دنیا اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے مذہبی سے سیکولر ہو چکی تھی، سعودی عرب جیسے ملک نے بزنس امیگریشن کھول دی، یہ اب خواتین کو ملازمت اور ڈرائیونگ کی اجازت دے رہا ہے، اسرائیل نے عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے شہریت کی گنجائش پیدا کر دی اور یہ مسجدوں اور چرچوں کی اجازت بھی دے رہا ہے، وائیٹ ہاؤس اور 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ جیسے ایوانوں میں افطار ڈنر اور عید ملن پارٹیاں ہونے لگیں، بھارت میں متعصب ہندوؤں نے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوشش کی تو بی جے پی کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی، ایران جیسے سخت ملک نے بھی یورپ اور امریکا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔
یو اے ای مسلم دنیا کا لندن پیرس اور نیویارک بن گیا، ملائشیا اور انڈونیشیا نے مذہب کو ترقی کے عمل سے الگ کر دیا اور مصر نے سیاحت کے نام پر اخوان المسلمون کے ملک میں یورپی باشندوں کے لیے سماجی برداشت کا چھوٹا سا جزیرہ بنا دیا جب کہ ہم اسلام کے نام پر گلے کاٹنے لگے، ہم نے اللہ کے آخری دین کے دس پندرہ ٹکڑے کیے اور ہر ٹکڑے کو مکمل مذہب قرار دے کر دوسروں کو کافر قرار دینے لگے، ہم شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور صرف نام کی بنیاد پر پندرہ پندرہ لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں۔
ہم نے اللہ کی مسجد کو بریلویوں کی مسجد، وہابیوں کی مسجد، اہل حدیث کی مسجد اور شیعوں کی امام بارگاہ بنا دیا، یہ کام جب چل رہا تھا تو ریاست خاموش رہی، مسلح جتھوں نے اس خاموشی کو تائید خداوندی سمجھ کر بندوق کی نلی کے ذریعے اسلام نافذ کرنے کا اعلان کر دیا، تحریک طالبان پاکستان بنی، یہ لوگ وزیرستان میں اکٹھے ہوئے، وہاں سے سوات آئے، سوات میں مقامی انتظامیہ کو قتل کر کے بھگایا اور مالاکنڈ ڈویژن میں ایسا اسلام نافذ کر دیا جس کا معاشرے کے ساتھ کوئی تعلق تھا اور نہ ہی اسلام کے ساتھ۔ ریاست نے محسوس کیا، ہم نے اگر ان لوگوں کو نہ سنبھالا تو امریکا پاکستان میں براہ راست مداخلت کر دے گا، فوج سوات میں اپنے ہی لوگوں کے سامنے کھڑی ہوئی۔
جنگ ہوئی اور ہم نے ان لوگوں کو شکست دے دی جنھیں ہم نے خود پیدا کیا تھا، جن کی ہم نے خود پرورش کی تھی اور جنھیں ہم نے خود پھلنے اور پھولنے کا موقع دیا تھا، سوات کے بعد جنگ جنوبی وزیرستان گئی، ہم نے وہاں بھی بڑی حد تک شورش پر قابو پا لیا، وہاں سے یہ آگ شمالی وزیرستان میں اکھٹی ہو ئی، ہمیں وہاں وقت پر آپریشن کرنا چاہیے تھا لیکن ہم نے بروقت قدم نہ اٹھایا، کیوں نہ اٹھایا؟ اس کی تین وجوہات تھیں، ہم نے دو جرنیلوں کے غیر قانونی اقتدار کو قانونی بنانے کے عمل میں دہشت گردوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد، اچھے دہشت گرد وہ تھے جو ہمارے چند عہدیداروں کے اقتدار، اختیار اور ایکس ٹینشن یا ہمارے "قومی مفاد، ، کے لیے ہماری درخواست پر افغانستان اور بھارت میں گھس جاتے تھے۔
اپنی جان دیتے تھے اور چند عمارتیں، چند گاڑیاں اور چند معصوم لوگوں کو اڑا دیتے تھے یا پھر دوسرے فریق کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے گاڑی میں بارود بھر کر جلال آباد، کابل، قندھار اور دہلی میں داخل ہو جاتے تھے اور برے دہشت گرد وہ تھے جو ہماری بات نہیں مانتے تھے یا جو ہم پر حملہ کرتے تھے یا پھر جو پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا تے تھے، ہم اپنے اچھے دہشتگردوں کو مالی، سیاسی اور قانونی مدد بھی دیتے تھے اور ہم ان کے ایسے جرم بھی معاف کر دیتے تھے جن میں "غلطی، ، سے دس، بیس، پچاس لوگ مارے جاتے تھے، ہم لوگ اچھے دہشت گردوں کے مطالبے پر ان کے مجرموں کو جیلوں سے بھی چھڑا دیتے تھے۔
ججوں پر بھی دباؤ ڈالتے تھے اور پولیس کو بھی کارروائی سے روک دیتے تھے، امریکا ہماری اس تکنیک کو سمجھ گیا چنانچہ اس نے ہمارے برے دہشت گردوں کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا، بھارت اور روس بھی امریکا کی دیکھا دیکھی میدان میں کودے اور یہ بھی ہمارے برے دہشت گردوں کو مالی، تکنیکی اور سیاسی سپورٹ دینے لگے، یہ انھیں ڈالر بھی دیتے تھے، گولہ بارود بھی اور ٹریننگ بھی۔ یہ لوگ شمالی وزیرستان میں مقیم تھے اور ہم ان اچھے دہشت گردوں کو ہر صورت بچائے رکھنا چاہتے تھے چنانچہ ہم نے آپریشن نہ کیا، آپریشن نہ کرنے کی دوسری وجہ ان لوگوں کی مزاج شناسی تھی، یہ لوگ کیونکہ کبھی ہمارے لوگ رہے تھے چنانچہ یہ ہماری کمزوریوں سے واقف تھے، یہ ہمیں کسی نہ کسی ایسے ایشو میں پھنسا لیتے تھے جس کی وجہ سے ہم بے بس ہوتے چلے گئے، امریکا نے ہمارے اچھے دہشت گردوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے مارنا شروع کر دیا، ہم نے "اپنی حدود کی خلاف ورزی، ، کا بہانہ بنا کر اعتراض کیا تو اس نے ایک آدھ حملہ ہمارے برے دہشت گردوں پر بھی کر دیا، ہم جانتے تھے امریکا ہمارے اچھے دہشت گردوں کے بارے میں جانتا ہے۔
ہم نے اگر آپریشن شروع کیا تو یہ ہم سے اچھے دہشت گرد مروا دے گا اور ہم یہ نہیں کرنا چاہتے تھے، سیاستدان اور بیوروکریسی اس صورتحال کو کنٹرول کر سکتی تھی لیکن بد قسمتی سے 35 برسوں میں جتنے سیاستدانوں نے آنکھ کھولی، ان میں سے آدھوں کے ان داتا جنرل ضیاالحق تھے اور آدھوں کے جنرل پرویز مشرف، یہ لوگ حقیقتاً مارشل لاؤں کی پیداوار تھے، یہ لوگ ملک کی خدمت کے بجائے ذاتی مفادات، لالچ، اقتدار کی نا آسودہ خواہشات اور مخالفوں کو نیچا دکھانے کے لیے سیاست میں آئے تھے، ملک ان کا مقصد نہیں تھا چنانچہ یہ دیہاڑیاں لگاتے رہے، جنگوں کے بے شمار المیوں میں سے ایک المیہ دانش، ذہانت اور عقل کی موت ہوتا ہے، ہماری 35 سالہ جنگ نے ملک سے دانشور، ادیب اور فلاسفر بھی ختم کر دیے اور اعلیٰ سیاستدان بھی، سیاست ماجھے گامے کے پاس چلی گئی اور دانش اور ادب میرے جیسے ناسمجھ صحافیوں کے ہاتھ میں آ گئی۔
یوں ہم سیاست اور ادب دونوں کا قبرستان بن گئے، بیوروکریٹس 35 برسوں میں اقتدار کے اصل قبلے کو سمجھ گئے، انھوں نے حکومت اور ریاست کے بجائے وسیع تر قومی مفاد کی ملازمت شروع کر دی، آج ہماری بیورو کریسی کی حالت یہ ہے، عمران خان اور علامہ طاہر القادری اسلام آباد پر حملہ آور ہوتے ہیں تو حکومت کو وفاقی دارالحکومت کے لیے ایس ایس پی نہیں ملتا، حکومت اگر کسی کو یہ ذمے داری سونپ بھی دیتی ہے تو ایک فون آتا ہے اور وہ چھٹی لے کر گھر چلا جاتا ہے، جو بیوروکریٹ "وسیع تر قومی مفاد، ، کی ماتحتی میں نہ آیا وہ نوکری سے فارغ ہو گیا یا پھر وہ اسلام نافذ کرنے والوں کے ہتھے چڑھ گیا، ہمارے حکمران بھی اسی صورتحال کا شکار تھے۔
ان میں سے آدھے اسلام نافذ کرنے والوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور آدھے وسیع تر قومی مفاد کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے تھے، پانچ سال پورے کرتے تھے اور پانچ سال کی کمائی سمیٹ کر آرام سے کسی کونے کھدرے میں بیٹھ جاتے تھے، اس دوران ایک اور دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا، ہماری غلطیوں کی وجہ سے برے دہشت گرد اور اچھے دہشت گرد اکھٹے ہو گئے اور یہ پاکستان اور امریکا دونوں کو نقصان پہنچانے لگے، یہ نقصان 2013ء میں وہاں جا پہنچا جہاں فوج اپنی جان اور اچھے دہشت گردوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہو گئی۔ ہم نے ضرب عضب بھی شروع کی اور 16 دسمبر2014ء کے سانحے کے بعد دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف جامع قومی پالیسی بھی بنائی، وزیر اعظم نے کل اعلان کیا پاکستان کا کل نیا ہو گا، کیا واقعی ایسا ہو سکے گا؟ آئیے ہم اب اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے معاشروں کو ایک غلط دن کا تاوان چار دن تک بھگتنا پڑتا ہے اور ہماری کریڈٹ لسٹ پر 35 سال کی غلطیاں ہیں، آپ اس سے قوم کے تاوان کا اندازہ لگا لیں گے، ہم نے ان 35 برسوں میں صرف اپنی مت نہیں ماری بلکہ ہم نے اپنے ملک کو دوسروں کی چراگاہ بھی بنا لیا، ہم خود کو اگر آج ٹھیک بھی کر لیں تو بھی ہم امریکا کو خطے سے کیسے نکالیں گے، امریکا 1988ء کی غلطی نہیں دہرائے گا، یہ افغانستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا اور امریکا جب تک افغانستان میں رہے گا ہم اس کے دوست بھی رہیں گے اور وہ افغان جن کے گھر بار، بچے اور والدین ان 35 برسوں کا رزق بنے وہ بھی ہم سے اور امریکا سے لڑتے رہیں گے، بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، یہ ہماری دو کمزوریوں سے واقف ہے۔
یہ جانتا ہے ہم افغانستان میں 35 برس سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور ہم کبھی یہ سرمایہ کاری ضایع نہیں ہونے دیں گے چنانچہ بھارت افغانستان کے ذریعے ہمیں انگیج رکھے گا، بھارت یہ بھی جانتا ہے ہم دو سرحدوں پر نہیں لڑ سکتے اور بھارت اگر اپنی سرحدوں پر امن قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے افغان پاکستان بارڈر گرم رکھنا ہو گا، مجھے خطرہ ہے، بھارت کبھی پاک افغان سرحد ٹھنڈی نہیں ہونے دے گا، ہمارے دہشت گرد بھائی بھی جانتے ہیں بھارت ہمارے ہر دشمن کی مدد کرتا ہے، یہ لوگ بھی بھارت سے مدد لیتے رہیں گے، پاکستان عرب باغیوں کا شاندار ٹھکانہ ہے، عرب ملک بھی اپنے باغیوں کو اس ٹھکانے کی طرف دھکیلتے رہیں گے، ایران پاکستان میں شیعہ مسلک پر حملوں کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں ملوث ہو چکا ہے، ہم اب اسے بھی آسانی سے نہیں نکال سکیں گے، ہم نے عوام کو 35 برس جہاد کا درس دیا، ہماری دو نسلیں اس درس کے ساتھ پروان چڑھیں۔
یہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہیں، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ مذہبی جماعتوں کے اجتماعات دیکھ لیجیے، ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی اتنے بڑے اجتماع نہیں کر سکتیں، یہ اسٹریٹ پاور سے بھرپور لوگ ہیں، ہماری کمزور ریاست اس اسٹریٹ پاور کا مقابلہ بھی نہیں کر سکے گی، ہم دنیا بھر کی عسکری تحریکوں کا ٹریننگ کیمپ بھی بن چکے ہیں، آج دنیا کے کسی کونے میں عسکری تحریک چلتی ہے تو اس کے ڈانڈے پاکستان میں آ ملتے ہیں، ہم مستقبل قریب میں یہ ڈانڈے بھی نہیں توڑ سکیں گے، اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ میں (خلفاء راشدین کے عہد کو نکال کر) آج تک کوئی مکمل اسلامی ریاست قائم نہیں ہو ئی لیکن ہم 35 سال سے قوم کو یہ یقین دلا رہے ہیں ہم پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں گے۔
عوام اس یقین پر یقین کر چکے ہیں، ہم اب ان کا یہ یقین بھی نہیں توڑ سکیں گے اور پاکستان میں بتدریج وہ تمام ادارے اور شعبے بھی ختم ہو چکے ہیں جو قوموں کو شدت پسندی سے نکالتے ہیں، آپ کھیل کو دیکھئے، مطالعے کی عادت دیکھئے اور فلم اور موسیقی کو دیکھئے آپ کو یہ شعبے زوال کی آخری حدوں کو چھوتے دکھائی دیں گے، ہم اگر آج ان اداروں کو زندہ کرنا چاہیں تو ہمیں کم از کم تیس برس درکار ہوں گے، کیا ہمارے پاس اتنا وقت باقی ہے؟ مجھے آج محسوس ہوتا ہے، قوم نے دو جرنیلوں کے ناجائز اقتدار کو جائز بنانے کے لیے جو غلطیاں کیں آج ان کے تاوان کا وقت آ گیا ہے لیکن ہمیں بہرحال زیادہ مایوس نہیں ہونا چاہیے، ہمیں خود کو بچانے کی آخری کوشش ضرور کرنی چاہیے اور وہ آخری کوشش کیا ہو سکتی ہے، یہ میں اگلی قسط میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔