کچھ نہیں کر سکے تھے تو یہ اس بار اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کیا پہاڑتوڑلیں گے مگر اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے عمران خان اپنی شہرت کی پیک چھو رہے ہیں۔

لوگ ان کے ساتھ ہیں اور اگر آج الیکشن ہو جائے تو عوام عمران خان کے کھمبے کو بھی ووٹ دے دیں گے تاہم یہ بات بھی درست ہے عمران خان کا اگلا دور ملک کا مشکل ترین دور ہوگا، عمران خان چھ ماہ نہیں نکال سکیں گے اور ان چھ ماہ میں ملک بحیرہ عرب میں تیر رہا ہوگا مگر اس حقیقت کو اس وقت کون سنے گا۔

کون مانے گا؟ لوگوں کے پاگل پن کو ایک ہیرو چاہیے اور عمران خان اس وقت ہیرو ہیں اور پوری ریاست اور پوری حکومت مل کربھی عمران خان کا قد چھوٹا نہیں کر پا رہی، عمران خان روزانہ کی بنیاد پر بڑے ہوتے چلے جا رہے ہیں اور وزیراعظم اگر ایسی درجنوں آٹا اسکیمیں بھی شروع کر لیں تو بھی یہ عمران خان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے، عمران خان وہ مولا ہے جسے صرف مولا ہی مار سکتا ہے۔

یہ وہ آگ ہیں جو ہمیشہ اپنے ہی وجود میں جل کر بجھتی ہے اور عمران خان کو بجھانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے آپ اسے جلنے دیں، عمران خان کے شعلے اپنے آپ سے ٹکرا کر ختم ہو جائیں گے مگر میں جانتا ہوں پی ڈی ایم یہ رسک نہیں لے گی، یہ الیکشن نہیں کرائے گی اور اسی طرح آٹے جیسے اسٹنٹس میں دفن ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو ووٹ دینے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.