Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ye Ikhtitam Nahi Aghaz e Safar Hai

Ye Ikhtitam Nahi Aghaz e Safar Hai

بٹر فلائیز بھارت میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے، یہ تنظیم 1989ء میں قائم ہوئی، تعلیم اس تنظیم کا بنیادی فریضہ ہے، بٹر فلائیز نے کام شروع کیا تو تنظیم کے رضا کاروں کو معلوم ہوا بھارت میں کروڑوں بچے گلیوں میں پیدا ہوتے ہیں، گلیوں میں پروان چڑھتے ہیں، گلیوں میں جوان ہوتے ہیں اورگلیوں ہی میں بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں، یہ بچے "اسٹریٹ چلڈرن" کہلاتے ہیں اور گلیاں ان بچوں کا مقدر ہوتی ہیں۔

بٹر فلائیز کو معلوم ہوا بھارت کے سیکڑوں شہروں میں اس وقت بھی 10 ملین اسٹریٹ چلڈرن موجود ہیں، یہ بچے بے سمت ہیں اور انھیں بھارت میں بچہ ہونے کا کوئی بھی حق نہیں مل رہا، بٹر فلائیز نے جب مزید تحقیق کی تو اسٹریٹ چلڈرن کا ایک عجیب المیہ اس کے سامنے آیا، پتہ چلا گلیوں میں پروان چڑھنے والے بچے ابتدائی عمر میں زندگی کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں، یہ بچے پانچ چھ سال کی عمر میں چھوٹا بن کر کام شروع کرتے ہیں، اسٹریٹ چلڈرن کی تنخواہیں انتہائی کم ہوتی ہیں اور یہ تنخواہیں بھی بچوں کے والدین، عزیز اور رشتے دار ہڑپ کر لیتے ہیں، یہ پیسے اسٹریٹ چلڈرن سے ان کے بڑے بھائی اور عمر سے بڑے بچے چھین لیتے ہیں یا یہ رقم چوری ہو جاتی ہے یا پھر دوسرے بچے یہ رقم اینٹھنے کے لیے ان بچوں کو جوئے اور منشیات کی عادت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

بٹر فلائیز نے سوچا ہم اگر ان بچوں کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے، ہم انھیں اعلیٰ تعلیم نہیں دلا سکتے، ہم انھیں انجینئر، ڈاکٹر یا سائنس دان نہیں بنا سکتے تو بھی ہم کم از کم ان کی یہ کمائی ضرور محفوظ رکھ سکتے ہیں، ہم ان کی یہ رقم ضایع ہونے سے ضرور بچا سکتے ہیں اور اگر ان غریب بچوں کی یہ کمائی بچ جائے تو یہ بھی کمال ہو گا، بٹر فلائیز نے اسٹریٹ چلڈرن کے لیے بچوں کے بینک کا تصور پیش کر دیا، بھارت کے دارالحکومت دہلی کے قدیم علاقے فتح پور میں 2001ء میں بچوں کا پہلا بینک قائم کیا گیا، اس بینک میں 9 سے 18 سال تک کے بچے ساڑھے تین فیصد منافع پر اپنی رقم جمع کرا سکتے ہیں۔

بینک کے تمام انتظامات اور اختیارات بچوں کے پاس ہیں، بینک کا منیجر سونو نام کا بچہ ہے، سونو کی عمر 13 سال ہے، یہ بچپن میں گھر سے بھاگ کر دہلی آ گیا تھا، یہ چائے کے اسٹال پر کام کرتا تھا، بٹرفلائیز کے رضا کار چائے پینے کے لیے اس ٹی اسٹال پر جاتے تھے، رضا کاروں نے سونو کو بینک کے بارے میں بتایا، سونو نے ٹی اسٹال کی نوکری چھوڑی اور بینک کی ملازمت اختیار کر لی، یہ اب چلڈرن بینک کا منیجر بھی ہے اور یہ اسکول بھی جاتا ہے، یہ بینک ہفتے کے سات دن کھلا رہتا ہے، بچے کسی بھی وقت بینک میں رقم جمع کرا سکتے ہیں اور بینک سے اپنی ضرورت کے مطابق رقم نکلوا سکتے ہیں، بینک کے کھاتے داروں میں بے گھربچے، گھروں میں کام کرنے والے بچے، مزدوری کرنے والے بچے اور بھیک مانگنے والے بچے شامل ہیں۔

چلڈرن بینک کی وجہ سے اسٹریٹ چلڈرن کو بچت کی عادت بھی پڑ رہی ہے اور ان کی رقم بھی رشتے داروں سے محفوظ رہتی ہے، بینک بچوں کو صرف اتنی رقم واپس کرتا ہے جس سے یہ لباس، جوتے اور کھانا لے سکیں، ان کی باقی رقم محفوظ رہتی ہے، بینک کا خیال ہے یہ بچوں کو مختلف کاروبار کی ٹریننگ دے گا، انھیں آسان شرائط پر قرضے بھی دیے جائیں گے اور کاروبار کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے، کاروبار کے ساتھ ساتھ انھیں بنیادی تعلیم بھی دی جائے گی تا کہ یہ مفید شہری بن سکیں۔

بٹر فلائیز کے اس منصوبے نے بھارت سمیت دنیا بھر کی ان تمام تنظیموں کی توجہ کھینچ لی جو دہائیوں سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں، چلڈرن بینک نے ان تنظیموں کو نئی راہ دکھا دی، یہ تنظیمیں اب تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں چلڈرن بینک بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور افریقہ کے 13 غریب ممالک ان کا ٹارگٹ ہیں۔

یہ ہے انقلاب اور اسے کہتے ہیں کام اور خدمت! بھارت میں کیلاش سیتارتھی نے بھی ایک ایسا ہی کارنامہ سرانجام دیا، یہ مدھیہ پردیش کے ضلع ودیشا کے رہنے والے ہیں، یہ کالج میں لیکچرار تھے، انھوں نے 1980ء میں جاب چھوڑی، "بچپن بچاؤ آندولن" نام کی تنظیم بنائی اور بچوں کی خدمت شروع کر دی، کیلاش کی تنظیم نے آج تک 80 ہزار سے زائد بچوں کی حالت بدل دی، ہم اگر گہرائی میں جا کر دیکھیں تو کیلاش ہمیں فرشتہ صفت انسان محسوس ہوں گے، بھارت میں اس وقت ایک ارب 25 کروڑ سے زائد لوگ بستے ہیں، ان میں اسی کروڑ لوگ جوان ہیں لیکن ان اسی کروڑ لوگوں میں کیلاش سیتارتھی واحد انسان ہے۔

جس نے اپنی زندگی غریب اور بے بس بچوں کے لیے وقف کر دی، جس نے 80 ہزار بچوں کی زندگی بدل کر رکھ دی، کیلاش کو کل اوسلو میں ہماری ملالہ یوسفزئی کے ساتھ امن کا نوبل انعام ملا، نوبل انعام دنیا کا معزز ترین ایوارڈ ہے، ملالہ یوسف زئی یہ اعزاز حاصل کرنے والی کم عمر ترین خاتون ہے، یہ اس وقت صرف سترہ سال کی ہیں، ملالہ نے 12 سال کی عمر میں بی بی سی اردو میں گلی مکئی کے نام سے سوات کی ڈائری لکھنا شروع کی، وہ طالبان کا دور تھا، پاکستانی طالبان سوات پر قابض ہو چکے تھے، سرکاری انتظامیہ سوات سے رخصت ہو چکی تھی، علاقے کے تمام اختیارات مقامی کمانڈرز کے ہاتھوں میں تھے، وہ لوگ سوات میں پولیس بھی تھے اور عدالت بھی۔ لڑکیوں کو اسکول اور کالج جانے سے روک دیا گیا، بچیوں کے چار سو سے زائد اسکول بارود لگا کر اڑا دیے گئے۔

ملالہ بہت باہمت بچی تھی، اس نے یہ غیر قانونی اور غیر شرعی احکامات ماننے سے انکار کر دیا، یہ اٹھ کھڑی ہوئی، اس نے گل مکئی کا فرضی نام رکھا، ڈائری لکھنا شروع کی اور پوری دنیا میں سوات کی بچیوں کی آواز بن گئی، جون 2009ء میں سوات میں ملٹری آپریشن ہوا، طالبان پسپا ہوئے، سرکاری رٹ دوبارہ اسٹیبلش ہوئی، میڈیا سوات پہنچا، گل مکئی دوبارہ ملالہ بن گئی، ملالہ کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہا اعتماد اور ٹھہراؤ دے رکھا ہے، یہ بولنا جانتی ہے، یہ کیمروں کے سامنے آئی اور ملک اور بیرون ملک توجہ حاصل کر لی، طالبان کو گل مکئی کے پیچھے چھپی ملالہ کا علم ہوا تو 9 اکتوبر 2012ء کو اس پر حملہ کر دیا گیا۔

اللہ تعالیٰ نے ملالہ کی جان بچا لی لیکن حملے کے آثار آج بھی اس کے چہرے کی بائیں سائیڈ پر موجود ہیں، اس کا آدھا چہرہ سُن ہے اور اس کے ہونٹ کی ایک سائیڈ بھی ہلکی سی لٹکی ہوئی ہے، ملالہ 15 اکتوبر 2012ء کو علاج کے لیے برمنگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال پہنچی، یہ تندرست ہو گئی لیکن پاکستان میں اس کی جان محفوظ نہیں چنانچہ یہ برطانیہ میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہو گئی، یہ برمنگھم میں رہتی ہے اور ایجبسٹن ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، میں 5 مارچ 2014ء کو اس سے ملاقات کے لیے برمنگھم گیا، ملالہ سے ملاقات ہوئی، میں نے اس کی روح کو سوات کے لیے تڑپتے ہوئے پایا۔

ملالہ پاکستان کی واحد شہری ہے جس نے 38 عالمی ایوارڈز اور اعزاز حاصل کیے، نوبل کمیٹی نے 10 اکتوبر 2014ء کو اس کے لیے نوبل پیس پرائز کا اعلان کیا، یہ ایوارڈ کیلاش سیتارتھی اور ملالہ دونوں کو مشترکہ ملا، ملالہ اس اعزاز کی حق دار ہے کیونکہ پاکستان بالخصوص سوات جیسے علاقے کی لوئر مڈل کلاس بچی میں اتنی ہمت، جرات اور اتنی استقامت واقعی کمال ہے! ہم اگر ملالہ کی ان خوبیوں کو فراموش بھی کر دیں تو بھی اس اعزاز کے لیے ملالہ کی ایک خوبی کافی ہو گی اور وہ خوبی ہے اللہ تعالیٰ کا کرم۔ اللہ تعالیٰ نے 20 کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ملالہ کو نوبل انعام اور اتنی پذیرائی اور بین الاقوامی عزت کے قابل سمجھا۔

یہ بچی اللہ تعالیٰ کے اس اصول کی عملی تفسیر ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو عزت دینا چاہے تو خواہ پوری دنیا اس شخص کے خلاف کیوں نہ ہو جائے وہ شخص عزت ضرور پاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ملالہ کو عزت دینے کا فیصلہ کر لیا تھا چنانچہ اسے یہ عزت ملی اور ہم اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ مان لینا چاہیے، ہمیں ملالہ سے حسد کے بجائے رشک کرنا چاہیے، پوری قوم کو اس کی تعریف بھی کرنی چاہیے اور اسے مبارک باد بھی پیش کرنی چاہیے لیکن اس مبارک باد اور تعریف کے باوجود ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی کیلاش سیتارتھی اور ملالہ یوسف زئی میں بہت بڑا فرق ہے، کیلاش کو یہ ایوارڈ 80 ہزاربچوں کی حالت بدلنے کے بعد ملا، کیلاش نے کام پہلے کیا اور ایوارڈ بعد میں حاصل کیا جب کہ ملالہ یوسف زئی نے ایوارڈ پہلے حاصل کیا اور کام اس نے اب کرنا ہے۔

ملالہ نے ابھی پاکستان میں "بچپن بچاؤ آندولن" اور چلڈرن بینک جیسے ادارے بنانے ہیں، یہ بچی دنیا کے ان چند خوش نصیب لوگوں میں شمار ہوتی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ عزت اور شہرت پہلے دیتا ہے اور ان سے کام بعد میں لیتا ہے، ملالہ نے اگر اللہ تعالیٰ کایہ پیغام سمجھ لیا، یہ جان گئی اس کی زندگی آغاز کے بجائے اختتام سے اسٹارٹ ہو رہی ہے تو یہ بچی کمال کر دے گی، یہ پاکستان کی ہر بچی کو ملالہ بنا دے گی، یہ کیلاش سیتارتھی سے بڑی شخصیت بن کر ابھرے گی اور وہ وقت آئے گا جب پورا ملک کھڑا ہو کر اس کے لیے تالیاں بجائے گا اور نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی اعلان کرے گی ہم نے آج تک 860 لوگوں کو نوبل انعام دیا مگر صرف ملالہ نے خود کو اس اعزاز کا اصل حق دار ثابت کیا لیکن ملالہ نے اگر نوبل انعام کو آخری منزل سمجھ کر خود کو برطانیہ اور میڈیا تک محدود کر دیا تو یہ اعزاز بہت جلد اس کے لیے بے عزتی کا باعث بن جائے گا، لوگ اسے پہچانیں گے لیکن اس کی عزت نہیں کریں گے اوریہ صرف تاریخ تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔

ملالہ نے آج فیصلہ کرنا ہے یہ اعزاز اس کا آغاز سفر ہے یا پھر اختتام سفر۔ اس نے دس دسمبر 2014ء سے "میڈیا کوئین" کا سفر شروع کرنا ہے یا پھر پاکستان کی کیلاش سیتارتھی بننا ہے اور یہ دس دسمبر کے دن سے مستقبل کے روشن دن کی طرف چلے گی، تاریخ کے اندھیرے غار میں اترے گی، خوش قسمت ملالہ بنے گی یا پھر بد نصیب ملالہ۔

ملالہ کا سفر آج سے شروع ہوتا ہے!

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.