آپ ولید ابو ہریرہ کی مثال لیجیے، ولید کی عمر چودہ سال ہے، یہ آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، ولید اسکول کا ذہین ترین طالب علم تھا، یہ امتحان میں ہمیشہ اول آتا تھا، یہ اپنی کلاس کا پراکٹر بھی تھا، یہ 16 دسمبر کو اسکول کے آڈیٹوریم میں تھا، آڈیٹوریم کی پہلی قطار میں چھ پراکٹر بیٹھے تھے، ولید بھی ان میں شامل تھا، دہشت گرد صبح 10بجے کر بیس منٹ پر آڈیٹوریم میں داخل ہوئے، یہ پہلی قطار کے قریب پہنچے اور فائر کھول دیا، قطار میں بیٹھے پانچ پراکٹر شہید ہو گئے جب کہ ولید کے منہ اور گردن پر درجنوں گولیاں لگیں، یہ شدید زخمی ہو گیا، دہشت گرد اسے ہلاک سمجھ کر آگے بڑھ گئے، اللہ تعالیٰ کو ولید کا مزید امتحان مقصود تھا، یہ شاید اسی لیے بچ گیا، ولید اس وقت سی ایم ایچ پشاور میں داخل ہے۔
بچے کا پورا چہرہ اڑ چکا ہے، ولید کا جبڑا، زبان، تمام دانت، آدھا نچلا ہونٹ، ناک، رخسار، تھائی رائیڈ گلینڈ اور سانس کی نالی کا بڑا حصہ دہشت گردوں کی گولیوں نے اڑا دیا، یہ اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے، اللہ تعالیٰ نے ولید کو زندگی تو دے دی مگر اسے چہرے کی بحالی کے لیے کم از کم دو سال بیسیوں سرجری کروانی پڑیں گی، ملک کے صرف ایک پرائیویٹ اسپتال میں اس کا علاج ممکن ہے، ولید کے والد نے اسپتال سے رابطہ کیا، ڈاکٹرں نے ولید کی تصویریں دیکھنے کے بعد اپنی فیسیں معاف کر دیں لیکن اس کے باوجود بچے کی بحالی کے لیے 50لاکھ روپے درکار ہیں، ولید کا والد گلزار محمد پشاور میں ٹائروں کا کاروبار کرتا ہے، یہ پانچ بچوں کا والد ہے، باقی تمام بچے بھی زیر تعلیم ہیں، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، کیا ولید کا والد اپنے بیٹے کا علاج کرا سکے گا؟ کیا یہ خاندان دو سال تک بیٹے کو اسپتالوں میں رکھ سکے گا؟ آپ سوچئے اور اس کے بعد اس مسئلے کا حل بتائیے۔
یہ معاملہ صرف ولید ابوہریرہ تک محدود نہیں، دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014 کو زیادہ تر بچوں کے چہروں، گردنوں اور سر کو نشانہ بنایا تھا، ڈیڑھ سو کے قریب بچے شہید ہو گئے جب کہ اتنے ہی شدید زخمی ہیں، ان زخمیوں میں 65 بچے ولید کی طرح بے چہرہ ہو چکے ہیں، یہ اب مہنگے اور طویل ترین علاج کے عمل سے گزریں گے، و لید جیسے پچاس بچے سی ایم ایچ میں ہیں اور 15 بچے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں موجود ہیں، ان 65 بچوں کے چہروں پر گولیاں لگی ہیں، آپ جانتے ہیں دنیا میں کاسمیٹک سرجری مہنگی بھی ہے، طویل بھی اور مشکل بھی۔
پاکستان میں یہ علاج دستیاب نہیں، ہم اگر ملک کے تمام کاسمیٹک سرجنوں کو جمع کر لیں تو بھی ان 65 بچوں کو بحال نہیں کیا جاسکتا اور اگر یہ ممکن بھی ہو تو بھی مڈل کلاس والدین یہ افورڈ نہیں کر سکیں گے، میری وزیراعظم اور عمران خان سے درخواست ہے آپ فوری طور پر یہ ایشو بھی دیکھیں، وزیراعظم ان تمام بچوں کے علاج کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کریں اور دنیا کے جس جس ملک میں ان بچوں کا علاج ممکن ہے حکومت ان بچوں کو فوری طورپر وہاں بھجوائے، عمران خان نے دھرنے پرایک ارب روپے خرچ کر دیے، یہ بھی ان بچوں کی ذمے داری اٹھا سکتے ہیں، صوبائی حکومت آدھے اخراجات برداشت کرے اور آدھی رقم عمران خان ڈونیشن سے جمع کریں۔
یہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے چیتوں اور چیتیوں سے درخواست کریں، اکاؤنٹ کھولیں اور ان بچوں کا علاج کرائیں، یہ ممکن نہ ہو تو حکومت دوسرے ملکوں سے مدد مانگ لے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکا بڑی آسانی سے ہماری مدد کر سکتے ہیں، دبئی میں کاسمیٹک سرجری کے درجنوں اسپتال ہیں، فرانس، جرمنی اور برطانیہ بھی اس ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہیں، ترکی اور امریکا بھی اس سرجری میں کسی سے کم نہیں، وزیراعظم ان حکومتوں سے ذاتی حیثیت میں درخواست کر سکتے ہیں، برطانیہ اگر ملالہ کے معاملے میں ہماری مدد کر سکتا ہے تو یہ ہمارے ان 65 بچوں کی بحالی میں بھی ہماری معاونت کر سکتا ہے جن میں سے ہر بچہ ملالہ کی طرح ذہین اور جرأت مند ہے۔
حکومت نے فوری قدم نہ اٹھایا تو یہ بچے ہماری قومی بے حسی کی عبرت ناک مثال بن جائیں گے، یہ بچے اور ان کے والدین اللہ تعالیٰ سے بار بار پوچھیں گے، ، اس سانحے میں ہم بھی کیوں نہیں مارے گئے، ، یہ لوگ یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کیونکہ زخمی جاں بحق ہونے والوں سے زیادہ مظلوم ہوتے ہیں، مرنے والے تو ایک ہی جست میں زندگی کی حد پار کر جاتے ہیں لیکن زخمی بالخصوص جن کے چہرے متاثر ہو جاتے ہیں، یہ روز مرتے اور روز جیتے ہیں، کاش ہم ان بچوں کو روز مرنے اور روز جینے سے بچا پائیں۔
میں وزیراعظم اور پوری ریاست سے درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں، ہم اس سانحے کو سامنے رکھتے ہوئے بچوں کے لیے چند بڑے فیصلے کرسکتے ہیں، حکومت فوری طورپر کالج تک کے طالب علموں کی لائف انشورنس کروائے، انشورنس کی آدھی رقم اسکول ادا کریں اور آدھی رقم بچوں کے والدین سے وصول کی جائے، والدین اگر ادا نہ کر سکیں تو یہ رقم حکومت ادا کرے اور جب بچہ بڑا ہو کر برسر روزگار ہو جائے تو حکومت انشورنس کی رقم اس سے واپس لے لے، ملک کے کسی اسکول اور کالج کا بچہ اس وقت تک امتحان نہ دے سکے جب تک وہ رول نمبر کے ساتھ انشورنس نمبر نہ لکھے، یہ انشورنس نمبر بعد ازاں بچے کے ساتھ ساتھ چلتا رہے۔
یہ گاڑی خریدے تو گاڑی کی انشورنس اسی نمبر میں شامل ہو، یہ شادی کرے، جاب کرے، سیاست میں آئے یا پھر ملک سے باہر سفر کرے تو انشورنس نمبر اس کے ساتھ ساتھ چلے، یہ انشورنس نمبر اس کی میڈیکل ہسٹری بھی ہو، انشورنس کمپنیاں سال میں دو مرتبہ اس کا میڈیکل چیک اپ کرائیں اور تمام رپورٹس اپنے ڈیٹا ہاؤس میں جمع رکھیں، یہ ڈیٹا اس شخص کی پوری میڈیکل ہسٹری ہوگی، اسکول سے انشورنس شروع کرنے کے چار فائدے ہوں گے، ایک، ولید جیسے سیکڑوں ہزاروں بچوں کو حادثوں اور سانحوں کے بعد علاج کے لیے حکومت کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا، یہ بچے امداد کے بغیر باعزت طریقے سے اپنا علاج کرا سکیں گے، دو، شہریوں کو انشورنس کی عادت پڑ جائے گی، یہ پوری زندگی خود اور اپنے خاندان کی انشورنس کرائیں گے، تین، ملک کے تمام بچوں کا ڈیٹا حکومت کی رسائی میں آجائے گا، حکومت چند لمحوں میں ملک کے تمام بچوں کے بارے میں جان لے گی۔
بچوں کی عمر سے لے کر ان کی صحت اور ان کی تعلیمی قابلیت تک تمام معلومات حکومت کے پاس ہوں گی اور چار، لوگوں کو اپنی صحت کی فکر ہو گی، یہ سال میں جب دو بار اپنا طبی معائنہ کرائیں گے تو انھیں اپنی جسمانی حالت کے بارے میں معلومات ملتی رہیں گی اور اس کا ان کی صحت پر اچھا اثر ہو گا، حکومت اگر فوری طورپر ملک کے تمام بچوں کے لیے یہ قانون نہ بنا سکے تو اسے کم از کم پرائیویٹ اسکولوں کو انشورنس کے لیے پابند ضرور کرنا چاہیے، یہ پابندی ملک میں صحت کے شعبے میں جدت اور معاشی سرگرمیاں بھی پیدا کرے گی، حکومت کو پرائیویٹ اسکولوں کو سیکیورٹی کے انتظامات کی ہدایت بھی کرنی چاہیے، ملک کے پندرہ بڑے شہروں کے پرائیویٹ اسکولوں کو اپنی عمارتوں کے باہر اور اندر مورچے بھی بنانے چاہئیں اور اسکولوں کی چار دیواریوں کو بھی مضبوط بنانا چاہیے، اسکول منافع کمانے کی فیکٹریاں ہیں، حکومت کو انھیں خرچ پر بھی مجبور کرنا چاہیے۔
حکومت فوج کو اختیار دے، فوج تمام پرائیویٹ اسکولوں کا معائنہ کرے، اسکول انتظامیہ کو سیکیورٹی کی ہدایات دے اور جو اسکول ان ہدایات پر عمل نہ کریں حکومت وہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دے، ہم حالت جنگ میں ہیں تو پھر ہمارے تعلیمی اداروں، ان کی انتظامیہ اور ان کے مالکان کو بھی جنگ کی سنگینی کا اندازہ ہونا چاہیے، انھیں تھوڑی سی مالی قربانی بھی دینی چاہیے، امریکا میں رہائشی اور دفتری عمارتوں میں، ، پینک روم، ، ہوتے ہیں، یہ کمرے بنکر کی طرح ہوتے ہیں، ان میں ہفتہ بھر کا خشک راشن اور پانی بھی ہوتا ہے، حکومت کو چاہیے یہ مہنگے تعلیمی اداروں کو، ، پینک روم، ، بنانے کی ہدایت کرے تاکہ ایمر جنسی کی صورت میں انتظامیہ بچوں کو ان پینک رومز، ، میں محفوظ کر سکے، ہمارے اسکولوں میں بچوں اور اساتذہ کو ہنگامی صورتحال سے بچنے کی تربیت بھی نہیں دی جاتی، ہمارے بچوں کو فائرنگ اور بموں کے دوران زمین پر لیٹنے اور آڑ لینے کی ٹریننگ نہیں ہوتی، ہمارے بچے آگ تک بجھانے کی تکنیک سے واقف نہیں ہیں، حکومت کو چاہیے یہ اسکول انتظامیہ کو بچوں کی ٹریننگ کا بندوبست کرنے کا پابند بنائے۔
سیکیورٹی کمپنیاں اور ادارے مہینے میں کم سے کم ایک بار اسکول آئیں اور کلاسوں میں جا کر بچوں کو سیکیورٹی پر لیکچر دیں، اسکولوں میں ایمر جنسی سائرن بھی ہونے چاہئیں، یہ سائرن طاقتور ہونے چاہئیں اور اسکول میں جوں ہی کوئی ایمر جنسی ہو یہ سائرن بجا دیے جائیں تاکہ پولیس اور عام شہریوں کو اطلاع ہو جائے اور حکومت کو بچوں کو گردوپیش پر نظر رکھنے کی ٹریننگ بھی دینی چاہیے، دہشت گرد ہمیشہ ریکی کرتے ہیں اور یہ ریکی کئی دنوں تک چلتی ہے، بچوں کو چاہیے یہ اسکول کے ارد گرد کھڑے لوگوں پر نظر رکھیں اور انھیں جوں ہی کوئی مشکوک شخص نظر آئے یہ انتظامیہ کو اطلاع دے دیں اور انتظامیہ پولیس کو خبر کر دے لیکن یہ سارے لانگ ٹرم انتظامات ہیں، حکومت کو فوری طور پر ولید جیسے 65 بچوں کے لیے عملی قدم اٹھانا چاہیے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو یہ واقعہ داغ بن کر ہمیشہ ان 65 بچوں کے چہروں پر درج ہو جائے اور ان بچوں کے چہرے چیخ چیخ کر دنیا کو یہ بتاتے رہیں، ، کاش ہم بھی 16 دسمبر کوشہید ہو گئے ہوتے۔