وہ ڈھانچے کی طرف کمر کرکے کھڑی تھی اور طالب علموں کو 6اگست 1945کی اس صبح کی خوف ناک کہانی سنا رہی تھی جب امریکا نے ہیروشیما پر تاریخ کا پہلا ایٹم بم گرایا تھا، وہ کہانی سناتی جاتی تھی اور روتی جاتی تھی، میں خاموشی سے سائیڈ پر کھڑا تھا اور کبھی ڈھانچے کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی اسے اور کبھی اس کے طالب علموں کو، ہیرو شیما کا میموریل نومبر کی دھوپ میں چمک رہا تھا۔
فضا میں ہلکی ہلکی گرمائش تھی، یہ گرمائش سردیوں کے شروع میں اچھی لگ رہی تھی، میں یہاں تیسری بار آیا تھا، پہلی بار 1996میں، دوسری بار پچھلے سال 2022میں اور تیسری بار اب اپنے گروپ کے ساتھ، آئی بیکس کا گروپ جاپان کے وزٹ پر ہے، ہم تین راتیں ٹوکیو میں گزار کر کل صبح ہیرو شیما آئے تھے، آج ایٹم بم کے میموریل پر چند گھنٹے گزار کر اوساکا چلے جائیں گے اور تین راتیں وہاں رہ کر واپس پاکستان آ جائیں گے۔
ہمارا گروپ میموریل کے وزٹ کے لیے قطار میں کھڑا تھا جب کہ میں اسکول کے بچوں کے ایک گروپ کے قریب کھڑے ہو کر ان کی ٹیچر کی کہانی سن رہا تھا، وہ جاپانی زبان میں بچوں کو ایٹم بم اور اگست 1945 کی تباہی کی داستان سنا رہی تھی، کہانی کا ایک لفظ میرے پلے نہیں پڑ رہا تھا مگر میں اس کے باوجود اس کے جذبات کو سمجھ رہا تھا، جذبات کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے، یہ زبان، زبان سے بولی جاتی ہے اور نہ کانوں سے سنی جاتی ہے۔
یہ آنکھوں سے بولی اور آنکھوں ہی سے سنی جاتی ہے اور میں آنکھوں سے اسے سن بھی رہا تھا اور سمجھ بھی پا رہا تھا، وہ دکھی تھی اور اسے سن سن کر اس کے طالب علم بھی دکھی ہو رہے تھے، وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کبھی سامنے موجود ڈھانچے کو دیکھتے تھے، کبھی ٹیچر کے درد میں ڈوبے ہوئے چہرے پر نظریں ڈالتے تھے اور کبھی قطاروں میں کھڑے لوگوں کو ٹٹولتے تھے۔۔
میں نے محسوس کیا خاتون ٹیچر نے ایک بار بھی اس عمارتی ڈھانچے کی طرف نہیں دیکھا جو 78 سال سے ایٹم بم کی تباہی کا استعارہ بن کر زمین پر کھڑا ہے، جو دنیا میں امریکا کی جارحیت اور جاپان کی مظلومیت کی علامت ہے، وہ ڈھانچے کی طرف مسلسل پیٹھ کرکے بولتی جا رہی تھی، وہ خاموش ہوئی اور اس نے اس کے بعد بچوں کو قطار میں کھڑا کرنا شروع کر دیا۔
وہ جب فارغ ہوگئی تو میں نے اس سے معذرت کی اور پوچھا "پروفیسر مجھے محسوس ہوتا ہے آپ ڈھانچے کی طرف نہیں دیکھنا چاہتی؟" اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پھر جاپان کی روایتی عاجزی کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر جھکی، سیدھی ہوئی اور بولی "ہاں میں نے پچھلے 30 برسوں سے اس عمارت کی طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھا" میں نے بھی ہاتھ جوڑ کر عاجزی سے پوچھا "کیوں؟" وہ مزید دکھی ہو کر بولی "یہ ڈھانچہ جاپان کی کم زوری کی نشانی ہے۔
مجھے خطرہ ہے میں اسے دیکھوں گی تو مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو جائے گی لہٰذا میں اس کی طرف آنکھ نہیں اٹھاتی" مجھے یہ استدلال عجیب محسوس ہوا، کیوں؟ کیوں کہ پوری دنیا ہیرو شیما کے ڈھانچے کو جاپان کی قومی مزاحمت، جاپان کی قوت مدافعت کی علامت سمجھتی ہے۔
یہ اقوام عالم کو پیغام دیتا ہے قوم کی اگر ریڑھ کی ہڈی سلامت ہو تو یہ ایٹم بم کے بعد بھی کھڑی ہو جاتی ہے، جاپان 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی حملوں کے بعد مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا مگر ٹھیک پانچ سال بعد یعنی 1950 میں یہ نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑا تھا بلکہ یہ تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں بھی شمار ہوتا تھا۔
آج بھی اس کی ایکسپورٹس یورپ کی مجموعی ایکسپورٹس سے زیادہ ہیں اور یہ فوج کے بغیر دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے دنیا میں کوئی بھی نئی ایجاد آئے اس کا کوئی نہ کوئی پرزہ، کوئی نہ کوئی زاویہ یا کوئی نہ کوئی آئیڈیا جاپان میں جنم لیتا ہے مگر وہ خاتون جاپانی مدافعت کی نشانی کو کم زوری سمجھ رہی تھی چناں چہ میری حیرت بجا تھی اور میں حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا، وہ بولی "جاپانی زبان کا ایک محاورہ ہے، آپ جو جنگ جیت نہیں سکتے۔
آپ کو وہ شروع نہیں کرنی چاہیے، ہم جاپانی قوم اس حقیقت سے واقف تھے، ہم اپنی قومی دانش کو بھی سپریم سمجھتے ہیں چناں چہ ہم نے ایک ایسی جنگ کیوں شروع کی تھی جس کا اختتام ہیرو شیما اور ناگاساکی کی صورت میں نکلنا تھا؟ یہ ہماری کم زوری اور ناکامی تھی اور یہ عمارتی ڈھانچہ اس کی علامت ہے" میں اس کا نقطہ سمجھ گیا، میں نے اسے سلام کیا اور اپنے گروپ کی طرف چل پڑا۔
یہ نقطہ، یہ بات مجھے دو دن قبل میرے جاپانی دوست سلیم ملک نے بھی سنائی تھی، یہ وزیر آباد سے تعلق رکھتے ہیں، 35 برسوں سے جاپان میں ہیں، جاپانی نیشنل ہیں، گاڑیوں کا اپنا برینڈ بنا اور چلا رہے ہیں، ملک صاحب دو دن قبل ہمیں ٹوکیو میں ملنے کے لیے آئے۔
انھوں نے بھی باتوں باتوں میں یہ جاپانی محاورہ سنایا اور اس کے بعد کہا، جاپان نے 1945 کی شکست کے بعد یہ سبق سیکھا انسان کو وہ جنگ کبھی شروع نہیں کرنی چاہیے جس میں اس کی ہار پکی ہو لہٰذا یہ لوگ 78 برسوں سے کسی ایسے تنازع میں نہیں پڑتے جس کے اختتام میں انھیں شکست کا اندیشہ ہو، یہ نقطہ اب جاپانی فطرت کا حصہ بن چکا ہے۔
عام جاپانی بھی کوئی ایسی معاشی، جسمانی یا سماجی غلطی نہیں کرتا جس میں اسے مار پڑنے کا خوف ہو مثلاً یہ لوگ کبھی کوئی ایسا کاروبار شروع نہیں کریں گے، یہ کوئی ایسی فیکٹری نہیں لگائیں گے یا کوئی ایسی جاب نہیں کریں گے جسے انھیں مہارت، رقم، وقت یا صلاحیت کی کمی کی وجہ سے بند کرنا پڑے یا یہ اس کی فروخت پر مجبور ہو جائیں۔
آپ کسی جاپانی دکان دار، فیکٹری مالک یا ملازم کو آفر کرکے دیکھ لیں، یہ کبھی آفر کا والیم نہیں دیکھے گا، یہ ہمیشہ اپنی استطاعت، اپنی پیداوار اور اپنی کیپسٹی پر نظر ڈالے گا اور ہاں یا ناں کرے گا، یہ اسپورٹس میں بھی اس وقت تک اپنی ٹیم کو میدان میں نہیں اتارتے جب تک انھیں اس کی کام یابی کا یقین نہیں ہو جاتا، یہ جاب کے لیے بھی اس وقت تک اپلائی نہیں کرتے جب تک انھیں اپنی مہارت یا سکل کا یقین نہیں ہو جاتا اور یہ اس وقت مکان، گاڑی حتیٰ کہ کتا تک نہیں خریدتے جب تک ان کے پاس اس کے لیے وقت، سرمایہ اور اہلیت نہیں ہو جاتی، یہ بات میرے لیے نئی تھی لیکن میں اسے باتوں میں بھول گیا، خاتون استاد کے ساتھ مکالمے میں یہ مجھے یاد آ گئی اور میں جاپانی وزڈم کا قائل ہوگیا۔
میرا خیال ہے ہم جاپان کی اس فوک وزڈم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، ہم میں من حیث القوم یہ بہت بڑی خرابی ہے ہم ہمیشہ وہ جنگ شروع کر دیتے ہیں جس میں ہماری ہار لازمی ہوتی ہے اور یہ ہماری قومی فطرت بن چکی ہے، آپ سرحدی تنازعوں سے لے کر کرکٹ اور سیاست تک اپنے معاشرے کا تجزیہ کر لیں آپ کو ہر جگہ، ہر فورم پر یہ غلطی نظر آئے گی۔
ہم نے کشمیر کے نام پر بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑیں، ہمیں کیا فائدہ ہوا؟ کیا ہم نے وہ جنگیں جیت لیں؟ کیا ہم نے کشمیر حاصل کر لیا، ہم ستر سال سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی منہ بنا کر بیٹھے ہیں، ہمیں کیا فائدہ ہوا؟ کیا بھارت، افغانستان یا ایران ختم ہو گئے؟ حقیقت تو یہ ہے یہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں، ہم نے ابھی تازہ تازہ افغانوں کو ملک سے نکال دیا، ہمیں کیافائدہ ہوا؟ افغانستان نے پاکستان سے امپورٹس پر پابندی لگا دی، ہماری مرغی افغانستان جاتی تھی، افغانوں نے یہ اب ایران سے خریدنا شروع کر دی ہے۔
افغان ٹرانزٹ چاہ بہار پورٹ پر چلا گیا، یہ اب ایران کے ذریعے امپورٹ کرے گا اور یہ مصنوعات دوبارہ پاکستان آئیں گی اور ہم جو کراچی پورٹ کے ذریعے چند لاکھ ڈالر کماتے تھے ہم ان سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
افغانستان نے لوہا، سیمنٹ اور اسلحہ بھی ہم سے خریدنا بند کر دیا ہے، یہ اب چین کی مدد سے ملک کے اندر پیداوار شروع کر رہا ہے، یہ لوگ اب طور خم کے بجائے چین کے ساتھ واہ خان کوریڈور کھول رہے ہیں اور عن قریب یہ راستہ پورے سینٹرل ایشیا اور ایران کے لیے ہائی وے بن جائے گا اور ہم سی پیک کو لے کربیٹھ جائیں گے۔
افغانستان اب ایک بار پھر بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے، بھارت دوبارہ افغانستان کو اپنا مورچہ بنائے گا اور ہم پر دونوں سائیڈز سے گولہ باری کرے گا، ہم نے افغانستان کے معاملے میں دو خوف ناک غلطیاں کیں۔
ہم نے 1980میں چند سیکنڈ میں ایک حکم کے تحت افغانوں کے لیے اپنے سارے بارڈرز کھول دیے چناں چہ ایک سال میں پچاس لاکھ افغانی پاکستان آئے اور انھوں نے ہماری مت مار دی اور پھر 43 سال بعد 2023 میں ہم نے ایک ماہ کے نوٹس پر انھیں نکال دیا اور ہمیں اب جلد بازی میں کیے گئے اس فیصلے کا بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
ہم اگر فیصلے سے پہلے غور کر لیتے تو ہم اسے مزید پیداواری بنا سکتے تھے مثلاً ہم یورپ، ترکی اور امریکا کی طرح افغانوں کے لیے ایک اسپیشل انویسٹمنٹ اسکیم لا سکتے تھے، ہم انھیں پیش کش کرتے، یہ سرکاری خزانے میں پانچ لاکھ ڈالر یا اس کے مساوی رقم جمع کرائیں اور پاکستانی شہریت حاصل کر لیں، اس اسکیم سے دو چار پانچ دس ہزار لوگ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
اس سے یہ ایشو بھی نہ بنتا، افغانستان بھی ناراض نہ ہوتا اور ہمیں ایک آدھ بلین ڈالر بھی مل جاتے لیکن ہمیں کیوں کہ ایسی جنگیں چھیڑنے کا شوق ہے جن کے آخر میں ہماری ہار یقینی ہوتی ہے لہٰذا ہم نے یہ محاذ بھی کھول لیا، آپ اب اس تناظر میں باقی فیصلے بھی دیکھ لیجیے، آپ عمران خان اور میاں نواز شریف کی سیاست کا تجزیہ بھی کر لیجیے۔
کیا میاں نواز شریف بھی ہمیشہ وہ جنگ نہیں چھیڑتے رہے جس کا نتیجہ آخر میں وہ نکلتا تھا جو اس وقت نکل رہا ہے اور کیا عمران خان نے بھی وہی جنگ نہیں چھیڑ لی جس کے آخر میں یہ ہیرو شیما کا کھنڈر بن کر رہ جائیں گے اور کیا حماس بھی غزہ میں یہ حماقت نہیں کر بیٹھی؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو کیا پھر ہمیں جاپان سے نہیں سیکھنا چاہیے؟ شاید نہیں کیوں کہ قدرت بھی عقل جاپان جیسی قوموں کو ہی دیتی ہے، یہ بے وقوفوں پر اتنی مہربانی بھی نہیں کرتی۔