Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Wo Jis Ne Unglion Ko Aankhain Bana Lia

Wo Jis Ne Unglion Ko Aankhain Bana Lia

وہ بچپن میں حادثے کا شکار ہوگیا، جان بچ گئی مگر بینائی جاتی رہی، وہ عمر بھر کے لیے اندھا ہو چکا تھا، لوئی کو پڑھنے کا جنون تھا، وہ حادثے سے قبل روزانہ کتابیں پڑھتا تھا لیکن وہ اب پڑھ نہیں سکتا تھا، والدین امیر تھے، یہ 1820ء کا زمانہ تھا، فرانس کے متمول لوگ اس دور میں ملازمین کی فوج رکھتے تھے، ملازمین ان کا وزٹنگ کارڈ ہوتے تھے، یہ لوگ جب کسی سے ملاقات کے لیے جاتے تھے تو ان کا ہرکارہ باآواز بلند اعلان کرتا تھا "حضرات آپ ڈیوک فلپ سے ملیے، یہ دو ہزار ایکڑ زمین، تین محلات اور چار سو ملازمین کے مالک ہیں، اس جاگیر میں اتنے باڑے، اتنی جھیلیں اور اتنی کانیں ہیں "وغیرہ وغیرہ۔

تعارف کا یہ اسٹائل اس دور میں کم و بیش دنیا کے تمام ممالک میں تھا، ہمارے خطے میں یہ خدمات مراثی سرانجام دیتے ہیں، پنجاب کے دیہات میں ہر چوہدری کے پاس مراثیوں کا پورا اسکواڈ ہوتا تھا اور یہ ہر مناسب اور غیر مناسب مقام پر اپنے چوہدری کا بڑھا چڑھا کر تعارف کراتے تھے، یہ روایت فرانس میں بھی موجود تھی، وہاں بھی رئیس ملازم رکھتے تھے اور فرنچ مراثی ملازمین کی تعداد کو اپنے رئیس کا تعارف بناتے تھے، لوئی کے والدین اس کلچر کا حصہ تھے چنانچہ انھوں نے معذور ہوتے ہی اس کے لیے دو ٹیوٹرز کا بندوبست کر دیا۔

یہ ٹیوٹرز لوئی کو کتابیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے مگر بارش اور برف باری کے موسم میں جب ٹیوٹر گھر نہیں آ سکتے تھے تو لوئی کو کوفت ہوتی تھی اور وہ صحن میں دیوانہ وار چکر لگاتا تھا، وہ اس وقت اپنی معذوری کو زیادہ شدت سے محسوس کرتا تھا، والدین کو اس کی بے چینی بہت پریشان کرتی تھی مگر اس دور میں معذور لوگوں کے پاس دوسروں کے سہارے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، لوئی ایک مختلف بچہ تھا، یہ 1809ء میں پیدا ہوا، 1820ء میں اندھا ہوا، اس نے چار سال ٹیوٹرز کے سہارے زندگی گزاری اور پھر اس نے اندھنے پن میں رہ کر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا، وہ کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا چاہتا تھا۔

جس کے ذریعے وہ کتاب پڑھ سکے، لوئی نے انگلیوں کی پوروں کو آنکھیں بنانے کا فیصلہ کر لیا، اس نے ایسا ٹائپ رائیٹر ایجاد کرنا شروع کر دیا جو لفظوں کو کاغذ پر ابھار دیتا تھا اور وہ کاغذ پر انگلیاں پھیر کر ابھرے ہوئے لفظ پڑھ لیتا تھا، لوئی نے یہ ٹائپ رائیٹر بنانے کے لیے دن رات کام کیا، آپ تصور کیجیے، آپ کی آنکھیں نہ ہوں، آپ ڈبل روٹی کو بھی ٹٹول کر محسوس کرتے ہوں لیکن آپ ایک ایسا طریقہ ایجاد کرنے میں جت جائیں جو پوری دنیا کی طرز فکر بدل دے یہ کتنا مشکل، یہ کتنا کٹھن ہو گا، اللہ تعالیٰ نے لوئی کو ارادے کی نعمت سے نواز رکھا تھا، اس نے وہ ٹھان لیا "میں نے ہر صورت کامیاب ہونا ہے" اور لوئی بہرحال کامیاب ہو گیا۔

اس نے 1839ء میں ایک ایسا سسٹم ایجاد کر لیا جس کے ذریعے دنیا بھر کے اندھے کتابیں پڑھ سکتے تھے، لوئی نے یہ سسٹم ایجاد کرنے کے بعد باقی زندگی اس کی ترویج اور پھیلاؤ میں لگا دی، وہ یہ سسٹم لے کر پورے یورپ میں گیا، یہ بادشاہوں اور سیاستدانوں سے ملا، اس نے تعلیمی ماہرین کے ساتھ مذاکرات کیے اور اس نے عوام کوبھی سمجھایا، وہ 1852ء تک زندہ رہا، وہ زندگی کی آخری سانس تک اس سسٹم کی اشاعت میں لگا رہامگر بدقسمتی سے اس کے انتقال تک یورپ میں یہ نظام کامیاب نہ ہو سکا، لوئی کے انتقال کے بعد یورپ میں اندھوں کے حقوق کے لیے تحریکیں شروع ہوئیں اور صرف دو برسوں میں لوئی کا بنایا ہوا سسٹم پورے یورپ میں رائج ہوگیا۔

یورپ کے 14ملکوں نے تمام بڑی کتابیں لوئی کے نظام پر منتقل کرنا شروع کر دیں، آج لوئی کا بنایا ہوا بریل سسٹم پوری دنیا میں رائج ہے، دنیا میں ہر سال بریل پر ہزاروں کتابیں شائع ہوتی ہیں، آپ اور میں دونوں اس سسٹم کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے بریل سسٹم کو بریل سسٹم کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ سسٹم بنانے والے کے نام سے مشہور ہے، لوئی کا پورا نام لوئی بریل تھا اور دنیا میں جب بھی کوئی اندھا شخص بریل پر کوئی حرف، کوئی لفظ پڑھتا ہے تو وہ بے اختیار لوئی بریل کی کوششوں کا اعتراف کرتا ہے، وہ بریل کی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔

دنیا میں 20 ایسی ایجادات ہیں جنھیں ایجادات کی ماں قرار دیا جاتا ہے، یہ وہ ایجادات ہیں جنھوں نے آگے چل کر ایجادات کے ہزاروں بچوں کو جنم دیا، یہ بچے ہماری سماجی زندگی کا حصہ ہیں، ہم ان بچوں کے بغیر آرام دہ زندگی نہیں گزار سکتے، ان 20 ایجادات میں بریل بھی شامل ہے، بریل نے دنیا کو پہلی بار بتایا معذور بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں چنانچہ بریل کے بعد ایسی سیکڑوں چیزیں ایجاد ہوئیں جنھوں نے آگے چل کر معذوروں کی زندگی آسان بنا دی اور لوئی بریل اس ٹرینڈ کا بانی تھا، لوئی نے بریل ایجاد کر کے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا "ایجادات کی اصل ماں ضرورت ہوتی ہے۔

آپ دنیا میں ضرورت پیدا کریں چیزیں خود بخود پیدا ہوجائیں گی" کاش ہم لوئی بریل کے اس نقطے کو سمجھ لیں، ہم یہ جان لیں دنیا کے تمام مسائل انسان کے لیے ہیں اور یہ مسئلے انسان ہی نے حل کرنے ہیں، ہم یہ نقطہ جس دن جان لیں گے ہمارے پچاس فیصد مسائل حل ہو جائیں گے، ملک میں اس کے بعد بے روزگاری رہے گی، جہالت رہے گی اور نہ ہی بدامنی، بے چینی، لوڈ شیڈنگ اور ٹریفک کا شور۔ ہم پاکستانی بدقسمتی سے سیکڑوں مسائل کا شکار ہیں مگر ہم یہ مسائل حل کرنے کی بجائے دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں، ہم یہ چاہتے ہیں گلی میں گند ہم ڈالیں، گھر کا پانی ہم سڑک کی طرف نکال دیں۔

ہم سڑک پر اندھا دھند موٹر سائیکل چلائیں، ہم گاؤں میں اسپتال بننے دیں اور نہ ہی ڈسپنسری، ہم اسکول بھی کھلنے نہ دیں، ہم اپنے جعلی ڈگری ہولڈر بھائی کو اسکول اور کالج میں ملازمت دلا دیں، ہم واپڈا کے کھمبے سے تار اتار لیں، ہم بلا ٹکٹ ٹرین میں سفر کریں، ہم سرکاری عمارتوں کے بلب چوری کر لیں، ہم معاشرے کے نالائق ترین شخص کو ایم پی اے اور ایم این اے منتخب کریں اور ہم دن رات کبھی اسلام، کبھی پاکستانیت اور کبھی مشرقیت کی بنیاد پر دوسروں کو تکلیف دیں مگر ریاست اس کے باوجود ہماری جان، مال اور عزت کی حفاظت کرے، یہ ہمیں صاف پانی بھی فراہم کرے، اعلیٰ تعلیم بھی، روزگار بھی، انصاف اور پاک صاف ماحول بھی۔

کیا یہ ممکن ہے؟ ملک کے 20 کروڑ لوگ جب روزانہ درخت کی شاخیں کاٹیں گے تو درخت کیسے سرسبزاور شاداب رہے گا؟ ملک کیسے آگے بڑھے گا؟ آپ لوئی بریل سے لے کر نیوٹن اور مادام کیوری سے لے کر آئن سٹائن تک دنیا کے تمام محسنوں کے پروفائل پڑھ لیں آپ کویہ جان کر حیرت ہو گی، یہ تمام لوگ اکیلے تھے، ان کے پیچھے کسی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، یہ تھے اور بس ان کی دیوانگی تھی اور ان لوگوں نے آخر میں اپنے جیسے انسانوں کی زندگی سہل بنا دی، یہ لوگوں کی بے نور زندگی میں رنگ بھرتے چلے گئے، ہمارا معاشرہ بھی لاچار اور بیمار ہے، اس معاشرے کو بھی لوئی بریل جیسے لوگ چاہئیں، ایسے لوگ جو بے بس لوگوں کا ہاتھ تھامیں اور زندگی کی بے نور گلیوں میں راستے ٹٹولنے والوں کو سکون اور کامیابی کی منزل مل جائے۔

دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک، وہ لوگ جو لوئی بریل کی طرح اپنی زندگی تیاگ کر دوسروں کے مستقبل روشن کرتے ہیں، دو، وہ لوگ ہیں جو لوئی بریل جیسے لوگوں سے سیکھ کر دوسرے لوگوں کو سکھاتے ہیں اور تین ہمارے جیسے لوگ جو مرنے تک آسمان سے نصرت اترنے کا انتظار کرتے ہیں، جو غیبی امداد کے انتظار میں عمر کا سفر رائیگاں کر دیتے ہیں، ہمارے معاشرے کو پہلی قسم کے لوگ درکار ہیں۔

وہ لوگ جو مسائل حل کرنے کے لیے اپنی جان لڑا دیں، اللہ تعالیٰ انسانوں کو برابر صلاحیتیں دیتا ہے، آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو دن 24 گھنٹے، مہینہ 30 دنوں اور سال 365 دنوں کا ملے گا، آپ کو دنیا کے تمام انسانوں کے منہ پر دو آنکھیں، دو کان، ایک ناک اور بدن پر دو ہاتھ اور دو پاؤں ملیں گے، ہم سب برابر ہیں بس دنیا کی چند قومیں اپنے ان دو ہاتھوں، دو آنکھوں، دو کانوں اور ایک ناک کا استعمال سیکھ لیتی ہیں چنانچہ یہ آگے نکل جاتی ہیں جب کہ ہم لوگ ان کا استعمال نہیں جانتے، ہم اپنے سارے حواس، اپنی ساری صلاحیتیں کھانا کھانے اور واش روم جانے میں خرچ کر دیتے ہیں، ہم لوئی بریل کی طرح وقت کو وقت سمجھ کر استعمال نہیں کرتے، ہم اسے انسانوں کی فلاح پر نہیں لگاتے۔

ہمارے لیے کس قدر ڈوب مرنے کا مقام ہے لوڈ شیڈنگ ہم پیدا کرتے ہیں مگر ہمارا یہ مسئلہ امریکا، یورپ اور چین حل کر رہا ہے، دہشت گردی ہم پیدا کرتے ہیں لیکن یہ مسئلہ دنیا حل کر رہی ہے، پولیو کے مریضوں میں اضافہ ہم کر رہے ہیں لیکن پولیو کی ویکسین بنانا اور پلانا دوسری قوموں کی ذمے داری ہے، بے روزگار ہم ہیں لیکن روزگار کا مسئلہ ہمارے دوستوں نے حل کرنا ہے، لڑتے جھگڑتے ہم ہیں، دوسروں کے مال پر قبضہ ہم کر تے ہیں اور دوسروں کی انا کچلتے ہم ہیں لیکن ہمارے پیدا کردہ یہ مسئلے پولیس اور عدالتیں حل کریں گی! کیادنیا میں ایسا ممکن ہے؟ کیا ہم اس اپروچ کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔

میری آپ سے درخواست ہے آپ لوئی بریل بنیں، آپ اندھا رہ کر دوسروں کے ٹکڑوں پر نہ پلیں، آپ معاشرے کے گداگر نہ بنیں آپ معاشرے کا لیڈر بنیں بالکل اس طرح جس طرح لوئی بریل نے بریل بن کر دنیا بھر کے اندھوں کی انگلیوں پر آنکھیں لگادی تھیں، جو خود اندھیروں میں بھٹکتا رہا لیکن اس نے دوسروں کو علم کی روشن گلیوں میں اترنے کا راستہ دکھا دیا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.