دوسرا دن پانچ جنوری تھا، کولمبو میں اچانک سرگوشیاں گونجنے لگیں، وزیراعظم میاں نواز شریف نے دہلی میں نریندر مودی کو ٹیلی فون کیا، میں اس وقت گنگا رام ٹمپل میں گھوم رہا تھا، میرا پہلا تاثر تھا یہ خبر غلط ہے لیکن اینکر پرسن عادل عباسی کا اصرار تھا یہ خبر سو فیصد درست ہے اور یہ انھوں نے پاکستان میں بریک کی، میں نے ان سے سورس پوچھا، عادل عباسی نے بتایا "میں نے یہ خبر وزیراعظم ہاؤس کے اہم ذرایع سے کنفرم کی" اب شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن اس کے باوجود میرا دل نہیں مان رہا تھا، دل کیوں نہیں مان رہا تھا، اس کی دو وجوہات تھیں۔
پہلی وجہ سری لنکا تھا، بھارت سری لنکا کو اپنی کالونی سمجھتا تھا لیکن پاکستان نے آہستہ آہستہ یہ کالونی اس کے ہاتھ سے چھین لی، جنرل ضیاء الحق بھارت سے 1971ء کی شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے چنانچہ انھوں نے انڈیا کے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بڑھانا شروع کر دیے، ان سے قبل سری لنکا کے صرف چھ سات افسر ٹریننگ کے لیے پاکستان آتے تھے، جنرل ضیاء یہ تعداد 200 فوجی افسروں تک لے گئے یوں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان فوجی تعلقات استوار ہو گئے، پاکستان سے ٹریننگ لینے والے سری لنکن افسر اب جنرل بن چکے ہیں، یہ لوگ ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت اکثر پاکستانی جنرلوں کے بیچ میٹ ہیں، یہ بیچ میٹ دونوں ملکوں کو قریب لے آئے ہیں، اس قربت میں 2000ء میں ہزار گنا اضافہ ہوگیا، یہ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا، تامل ٹائیگرز نے اپریل2000ء میں جافنا کے ملٹری بیس ایلی فنٹ پاس پرحملہ کر دیا، جافنا سری لنکاکے شمالی صوبے کا دارالخلافہ ہے۔
سری لنکن فوج باغیوں کے گھیرے میں آ چکی تھی، سری لنکا کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا تھا، بھارت، چین اور امریکا نے بھی اسے سرینڈر کا مشورہ دے دیا تھا، اس نازک وقت میں سری لنکا کا آرمی چیف چندریکا سری لال ویرا سوریا پاکستان آیا، جنرل پرویز مشرف سے ملا اور ان سے مدد طلب کی، جنرل مشرف اس کا بیچ میٹ تھا، پاکستان نے سری لنکا کی بھرپور مدد کا اعلان کر دیا، پاکستان نے مئی 2000ء دو سی ون تھرٹی جہاز ہتھیاروں سے بھر کر سری لنکا کے حوالے کر دیے۔
سری لنکا کا اگلا مطالبہ تھا "ہمیں یہ ہتھیار جافنا میں ڈیلیور کیے جائیں" اس زمانے میں جافنا میں جہاز اتارنا ممکن نہیں تھا، یہ خودکشی تھی مگر پاکستانی پائلٹس یہ رسک بھی لے گئے، ہمارے جہاز جافنا بھی پہنچے اور لنکن فوج کو ہتھیار بھی دیے، سری لنکا نے ان ہتھیاروں کے ذریعے تامل ٹائیگرز کا سر کچل دیا، اگست 2006ء میں تامل ٹائیگرز نے جب دوبارہ جافنا پر حملہ کیا تو اس وقت بھی پاکستان آرمی نے سری لنکا کے ساتھ بھرپور فوجی تعاون کیا تھا۔
یہی وجہ ہے آج سری لنکا کا بچہ بچہ منہ سے کہتا ہے اگر پاکستان اس وقت ہماری غیر مشروط مدد نہ کرتا تو جافنا ہمارے پاس نہ ہوتا، سری لنکا آج تک ہمارا احسان مند ہے، جنرل ضیاء سے جنرل مشرف تک کے واقعات نے سری لنکا کا جھکاؤ پاکستان کی طرف بڑھا دیا، بھارت اس گستاخی کی وجہ سے پاکستان اور سری لنکا دونوں سے ناراض ہے چنانچہ کولمبو میں بیٹھ کر ہمارے وزیراعظم کا بھارتی وزیراعظم کو فون کرنا بھارت کا منہ چڑانے کے مترادف تھا اور میرا خیال تھا میاں نواز شریف یہ غلطی نہیں کریں گے، دوسری وجہ نریندر مودی ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی لاہور وزٹ کی وجہ سے بھارت میں شدید دباؤ میں ہیں، پٹھان کوٹ کے ائیر بیس پر حملے نے اس دباؤ میں اضافہ کر دیا چنانچہ ان حالات میں ہمارے وزیراعظم کی کال کو سیاسی، سفارتی اور صحافتی سطح پر منفی لیا جا سکتا تھا اور بات بتنگڑ بن سکتی تھی لیکن میرے یہ دونوں اندازے غلط نکلے اور ہمارے وزیراعظم نے واقعی بھارتی وزیراعظم کو ٹیلی فون کیا، کیوں کیا؟ اس کا جواب کولمبو کے صحافیوں کے پاس تھا، ان کا کہنا تھا، بھارت نے پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملے کے دو مبینہ پاکستانی مدد گاروں کے بارے میں معلومات پاکستان کے حوالے کی ہیں، پاکستانی ادارے ان معلومات کی روشنی میں تحقیقات کر رہے ہیں۔
لوگ بھی گرفتار ہوئے، ان معلومات کا ماخذ ناصر نام کا ایک نوجوان ہے، بھارت اسے پاکستانی شہری قرار دے رہا ہے، ناصر پٹھان کوٹ آپریشن کے دوران بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گیا، اس نے حملے کے دوران بہاولپور میں چند لوگوں کو فون کیا تھا، بھارت کا دعویٰ ہے، ناصر کا تعلق کالعدم جماعت جیش محمد سے تھا اور پٹھان کوٹ حملے کے ماسٹر مائینڈ مولانا مسعود اظہر کے بھائی عبدالرؤف اصغر ہیں، میاں نواز شریف نے ان معلومات کی روشنی میں مودی کو فون کیا اور انھیں غیر جانبدارانہ تحقیقات کا یقین دلایا، میں نے سری لنکن صحافیوں کی یہ بات سن لی لیکن مجھے یہ معلومات خام محسوس ہوئیں۔
کیوں؟ کیونکہ آپ کو یاد ہو گا 24 دسمبر 1999ء کو کھٹمنڈو سے ائیر انڈیا کا ایک مسافر بردار جہاز 176 مسافروں کے ساتھ اغواء ہوا تھا، ہائی جیکرز جہاز کو قندہار لے گئے تھے، بھارت نے ہائی جیکروں کے ساتھ سات دن تک مذاکرات کیے اور آخر میں جہاز اور مسافروں کے بدلے تہاڑ جیل میں بند مولانا مسعود اظہر کو رہا کر دیا، بھارت نے اس دور میں الزام لگایا تھا "یہ جہاز مولانا مسعود اظہر کے بھائی عبدالرؤف اصغر نے اغواء کیا" بھارتی ایجنسیاں آج تک مولانا اور ان کے بھائی کو نہیں بھولیں چنانچہ یہ عین ممکن ہے "را" مولانا اور ان کے بھائی کو سامنے رکھ کر جہاز کے اغواء کا بدلہ بھی لے رہی ہو اور پاکستان کو بدنام بھی کر رہی ہو۔
ہم اگر فرض کر لیں، ہمارے ادارے مولانا اور ان کے بھائی کو بھارتی معلومات کی روشنی میں گرفتار کر لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے، کیا بھارت انھیں مجرم ثابت کر سکے گا؟ شاید نہیں کیونکہ بھارت نے نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں کے بعد اسی قسم کے الزامات حافظ سعید پر بھی لگائے تھے، بھارتی معلومات پر سات لوگ بھی گرفتار ہوئے تھے لیکن سات سال گزرنے کے باوجود بھارت آج تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کر سکا چنانچہ پاکستانی عدالتوں نے ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا، شاید مولانا مسعود اظہر کے معاملے میں بھی یہی ہو گا، بھارت ثابت نہیں کر سکے گا۔
کولمبو کی دوسری بڑی خبر سری لنکا کی پاکستانی جنگی طیارے جے ایف 17 تھنڈر میں دلچسپی ہے، یہ پاکستان سے 12 جہاز خریدنا چاہتے ہیں، سری لنکا کی خواہش ہے پاکستان انھیں تین قسطوں میں 12 جہاز فراہم کرے، جے ایف 17 تھنڈر کے تین معیار ہیں، سری لنکا دوسرے معیار کے جہازوں میں دلچسپی رکھتا ہے، سری لنکا کے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار جہاز کے معائنے کے لیے نومبر میں پاکستان بھی آئے تھے، یہ چار دن کامرہ ائیر بیس میں رہے اور شاید یہ فروری مارچ میں ایک بار پھر پاکستان آئیں، پانچ جنوری کی رات سری لنکن صدر متھری پالا سری سینا نے ڈنر دے رکھا تھا، سری لنکا کے ائیر چیف ہماری میز پر بیٹھے تھے۔
میں نے ان سے پاکستان کے گزشتہ اور فروری کے ممکنہ دورے کے بارے میں پوچھا لیکن انھوں نے ان سوالوں کا جواب کچھ اس انداز سے دیا کہ آپ اسے تصدیق بھی سمجھ سکتے ہیں اور انکار بھی تاہم انھوں نے سری لنکا میں پاکستان کے ملٹری اتاشی کرنل راجل کی کھل کر تعریف کی، ان کا کہنا تھا، یہ افسر سری لنکا کی فوج اور فضائیہ دونوں میں بہت مقبول ہے اور اگر مستقبل میں سری لنکا اور پاکستان کے دفاعی تعلقات میں اضافہ ہوا تو اس کا کریڈٹ کرنل راجل کو جائے گا، میں نے ائیر چیف اور سری لنکا کے دوسرے "ہائی رینکس" کی گفتگو سے اندازہ لگایا، سری لنکا جے ایف 17تھنڈر خریدنا چاہتا ہے لیکن یہ پہلے بھارت کو مطمئن کرنا چاہتا ہے جب کہ بھارت کی کوشش ہے۔
سری لنکا پاکستان سے طیارے نہ خریدے، کیوں؟ کیونکہ اس سے خطے میں پاکستانی اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہو گا اور سری لنکا کا دفاع بھی مضبوط ہو جائے گا اور یہ بھارت کو سوٹ نہیں کرتا، صدارتی کھانے کی اسی میز پر سری لنکا کے ایک افسر نے انکشاف کیا، وزیراعظم کے دورے کے دوران پاکستان، سری لنکا اور مالدیپ میں سہ فریقی فوجی مشقوں کا سمجھوتہ طے پا گیا ہے، یہ تینوں ملک جنوری میں مل کر فوجی مشقیں کریں گے اور اس کے بعد یہ مشقیں ہر سال ہوں گی، میں یہ سن کر حیران رہ گیا کیونکہ یہ ایک بڑی خبر تھی اور یہ نہ جانے کیوں پاکستانی، سری لنکن اور بھارتی میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہی، یہ مشقیں اگر ہو جاتی ہیں تو سارک ممالک میں طاقت کا سارا توازن بدل جائے گا۔
سری لنکا، مالدیپ، برما اور بھوٹان جیسے چھوٹے ملک پاکستان کے پیروں تلے پناہ لے لیں گے، افغانستان بڑی تیزی سے پاکستان اور بھارت دونوں کے اثر سے نکل رہا ہے چنانچہ مستقبل میں خطے میں بنگلہ دیش کے سوا بھارت کا کوئی اتحادی نہیں رہے گا، بنگلہ دیش بھی صرف اس وقت تک بھارت کا ساتھ دے گا جب تک حسینہ واجد برسر اقتدار ہیں، ان کے فارغ ہوتے ہی بنگلہ دیش پاکستان کی طرف جھک جائے گا اور یوں سارک میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی۔
افغانستان میں چند نئی تبدیلیاں بھی سامنے آ رہی ہیں، میاں نواز شریف نے اکتوبر 2015ء کے امریکی دورے کے دوران صدر اوباما کو قائل کر لیا تھا امریکا حقانی نیٹ ورک کو بھی مذاکرات میں فریق بنائے، یہ ان کے خلاف جنگ کے بجائے انھیں بھی ڈائیلاگ کی میز پر لائے، صدر اوباما مان گئے ہیں چنانچہ افغانستان کے ایشو پر چار رکنی کولیشن تخلیق پا چکی ہے، اس کولیشن میں افغانستان، پاکستان، امریکا اور چین شامل ہیں، کولیشن کا پہلا اجلاس گیارہ جنوری کو ہوگا، اس اجلاس میں فیصلہ ہو گا۔
طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے، مذاکرات کی ڈیڈ لائین کیا ہو گی اور ان لوگوں کو افغانستان میں امن کے لیے کیا کیا مراعات دی جائیں گی، میرا خیال ہے، یہ کولیشن طالبان کو افغان حکومت میں حصہ دینے کا فیصلہ بھی کر ے گی اور شاید ان لوگوں کو ایک آدھ افغان صوبے میں اس شرط پر طالبان حکومت بنانے کی اجازت بھی دے دی جائے کہ یہ باقی صوبوں میں تنظیم سازی اور سیاسی مداخلت سے پرہیز کریں گے اور یوں افغان ایشو حل ہو جائے گا۔
ہم اگر افغانستان سے سری لنکا تک حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر طرف اچھی خبریں نظر آئیں گی، ہم اگر اسی رفتار سے چلتے رہتے ہیں تو پاکستان 2020ء میں ایک مختلف ملک ہو گا اور ہم معیار زندگی میں ترقی یافتہ قوموں کے قریب پہنچ جائیں گے لیکن مستقبل کی اس جنت میں اندیشوں کے دو سانپ بھی پل رہے ہیں، عرب دنیا کے حالات دوسو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے خرابی کی طرف دوڑ رہے ہیں، عالمی ماہرین کا خیال ہے، شاید ایک دو برسوں میں عرب ممالک کی ساری سرحدیں"ری شیپ" ہو جائیں اور عرب دنیا شیعہ اور سنی دو قسم کی ریاستوں میں تبدیل ہو جائے، ایران اور سعودی عرب دونوں آمنے سامنے ہیں۔
ہم خود کو اس صورتحال سے زیادہ دنوں تک علیحدہ نہیں رکھ سکیں گے، دوسرا سانپ پاک بھارت تعلقات ہیں، دونوں ملکوں میں 15 جنوری کو جامع مذاکرات ہونا تھے لیکن پٹھان کوٹ کی وجہ سے یہ مذاکرات کھٹائی میں پڑتے نظر آ رہے ہیں، اگر خدانخواستہ مستقبل میں پاکستان یا بھارت میں اس نوعیت کا ایک اور واقعہ ہو جاتا ہے تو یہ دونوں ملک اتنے دور ہو جائیں گے جتنے یہ 1971ء میں تھے اور یہ ہمارے لیے خطرناک ہو گا چنانچہ ہمیں دعا بھی کرنی چاہیے اور فیصلے بھی کیونکہ ہم ایک ایسے دوراہے پر آ کھڑے ہوئے ہیں جس کے ایک طرف ترقی ہے اور دوسری طرف تباہی اور ہم نے اب ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے، ترقی یا تباہی، فیصلہ بہرحال ہمارے ہاتھ میں ہے۔