آپ روز صبح جاگتے ہیں، آنکھیں کھول کر کمرے کا جائزہ لیتے ہیں، کھڑکی سے اندر جھانکتی بیلوں اور ان بیلوں پر مسکراتے پھول دیکھتے ہیں، آپ کو اپنی رضائی، اپنے کمبل کے رنگین پیٹرن بھی دکھائی دیتے ہیں اور دیواروں کا عنابی رنگ بھی، پنکھے کے سفید پر بھی، صوفے کا قرمزی کپڑا بھی اور سیاہ سلیپر بھی اور آپ قدرت کے کارخانے میں بکھرے سیکڑوں ہزاروں رنگ بھی روز دیکھتے ہیں، یہ کیا ہے؟ یہ سب آدھ انچ کی دو پتلیوں اور ان کے پیچھے چھپے چھوٹے مہین سے پردے کا کمال ہے۔
ہماری پلکیں اٹھتی ہیں اور ہمارے گرد موجود سیکڑوں رنگ عکس بن کر پتلیوں پر دستک دینے لگتے ہیں، پتلیاں سکڑتی اور پھیلتی ہیں اور عکس آنکھ کے لینز سے ہوتے ہوئے دماغ کے پردے پر اترتے ہیں، ہمارے دماغ کی باریک نسیں اس عکس کو پڑھتی ہیں، اس عکس کو سگنل بناتی ہیں، یہ سگنل دماغ کے برقی سسٹم میں دوڑتے ہیں اوریوں ہم سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اپنے دائیں بائیں، اوپر نیچے موجود مناظر کو سمجھنے لگتے ہیں، چڑیا کے پنکھ اور تتلی کے پر میں رنگوں کی چودہ سو ڈیٹیلز ہوتی ہیں، ہماری آنکھ چند سیکنڈ میں یہ ساری ڈیٹیلز دیکھ لیتی ہے، وزیراعظم صاحب انسان پانچ حسوں کا عظیم مرکب ہے، آنکھ ان پانچ حسوں کی لیڈر ہے، آپ اگر دیکھ نہیں سکتے تو آپ پچاس فیصد رہ جاتے ہیں، آپ کی زندگی سے پچاس فیصد زندگی نکل جاتی ہے۔
آپ کے سیکھنے، انڈر اسٹینڈ کرنے اور آگے بڑھنے کے امکانات پچاس فیصد کم ہو جاتے ہیں، وزیراعظم صاحب آپ ایک دن، صرف ایک دن کے لیے اپنی آنکھیں ادھار دے دیں، آپ صبح اٹھیں اور پلکیں کھولے بغیر اپنی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ لیں اور پھر رات سونے تک یہ پٹی باندھے رکھیں، آپ اس کے بعد ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈ لیں اور اپنے دن بھر کے محسوسات اس ٹیپ ریکارڈر میں ریکارڈ کرتے جائیں، آپ دوسرے دن معمول کے مطابق اٹھیں، آنکھیں کھولیں، ٹیپ ریکارڈ آن کریں اور اپنے گزشتہ دن کے سارے محسوسات سنیں، مجھے یقین ہے آپ پریشان ہو جائیں گے کیونکہ آپ کو زندگی میں پہلی بار گزرا ہوا کل اپنا کل محسوس نہیں ہو گا، آپ کو محسوس ہو گا آپ اپنے کمرے میں اپنے بیڈ سے اٹھے تھے لیکن آپ کا کمرہ آپ کا کمرہ نہیں تھا، آپ کے کمرے میں کھڑکی تھی لیکن کیا اس کھڑکی سے سرخ پھولوں کی بیل اندر جھانک رہی تھی؟ آپ زندگی میں پہلی بار یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکیں گے۔
آپ کے پردوں میں رنگ تھے یا اڑ چکے تھے، آپ کی بیڈ شیٹ، آپ کے کمبل یا آپ کی رضائی میں کتنے رنگ تھے، آپ یہ نہیں دیکھ سکے، آپ نے اپنے سیلپر بھی ٹٹول کر تلاش کیے، آپ باتھ روم تک کیسے پہنچے، آپ کو کموڈ، آپ کو سنک تک پہنچتے ہوئے کتنی ٹھوکریں، کتنے ٹھڈے لگے، آپ کا ٹوتھ برش اور پیسٹ کہاں تھا؟ آپ کے ہاتھ میں پیسٹ کی ٹیوب تھی یا شیونگ کریم، آپ کو کچھ اندازہ نہیں ہوا، آپ نے شیو کرنے کے لیے ریزر اٹھایا تو آپ کو معلوم ہوا آپ آج شیو نہیں کر سکیں گے کیونکہ منہ پر کریم لگانے اور ریزر چلانے کے لیے آنکھیں چاہئیں اور اس دن میاں نواز شریف ایک دن کے لیے اپنی آنکھیں ادھار دے چکے تھے۔
آپ تولیہ تلاش کرتے ہیں تو آپ کو تولیہ نہیں ملتا، آپ شاور تک جاناچاہتے ہیں تو آپ کو درجنوں ٹھڈے اور ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، فرش پر شیشے کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے، آپ کے راستے میں ڈسٹ بین آ جاتی ہے، شاور کیس کا ہینڈل اپنی جگہ موجود نہیں، شاور کی ناب کہاں ہے، گرم اور ٹھنڈے پانی کے ہینڈل کدھر ہیں، آپ اندازہ نہیں کر سکتے، آپ کے منہ آپ کے بالوں پر کہاں کہاں صابن لگا ہے، شیمپو کی بوتل کہاں ہے اور شاور جیل کہاں رکھا ہے، آپ کو اندازہ نہیں ہوتا، وزیراعظم صاحب آپ گھبرا رہے ہیں، یہ تو شروعات ہیں، آپ ابھی سے گھبرا گئے، آپ نے اندھے پن کے صرف دس منٹ گزارے ہیں، آپ نے ابھی کپڑے بھی تلاش کرنے ہیں، آپ نے ایک ہی رنگ کی شلوار قمیض سیدھی پہنی ہے اور اگر شلوار میں آزار بند نہیں ہے تو آپ نے ابھی آزار بند، ناڑے پانی اور شلوار تینوں تلاش کرنی ہیں، آپ نے جوتے بھی تلاش کرنے ہیں اور ایک ہی رنگ کی جرابیں بھی تلاش کر کے پہننی ہیں۔
آپ نے ٹٹول کر ویسٹ کوٹ بھی تلاش کرنی ہے، آپ نے ناشتے کی میز پر بھی پہنچنا ہے اور آپ نے ڈبل روٹی، انڈہ، جیم، مکھن اور شہد کا اندازہ بھی لگانا ہے، آپ نے چائے کافی کا مگ بھی گرائے بغیر تلاش کرنا ہے، آپ نے میز پر پڑی ہر چیز اٹھا کر منہ تک بھی لانی ہے اور آپ نے اپنے ہونٹوں، اپنی ٹھوڑی پر لگے مکھن اور جیم کے نشان بھی صاف کرنے ہیں، آپ نے اس میز سے اٹھنا بھی ہے۔
دروازے تک بھی جانا ہے اور دروازے سے نکل کر سڑک پر بھی پہنچنا ہے اور سڑک پر بکھرے چیلنجز سے بھی بچنا ہے، آپ نے ابھی اونچی نیچی گلیوں، اچانک ختم ہوتے فٹ پاتھوں، راستے کے کیچڑ، اندھے سائیکلوں، بے مہار موٹر سائیکلوں، بے ترتیب ٹریفک، بے ہنگم ریڑھیوں، مدہوش ہجوم اور ابلتی تڑپتی نالیوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے، آپ نے بس اسٹاپ تک بھی آنا ہے، آپ نے اپنے آپ کو ویگنوں کے پیچھے بھاگتے لوگوں سے بھی بچانا ہے، آپ نے بس، ویگن اور رکشے میں بھی سوار ہونا ہے اور آپ نے وقت پر اپنی منزل مقصود تک بھی پہنچنا ہے اور ابھی آپ کے اندھے پن کو صرف ایک گھنٹہ گزرا ہے، رات ابھی بہت دور ہے وزیراعظم صاحب!۔
وزیراعظم صاحب! دنیا میں ایک اندھے کو نارمل زندگی گزارنے کے لیے کم از کم تین لوگوں کی مستقل ضرورت ہوتی ہے، آپ یا آپ کا کوئی عزیز خدانخواستہ بینائی سے محروم ہے تو اسے سنبھالنے کے لیے آپ کے گھر کے تین لوگوں کو عمر بھر وقت، توانائی اور خوشیوں کی قربانی دینا ہو گی، یہ تین لوگ اگر چوبیس گھنٹے اس شخص کے ساتھ رہیں تو بھی یہ بے چارہ صرف ساٹھ فیصد نارمل زندگی گزار سکے گا، اس کی باقی 40فیصد زندگی بے رنگ، بے رونق اور ادھوری رہے گی۔
آپ ان لوگوں کو دیکھئے اور اس کے بعد ملک کو دیکھئے، ہمارے ملک میں وزیراعظم صاحب کوئی سڑک، کوئی عمارت اور کوئی دفتر معذور لوگوں کی ضرورت کو سامنے رکھ کر نہیں بنایا گیا، آپ ملک میں کوئی پبلک ٹوائلٹ دکھا دیجیے جو معذوروں کی ضرورت پوری کرتا ہو، کوئی ٹریفک سگنل دکھا دیجیے جو معذوروں بالخصوص بینائی سے محروم لوگوں کے لیے بنایا گیا ہو، آپ کوئی فٹ پاتھ دکھا دیجیے جس پر کوئی معذور، کوئی اندھا چل سکتا ہو، آپ ملک کی کوئی اسمبلی دکھا دیجیے جس میں جسمانی معذوروں کی نمایندگی ہو اور آپ ملک میں کوئی اعلیٰ عہدہ دکھا دیجیے جس پر کوئی معذور بیٹھا ہو جب کہ ہمارے ملک میں 50 لاکھ سے زائد لوگ معذور ہیں۔
کیا یہ لوگ ہماری ذمے داری نہیں؟ کیا یہ لوگ کسی اور خدا کی مخلوق ہیں اور کیا یہ کسی اور وزیراعظم کی رعایا ہیں؟ ہم لوگ وزیراعظم صاحب ان لوگوں پر توجہ دینے کے بجائے ان کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں؟ آپ 3 دسمبر 2014ء کالاہور کا واقعہ ملاحظہ کرلیجیے، کل معذوروں کا عالمی دن تھا، حکومت نے سرکاری ملازمتوں میں پڑھے لکھے معذوروں کے لیے دو فیصد کوٹہ مختص کر رکھا ہے، اس کوٹے پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا، وزیراعظم صاحب ہمارے معاشرے میں معذور بالخصوص نابینا افراد کے پاس زندگی گزارنے کے دو آپشن بچتے ہیں، یہ قرآن مجید حفظ کر لیں اور زندگی ختم درود کی کمائی پر گزار دیں یا پھر سڑکوں، چوکوں اور گلیوں میں بھیک مانگیں، اس معاشرے میں اگر کوئی نابینا شخص، اگر کوئی معذور اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو یہ واقعی کمال ہوتا ہے؟ یہ شخص سونے میں تولنے کے قابل ہوتا ہے جب کہ ہم لوگ ان لوگوں کو نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ تک دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
لہٰذا یہ لوگ مجبور ہو کر 3 دسمبر 2014ء کو لاہور میں چیف منسٹر ہاؤس کے سامنے بیٹھ گئے، یہ صرف اپنا حق مانگ رہے تھے لیکن پولیس نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا، آپ 3 دسمبر کی فوٹیج منگوا کر دیکھ لیجیے، آپ کے سینے میں اگر دل اور پتلیوں کے پیچھے آنکھیں موجود ہیں تو مجھے یقین ہے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے، میری آپ سے درخواست ہے آپ اس افسوس ناک واقعے کو قدرت کاالارم سمجھ کر چند فوری فیصلے کر دیجیے۔
آپ تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں، کمپنیوں اور اداروں میں معذوروں کے دوفیصد کوٹے پر فوری تعیناتیوں کا اعلان کر دیں، یہ لوگ ایک ماہ کے اندر اندر نوکری پر ہونے چاہئیں، آئین میں ترمیم کریں اور ملک کی تمام اسمبلیوں میں دو، دو فیصد معذور ارکان کی گنجائش پیدا کریں، یہ قانون بنا دیں ملک میں آیندہ کوئی ایسی سرکاری اور غیر سرکاری عمارت نہیں بنے گی جس میں وہیل چیئر کے لیے ریمپ، نابینا افراد کو راستہ دکھانے کے لیے ٹک ٹک کی آواز کا سسٹم اور فٹ پاتھوں پر اندھوں کی رہنمائی کا نظام نہیں ہو گا، آپ بڑے شہروں کے ٹریفک سگنلز میں بھی فوراً نابینا افراد کی رہنمائی کا نظام لگوادیں، یورپی یونین اس معاملے میں آپ کی مدد کر سکتی ہے اور آپ یہ قانون بنا دیں ملک میں جو بھی معذور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے گا اس کی تعلیم کے تمام اخراجات حکومت ادا کرے گی۔
وزیراعظم صاحب آپ اگر یہ کر جائیں تو یہ آپ کی بینائی کا صدقہ ہو گا، اللہ آپ پر رحم کرے گا ورنہ دوسری صورت میں جناب عالی یہ ساری نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور اللہ کسی بھی وقت کوئی بھی نعمت واپس لے سکتا ہے کیونکہ اللہ کی نظر میں محمد نواز ہو یا وزیراعظم محمد نواز شریف سب برابر ہوتے ہیں، یہ کسی کو کوئی استثنیٰ نہیں دیتا چنانچہ آپ اگر اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں تو آپ فوری طور پر اپنی بینائی کا صدقہ دیں۔