Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ye Dehshat Gardi Ki Jung (3)

Ye Dehshat Gardi Ki Jung (3)

ہم اب دہشت گردی کے عفریت سے نکلنا چاہتے ہیں مجھے فوج حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام چاروں فریق پہلی مرتبہ ایک صفحے پر دکھائی دے رہیں، کیوں؟ کیونکہ فوج جانتی ہے یہ دہشت گردوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہے اور اس کے پاس اب لڑیں یا مریں کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا کیونکہ حکومت کو معلوم ہے ریاست دم توڑ رہی ہے اور ہم نے اگر اب فیصلہ نہ کیا تو پھر ہم کبھی فیصلہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ سیاسی جماعتیں اچھی طرح واقف ہیں دہشت گردی ختم نہ ہوئی تو ملک میں سیاست اور حکومت دونوں ناممکن ہو جائیں گی اور کیونکہ عوام بھی جان گئے ہیں یہ سلسلہ جاری رہا تو ہر زندہ کندھے کو لاش اٹھانی پڑے گی چنانچہ لمحہ موجود میں تمام فریق ایک صفحے پر ہیں۔

یہ سب دہشت گردی سے نجات چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا ہم ایک صفحے پر ہونے کے باوجود اس عذاب سے نکل سکیں گے؟ یہ مرحلہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ہمیں چندبڑے اور بے لچک فیصلے کرنا ہوں گے اور ان فیصلوں پر پوری قوت سے عمل کرنا ہو گا۔ ہم دس سے پندرہ برسوں میں کم از کم اپنی ناک پانی سے ضرور باہر نکال لیں گے اور یہ عمل اگر جاری رہا تو ہم بیس برس بعد مکمل محفوظ ہوں گے۔

وہ فیصلے کیا ہیں۔ ہم پہلے شارٹ ٹرم اور میڈ یم ٹرم فیصلوں کی طرف آتے ہیں۔ حکومت فوری طور پر قتل، آبرو ریزی اور ڈاکے کو ریاست کے خلاف جرم قرار دے دے۔ ان جرائم میں ریاست مدعی ہو اور ریاست سال کے اندر اندر مجرم کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ حکومت ان تینوں جرائم کے فیصلوں کا اختیار ملٹری کورٹس کو دے دے لیکن تین سال کے اندر خصوصی عدالتیں بنادی جائیں اور یہ عدالتیں ہر صورت سال کے اندر اندر مقدمہ نبٹالیں، ججز کی تنخوائیں اور مراعات کو فیصلوں کی تعداد سے نتھی کر دیا جائے، جو جج جتنے مقدمے نبٹائے گا اس کو اتنا بونس مل جائے گا، حکومت علماء کرام کے ساتھ بیٹھ کر دیت کے قانون میں گنجائش پیدا کرے۔ دیت اسلامی قانون ہے لیکن ریمنڈڈیوس ہو یا شاہ زیب کے قاتل شاہ رخ جتوئی، سکندر جتوئی ہوں ملک کے زیادہ با اختیار اور امیر لوگ اس مذہبی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم آج دہشت گردوں کو دیت کی سہولتیں دے دیں آپ یقین کر لیں یہ لوگ کل اربوں روپے لے کر آجائیں گے۔

یہ مدعیوں کو دبا بھی لیں گے، حکومت دیت کی عارضی معطلی کا بندوبست کرے، یہ ممکن نہ ہو تو حکومت قانون بنا دے قاتل دیت سے پہلے عمر قید بھگتے گا، دیت کی رقم بھی لواحقین کی بجائے عدالت طے کرے اور یہ کروڑوں روپے میں ہونی چاہیے تا کہ لواحقین کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ ہو سکے۔ ہمارے ملک میں ریاست مجرموں کی میزبان بن جاتی ہے، مجرم جرم کے بعد جیل آتے ہیں اور یہ جب تک جیل میں رہتے ہیں ریاست انھیں تین وقت کھانا بھی دیتی ہے، پانی بھی، پنکھا بھی، ہیٹر بھی، ڈاکٹر بھی، دوا بھی اور کپڑے بھی۔ ریاست یہ بوجھ کیوں اٹھاتی ہے؟ ٹیکس دہندگان کی رقم مجرموں پر خرچ نہیں ہونی چاہیے۔

حکومت جیلوں کے فی دن، فی کس اخراجات کا تخمینہ لگائے اور یہ رقم مجرم یا اس کے لواحقین سے وصول کی جائے، اخراجات پورے کرنے کے لیے مجرم کی پراپرٹی تک بیچ دی جائے۔ جو مجرم یہ رقم ادا نہیں کر سکتے وہ بینکوں سے قرضے لیں اور قید پوری کرنے کے بعد کام کر کے قرض ادا کریں۔ میں یہاں چین کی مثال دوں گا، چین میں قاتل کو گولی ماری جاتی ہے اور اس گولی کی قیمت بھی لواحقین سے وصول کی جاتی ہے۔ ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہم تیس چالیس ہزار مجرموں کو کیوں پال رہے ہیں؟ حکومت ایمنسٹی انٹرنیشنل یورپین یونین اور اقوام متحدہ کے جاگنے سے پہلے سزا ئے موت کے تمام قیدیوں کو بھی پھانسی دے دے کیونکہ حکومت کے لیے دو تین ماہ بعد یہ ممکن نہیں رہے گا۔

حکومت فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان بھی کر دے، ہم اپنے سیاسی مفادات کو ڈیورنڈ لائین تک لے آئیں۔ افغانستان کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے دیں۔ ہم وہاں کوئی کارروائی کریں اور نہ کسی کو کرنے دیں، ہم افغانوں کے اچھے ہمسائے بن جائیں، بھارت کے ساتھ بیس سال کا امن معاہدہ کر لیں، کشمیر ایشوکو بیس سال کے لیے منجمد کر دیں، ہم اس کے لیے صرف عالمی اور علاقائی فورم پر آواز بلند کریں، عسکری جدو جہد سے ہاتھ کھنچ لیں، بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھی معاہدہ کریں، ہم دہشت گردی کے معاملے میں ان کی مدد کریں، جو اب میں ان سے مدد لیں، مجھے یقین ہے ہم اگر بیس برسوں میں اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے تو کشمیر ہمیں خود بخود مل جائے گا لیکن اس کے بر عکس اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو شاید ہمیں کشمیر کے ساتھ ساتھ آدھے بلوچستان، کراچی اور آدھے پنجاب کی قربانی بھی دینا پڑجائے گی چنانچہ عقل کا تقاضا ہے آپ اندرونی محاذ پر توجہ دینے کے لیے بیرو نی محاذ بند کردیں ہم بچ جائیں گے۔

مجھے یقین ہے پاکستان کے بے شمار طبقے میری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن ہمیں سماج کو فساد سے نکالنے کے لیے مذہب کو بہر حال انفرادی حیثیت پر لانا ہو گا۔ ملک میں دو عیدوں کے علاوہ کسی تہوار کو سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہونی چاہیے، مذہبی اجتماعات پر پابندی ہونی چاہیے، لوگ مجلس کرنا چاہیں یا ذکر یہ چا ر دیوار ی تک محدود رہیں، ان کی آواز باہر نہیں آنی چاہیے، مساجد اور مدارس بنانا حکومت کی ذمے داری ہونی چاہیے، کوئی پرائیوٹ شخص مسجد اور مدرسہ نہ بنا سکے۔

تاہم وزارت مذہبی امور یا اوقاف مساجد اور مدارس فنڈ قائم کر دے، مساجد اور مدارس بنانے کے خواہاں لوگ اپنے عطیات اس فنڈ جمع کرا دیں، حکومت یہ فنڈ بعد ازاں مدارس اور مساجد کی تعمیر، اخراجات اور آرائش پر خرچ کرے، ایک شہر میں اذان کا وقت ایک ہونا چاہیے، تاہم جماعت میں دس بیس منٹ کا فرق آجائے تو کوئی ہرج نہیں، امام حضرات کے لیے دینی کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی لازمی قرار دے دی جائے، ہمارے امام کو کم از کم گریجویٹ ضروری ہونا چاہیے، ملک کے تمام مدارس آرمی پبلک اسکول کے ساتھ منسلک کر دیے جائیں تا کہ مدرسے کے بچوں کو دینی تعلیم بھی ملے اور دنیاوی بھی۔ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا اسلامی دنیا میں دہشت گردی کا مذہب کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہوتاہے۔

ہماری آج کی صورتحال کی جڑیں افغان جہاد میں گڑی ہیں، پاکستان کے سلطان ایوبی جنرل ضیاء الحق 1980ء میں روس افغان امریکا جنگ کو جہاد ڈکلیئر نہ کرتے تو آج ہم اللہ اکبر کی آوازوں کے ساتھ شہید نہ ہو رہے ہوتے، ملک میں جہاد، شہید اور غازی کی اصل تعریف بھی کی جائے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے جہاد کو ریاست کی ذمے داری قرار دے دیا تھا، اسلام میں صرف وہ جنگ جہاد ہوتی ہے جسے اسلامی ریاست لڑنے کا اعلان کرے، مسلمان کے خلاف مسلمان کا ہتھیار اٹھانا جہاد نہیں ہوتا، آپ علماء کو جہاد کی تعریف پر قائل کریں اور یہ تعریف بعد ازاں نصاب کا حصہ بنائیں، فوج کو انگیج کریں۔ یہ اگر بے کاربیٹھے گی تو ملک میں مسئلے پیدا ہوں گے۔

آپ فوج سے سیکیورٹی کا کام بھی لیں، مجرموں کی گرفتاری کا بھی اور پولیس مقابلے کی ذمے داری بھی بے شک انھیں سونپ دیں۔ فوج متحرک بھی رہے گی اور قومی سلامتی میں اپنا کردار بھی ادا کرتی رہے گی اور ملک میں میڈیا ریفارم کی بھی ضرورت ہے۔ بریکنگ نیوز کے لیے ضابطہ اخلاق بننا چاہیے۔ ہماری بریکنگ نیوز ہمیشہ منفی کیوں ہوتی ہے؟ ہم مثبت خبر یں کیوں نہیں دیتے۔ پشاور کے سانحے میں 133 بچے شہید ہوئے لیکن اس سانحے میں سیکڑوں بچے زندہ سلامت بھی رہے، یہ بچے خبر کیوں نہیں ہیں۔ ہم نے ان کو خبر کیوں نہیں بنایا؟ ملک میں مثبت بریکنگ نیوز بھی متعارف ہونی چاہیے۔

ہم اب لانگ ٹرم کی طرف آتے ہیں۔ کھیل، مطالعہ اور تفریح، یہ تین چیزیں انسان کے اعصاب کو ریلیکس کرتی ہیں۔ ہم تینوں میں مار کھا رہے ہیں، آپ معاشرے کو واپس ان 35 سالوں میں لے جائیں، جب یہ ملک دہشت گردی سے مکمل پاک تھا، آپ کو اس وقت ملک میں کھیل بھی ملیں گے، لائبریریاں بھی اور تھیٹر بھی، سینما گھر اور پارک بھی۔ یہ آج کہاں ہیں؟ ہم سکوائش، ہاکی، کبڈی اور کرکٹ میں دنیا پر حکمرانی کرتے تھے، آج کیوں نہیں؟ کھیل کو دوبارہ زندہ کریں، ملک میں یورپ کی طرح پرائیویٹ کلب اور کرکٹ ٹیمیں بنوائیں اور میچ کرائیں، صوبوں کی ٹیمیں بنوا کر میچ شروع کرادیں۔

صوبے اگر دوسرے صوبے کے کھلاڑی خریدنا بھی چاہیں توانھیں اجازت دے دیں، اس سے ایکٹویٹی جنم لے گی، ملک کے تمام اسکولوں میں لائبریریاں بنوائیں، ہر کلاس میں کتاب کا پیریڈ رکھیں، بچوں کے لیے کھیل کتاب اور موسیقی کو لازم قرار دے دیں، ہر بچے کو کوئی نہ کوئی آلہ موسیقی ضروربجانا چاہیے، فلم انڈسٹری کو سبسڈی دیں، سینما بنوائیں اور غیر ملکی فلموں کو پانچ دس سال کے لیے ٹیکس فری کر دیں، ملک کے تمام قصبوں اور شہروں میں چائے خانوں کے لیے جگہ مختص کریں۔

اس جگہ صرف چائے، کافی اور لسی کے ریستوراں بنیں تاکہ لوگ ہر شام وہاں بیٹھ سکیں یوں لوگوں کے درمیاں انٹرایکشن بڑھے گا اور اس سے معاشرے کی شدت میں کمی آئے گی اور ہاں آخری تجویز ملک میں فوراً اسلحہ پر پابندی لگا دیں، لوگوں کو ملک میں گن نظر تک نہیں آنی چاہیے، اس سے بھی معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، ہم جب ہر طرف رائفلیں اور پستول دیکھیں گے تو پھر ملک میں امن کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ آپ ذرا سوچئے، آپ ذرا غور کیجیے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.