قاسم علی شاہ سے میری پہلی ملاقات 2010 میں ہوئی، یہ اس وقت لاہور کے ایک چھوٹے سے محلے میں اکیڈمی چلا رہے تھے، یہ پروفیسر ارشد جاوید کے ساتھ تشریف لائے، گپ شپ ہوئی اور میری ان سے دوستی ہوگئی، میں ان کی اکیڈمی بھی گیا۔
یہ چھوٹے سے پرانے گھر میں بنی ہوئی تھی اور بچے فرش پر بیٹھ کر پڑھتے تھے لیکن بچوں کی علمی قابلیت ایچی سن کے طالب علموں سے زیادہ تھی، بہرحال شاہ صاحب کے ساتھ ایک دائمی تعلق بن گیا، یہ محبت اور خدمت کرنے والے انسان ہیں، میں جب بھی لاہور جاتا تھا، یہ مجھے ائیر پورٹ سے لیتے تھے اور واپسی تک میرے ساتھ رہتے تھے، یہ ان کی مہربانی اور عاجزی تھی۔
ان میں آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور کام یاب ہونے کا بے تحاشا جذبہ تھا، یہ اس وقت سیشنز، موٹی ویشن اور ٹریننگ کا ذکر کرتے تھے جب ہم لوگ اس کی اے بی سی بھی نہیں جانتے تھے، یہ اس وقت اس مارکیٹ میں داخل ہوئے جب یہ مارکیٹ پاکستان میں مارکیٹ نہیں بنی تھی، یہ اس وقت یوٹیوب، فیس بک اور ٹویٹر کی تعریف کرتے تھے جب ہم لوگ آئی فون خرید کر خوش ہو تے تھے۔
یہ میرے سامنے ٹریننگ کے بزنس میں داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آگے بڑھتے چلے گئے، عقل مند اور محنتی ہیں لہٰذا انھوں نے بہت جلد اپنی جگہ بنا لی اور ہم سب سے آگے نکل گئے، میں اگر یہ کہوں پاکستان میں سیلف ہیلپ کو مارکیٹ بنانے کا کریڈٹ صرف قاسم علی شاہ کو جاتا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا، بے شک ان سے پہلے بھی ملک میں ٹرینر تھے لیکن وہ عوام الناس تک نہیں پہنچ پاتے تھے۔
لوگ ان کے نام تک سے واقف نہیں تھے، یہ قاسم علی شاہ کا کمال ہے اس نے اس فن کو عام لوگوں سے بھی متعارف کرایا اور اسے باقاعدہ بزنس بھی بنایا، میں اگر آج سیشن کر رہا ہوں اور اس میں لوگ بھی آ جاتے ہیں اور اس سے میری ٹیم کا نان نفقہ بھی چل رہا ہے تو اس کا کریڈٹ قاسم علی شاہ کو جاتا ہے۔
یہ اگر سیلف ہیلپ کو مارکیٹ اور فیشن نہ بناتے تو شاید آج ملک میں کوئی موٹی ویشنل اسپیکر، ٹرینر یا لائف کوچ نہ ہوتا، میں روزانہ ایسے سیکڑوں نوجوان دیکھتا ہوں جو قاسم علی شاہ بننا چاہتے ہیں، جو شاہ صاحب کی نقالی کر کے سوشل میڈیا پر کام یاب ہو رہے ہیں اور یہ اس شخص کا کریڈٹ ہے اور ہم اگر اسے یہ کریڈٹ نہ بھی دیں تو بھی یہ اسی کا رہے گا۔
قاسم علی شاہ نے اس دوران لاہور میں قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن بنائی اور نئے نئے پروجیکٹ شروع کر دیے لیکن ان کا "تعلیم مکمل منصوبہ" حیران کن ہے، یہ منصوبہ کیا ہے؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کوجدید دنیا کی جدید تعلیم کے بارے میں بتاتا چلوں، پوری دنیا میں ڈگری کے بجائے سکل پر توجہ دی جاتی ہے۔
یورپی یونیورسٹیاں انجینئر کو انجینئر، ڈاکٹر کو ڈاکٹر اور وکیل کو مکمل وکیل بناتی ہیں، یہ لوگ یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد مکمل پروفیشنل ہوتے ہیں، دوسرا یورپی ادارے انسان کو انسان بھی بنا دیتے ہیں، یہ بچوں کو واش روم سے لے کر گفتگو تک زندگی کی 14 بنیادی سکلز بھی سکھا دیتے ہیں چناں چہ ترقی یافتہ ملکوں کے نوجوانوں کے پاس صرف ڈگری نہیں ہوتی پروفائل ہوتا ہے۔
یہ اپنے پروفیشن کے ساتھ ساتھ 14 بنیادی سکلز کے بھی ایکسپرٹ ہوتے ہیں مثلاً یورپ میں یہ ہو نہیں سکتا کوئی طالب علم کالج یا یونیورسٹی سے نکلے اور اسے ٹیبل مینرز نہ آتے ہوں، وہ شڑپ شڑپ کر کے چائے پیے یا کھانے کے دوران اس کے منہ سے چبانے کی آواز آ جائے یا اس کا پاؤں میز کے نیچے کسی دوسرے کے پاؤں سے ٹکرا جائے جب کہ پاکستان میں وزیرتعلیم بھی اس بنیادی سکل سے محروم ہوتے ہیں۔
یورپ میں یہ ممکن نہیں کوئی طالب علم ڈریسنگ کی اخلاقیات سے ناواقف ہو، اسے فارمل، ان فارمل، کیژول، اسپورٹس اور بیڈ روم ڈریسنگ کا فرق معلوم نہ ہو جب کہ پاکستان میں کیڈٹ کالجز اور ایچی سن جیسے اداروں کے علاوہ کسی تعلیمی ادارے میں یہ سکل نہیں سکھائی جاتی، یورپ میں یہ تصور بھی نہیں کوئی نوجوان طالب علم ہو اور اسے کمیونی کیشن نہ آتی ہو، وہ دس بیس پچاس لوگوں کے سامنے کھڑا ہو کر بات نہ کر سکتا ہو، اسی طرح یورپ میں ہر نوجوان کو ڈرائیونگ سینس ہوتی ہے، یہ سی وی بنا سکتا ہے، یہ رپورٹس مرتب کر سکتا ہے۔
اسے قطار بنانے، اپنی باری کا انتظار، دوسروں سے مخاطب ہونے، ہاتھ ملانے کے آداب، خواتین، بوڑھوں، معذروں اور بچوں کا احترام، جاب کانٹریکٹ، فون کے آداب، بائیں جانب چلنا، دروازہ کھولنے اور بند کرنے کی اخلاقیات اور اپنا بجٹ بنانا آتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں پی ایچ ڈی کے بعد بھی طالب علم ان بنیادی سکلز سے محروم ہوتے ہیں، ہم لوگ پروفیشنلی بھی بہت کم زور ہوتے ہیں، الیکٹریکل انجینئر یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد اپنی وائرنگ نہیں کر سکتا۔
مکینیکل انجینئر اپنی گاڑی کا فالٹ ٹریس نہیں کر سکتا، ایم بی بی ایس کا طالب علم اپنی والدہ کا علاج نہیں کر سکتا اور وکیل اپنا کیس تیار نہیں کرسکتا چناں چہ بدقسمتی سے ہمارے طالب علموں کے پاس ڈگری کے سوا کچھ نہیں ہوتا، یہ صرف نام کے پڑھے لکھے ہوتے ہیں جب کہ جدید دنیا کے طالب علم یونیورسٹی سے فارغ ہونے سے پہلے مارک زکر برگ، بل گیٹس، سٹیو جابز، بوبی مرفی، زہینگ یمنگ اوربین سیلبرمین بن چکے ہیں، یہ اپنے پروفیشن میں پوری دنیا کو لیڈ کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں میں تعلیم مکمل نہیں ہوتی۔
طالب علم ڈگری لے لیتے ہیں مگر یہ پروفیشنل بھی نہیں ہوتے اور یہ 14 بنیادی اسکلز سے بھی محروم ہوتے ہیں، قاسم علی شاہ نے اس کمی کو محسوس کیا اور اس نے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں تعلیم مکمل پروجیکٹ شروع کر دیا، اس نے 70 غریب باصلاحیت نوجوان لیے، انھیں 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا اور فاؤنڈیشن میں ان کی ٹریننگ شروع کر دی۔
نوجوانوں کو یہ ٹریننگ کارپوریٹ سیکٹر کے ٹرینر، کام یاب بزنس مین اور پروفیشنل دیتے تھے، یہ 70 نوجوان چھ ماہ بعد مکمل طور پر تبدیل ہو چکے تھے، ان کا اعتماد، کمیونی کیشن، بی ہیویئر اور انڈرسٹینڈنگ ہی تبدیل ہوگئی، ان نوجوانوں کو فوراً جاب مل گئی اور یہ اب شان دار اور کام یاب زندگی گزار رہے ہیں، اس کے بعد نئے بیچز شروع ہو گئے اور یہ سلسلہ 70 نوجوانوں سے 500 تک پہنچ گیا۔
میں چند دن قبل سیشن کے لیے لاہور گیا، شاہ صاحب نے میری عزت افزائی کی، یہ ناشتے کے لیے میرے پاس تشریف لائے، میں نے ان سے پوچھا، آپ ان 500 نوجوانوں کے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟
ان کے جواب نے مجھے مزید حیران کر دیا، ان کا کہنا تھا "ہم نے تعلیم مکمل کلب بنا رکھا ہے، اس میں ہمارے مخیر دوست شامل ہیں، ہم ان مخیر لوگوں کی موجودگی میں طالب علموں کا انٹرویو کرتے ہیں، یہ لوگ انٹرویو کے دوران اپنا اپنا طالب علم سلیکٹ کر لیتے ہیں، ہم طالب علم کا بینک اکاؤنٹ کھلواتے ہیں اور ہمارے کلب کے مخیر حضرات ہر مہینے ان کے اکاؤنٹ میں براہ راست پیسے جمع کرا دیتے ہیں، ہم بچوں کو صرف ٹریننگ دیتے ہیں، آپ یقین کریں طالب علم جب ہمارے پاس آتے ہیں تو ان بے چاروں کے منہ سے بات نہیں نکل رہی ہوتی، انھیں ہاتھ ملانے، چائے پینے، واش روم کے استعمال، کپڑے پہننے، کنگھی کرنے، ٹائپ کرنے اور اپنا سی وی بنانے کی بھی تمیز نہیں ہوتی، یہ فون تک نہیں سن سکتے لیکن یہ چھ ماہ بعد کارپوریٹ کلچر کا مکمل سمبل بن چکے ہوتے ہیں، یہ شکل سے ایک کام یاب سی ای او دکھائی دیتے ہیں"۔
میں نے ان سے پوچھا، آپ کو تعلیم مکمل کلب میں کوئی پریشانی تو نہیں؟ شاہ صاحب کا جواب تھا" اللہ کا کرم ہے تمام معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں بس ایک ایشو ہے، طالب علم زیادہ ہیں اور ڈونر کم ہیں، ہم 500 طالب علموں کا سسٹم چلا رہے ہیں، ہمیں اس میں کوئی پریشانی نہیں لیکن لائین میں مزید 500 طالب علم موجود ہیں، ہمارے پاس ان کے لیے فنڈز نہیں ہیں، ہم انھیں بھی ٹرینڈ کرنا چاہتے ہیں" میں نے فوراً کہا" آپ ان میں سے چند طالب علم مجھے دے دیں، اللہ کا کرم ہے میں ان سے چند کو اپنی ذمے داری بنا لیتا ہوں، اپنے احباب سے بھی درخواست کروں گا، وہ بھی اس نیک کام میں شریک ہوں" شاہ صاحب نے مسکرا کر جواب دیا"ہمیں رقم کی ضرورت نہیں، آپ بس انٹرویو میں بیٹھیں، نوجوان سلیکٹ کریں، ان کے اکاؤنٹ کھلوائیں اور ہر مہینے براہ راست ان کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرا دیا کریں، ہم صرف ان نوجوانوں کو فری ٹریننگ دیں گے اور یوں آپ کا کنٹری بیوشن بھی ہو جائے گا"۔
مجھے تعلیم مکمل کلب کا آئیڈیا اچھا لگا، ملک میں قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن جیسے ایک ہزار ادارے ہونے چاہییں، یہ ادارے ہر سال کم از کم دس لاکھ نوجوانوں کو ٹریننگ دیں اور اگر ان کی ٹریننگ کے اخراجات دس لاکھ لوگ اٹھا لیں، ہم میں سے ہر خوش حال شخص اگر کسی ایک طالب علم کو اون کر لے، اسے چھ ماہ تک دس ہزار روپے دیتا رہے اور وہ نوجوان تعلیم کے بعد چھ ماہ میں صرف بنیادی سکلز سیکھ لے تو اس کی زندگی بدل جائے گی اور ملک میں انقلاب آ جائے گا، اللہ تعالیٰ قاسم علی شاہ کو لمبی عمر بھی دے اور کام کرنے کا حوصلہ اور ہمت بھی، یہ واقعی حیران کن شخص ہے۔