Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ye Shadi Hone Dain

Ye Shadi Hone Dain

دوستوفسکی دنیا کا نامور ادیب تھا، سینٹ پیٹرز برگ (روس) میں رہتا تھا، افسانے اور ناول لکھتا تھا اور شہر کی پرانی گلیوں اور دریا کے کنارے ٹہلتا تھا۔

اس نے درجنوں عہد ساز افسانے اور ناول لکھے، وہ 1881میں فوت ہوا مگر ادب پر اس کے اثرات آج تک قائم ہیں اور شاید ہمیشہ رہیں گے، دنیا کے کسی بھی کونے میں آج بھی جب کوئی لکھاری منظر کشی کرتا ہے تو پڑھنے والے فوراً کہتے ہیں یہ "دوستو فسکی" بننے کی کوشش کر رہا ہے، مجھے سینٹ پیٹرز برگ میں اس کا فلیٹ اور اس کی وہ گلیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں اس نے اپنے کرداروں کے ساتھ کئی دہائیاں گزاری تھیں۔

میں ان گلیوں میں پھرتا رہا اور اسے یاد کرتا رہا، مجھے چند دن قبل کسی دوست نے اس کا ایک فقرہ بھجوایا اور میں دیر تک اسے انجوائے کرتا رہا، آپ بھی فقرے کا لطف لیں"آپ اگر کسی عورت سے محبت کرتے ہیں اور آپ اسے بھولنا چاہتے ہیں تو آپ اس سے شادی کر لیں۔۔

وہ عورت چند ماہ میں آپ کے دل سے اتر جائے گی ورنہ آپ تمام عمر اس سے محبت کرتے رہیں گے" آپ دوستو فسکی کی وزڈم دیکھیے، اس نے کس خوب صورتی سے دنیا کی تلخ ترین سچائی بیان کر دی۔

یہ سچ ہے ہم انسان کسی نہ کسی دماغی خارش کا شکار رہتے ہیں، کسی کو دولت چاہیے، کسی کو پاور، کسی کو شہرت اور کوئی کسی مرد یا عورت کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

یہ خواہش، یہ محبت اس وقت تک جنون رہتی ہے جب تک انسان اپنی خواہش کو پا نہیں لیتا چناں چہ آپ اگر کسی کی خارش ختم کرنا چاہتے ہیں تو وہ جو چاہتا ہے آپ اسے دے دیں وہ شخص چند دن میں اپنی کام یابی کے نیچے دب کر ختم ہو جائے گا، ہم ہیر اور رانجھے کی داستان سن کر جوان ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے اگر رانجھے کی ہیر سے شادی ہو جاتی تو کیا اس کے بعد بھی وارث شاہ یہ داستان لکھتے، اسی طرح اگر سوہنی مہینوال بھی آخر میں خوشی خوشی زندگی گزارنے لگتے یا مرزا اور صاحباں بھی حویلی بنا کر رہتے اور ان کے پانچ چھ بچے ہو جاتے یا مجنوں اور لیلیٰ کی بھی ہیپی اینڈنگ ہو جاتی تو کیا یہ داستان بھی داستانوں میں ہوتی؟ جی نہیں، ہرگز نہیں بلکہ یہ بھی عین ممکن تھا ہیر اور رانجھے، سوہنی اور مہینوال، مرزا اور صاحباں اور مجنوں اور لیلیٰ کی آخر میں طلاق ہو جاتی اور یہ دونوں باقی زندگی کوٹ کچہریوں میں نان نفقے اور بچوں کی حوالگی کے لیے لڑ رہے ہوتے یا باقی زندگی ایک دوسرے کو گالیاں دے کر گزار دیتے لہٰذا یہ حقیقت ہے خواہش اس وقت تک خواہش رہتی ہے جب تک یہ پوری نہیں ہوجاتی، تکمیل کے بعد ہر چیز بے معنی ہو جاتی ہے اور اس کا رنگ روپ اتر جاتا ہے۔

ہماری تاریخ میں 52سال پہلے ایک خوف ناک واقعہ پیش آیا تھا، مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہوگیا تھا، ہم آج تک شیخ مجیب الرحمن کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں اور یہ بات غلط بھی نہیں، شیخ مجیب الرحمن نے بنگالیوں میں رانجھے جیسا جنون پیدا کر دیا تھا اور وہ بنگلہ دیش کو ہیر سمجھ بیٹھے تھے۔

بہرحال 16 دسمبر 1971 کو ان کی خواہش پوری ہوگئی، بنگلہ دیش بن گیا اور شیخ مجیب اس کا پہلا صدر ہوگیا لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ 15 اگست 1975کو جب اس بھارت میں آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا جس کی مدد سے بنگالیوں نے آزادی حاصل کی تھی عین اس دن فوج نے شیخ مجیب کے گھر کا گھیراؤ کیا اور شیخ مجیب، اس کی بیگم، تین بیٹوں، دو بہوؤں، مہمانوں، رشتے داروں، ذاتی اسٹاف اور ایک سروئنگ بریگیڈیئر جنرل کو گولی مار دی۔۔

شیخ مجیب اس وقت اپنے گھر کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے، ان کی لاش دیر تک سیڑھیوں پر پڑی رہی، ان کے وہ چار اتحادی بھی بعدازاں گرفتار ہوئے جنھوں نے 1971 کے سانحے میں اہم کردار ادا کیا تھا، ان چاروں کو بھی 3 نومبر 1975 کو سزائے موت دے دی گئی، شیخ مجیب کی دوبیٹیاں شیخ حسینہ واجد اور شیخ ریحانہ سلامت رہیں، یہ اس وقت جرمنی میں تھیں یوں شیخ مجیب اور بنگالیوں کی محبت اختتام پذیر ہوگئی۔

میرا دعویٰ ہے اگر بنگلہ دیش نہ بنتا، شیخ مجیب کام یاب نہ ہوتے تو شاید یہ تحریک آج بھی قائم ہوتی اورگلیوں میں بنگالی اور پنجابی کی جنگ جاری ہوتی، ہم نے آج بھی ایک دوسرے کا گریبان پکڑا ہوتا اور ایک دوسرے کا سر کھول رہے ہوتے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی مثال لے لیں، یہ لیڈر تھے، یہ اقتدار میں آئے اور انھوں نے ملکی معیشت کے ساتھ جو کیا وہ دو ہزار پی ایچ ڈیز کے برابر ہے، وہ بھی تیزی سے مجیب الرحمن جیسے المیے کی طرف بڑھ رہے تھے، پارٹی کے اندر خوف ناک دراڑ تھی اور دوسری سیاسی جماعتیں بھی پی ڈی ایم کی طرح اکٹھی ہو چکی تھیں۔

میں سیاست اور تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے محسوس کرتا ہوں اگر جنرل ضیاء الحق مارشل لاء نہ لگاتے تو شاید 1980تک بھٹو صاحب کی سیاست ختم ہو چکی ہوتی، فوج نے 1977 میں مارشل لاء لگا کر اور بھٹو صاحب کو پھانسی دے کر پیپلز پارٹی کو نئی زندگی دے دی لہٰذا یہ آج تک زندہ ہے اور بھٹو اور زرداری فیملی کی تیسری نسل اس کا پھل کھا رہی ہے۔

ہماری ریاست اور سیاسی جماعتوں نے عمران خان کے معاملے میں بھی یہی غلطی کی، عمران خان ایک جنون کا نام تھا، عوام کا خیال تھا خان آئے گا اور ملک کی تمام سڑکیں سونے کی بن جائیں گے مگر خان آیا اور اس نے ملک کی ہر چیز، ہر ادارے کا جنازہ نکال دیا، یہ آخر میں اس ادارے پر بھی پل پڑا جس نے اسے اقتدار میں لا کر احسان کیا تھا لہٰذا یہ بڑی تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا تھا، پارٹی ٹوٹ چکی تھی۔

اتحادی ناراض تھے، فوج کے اندر اس کے لیے نفرت تھی اور عوام کا "رانجھا پن" اڑ چکا تھا، اس زمانے میں حالت یہ تھی بین الاقوامی دنیا ہمارے وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھی، فوج بڑی مشکل سے کسی نہ کسی ملک کو تیار کرتی تھی مگر خان وہاں بھی کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر آتا تھا کہ نقصان کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا تھا چناں چہ "پارٹی اوور" ہو چکی تھی لیکن اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن جماعتیں جلد بازی کر بیٹھیں، سیاسی لوگ جیلوں اور اسٹیبلشمنٹ جنرل فیض حمید کی خواہش سے گھبرا گئی۔

یہ دونوں اکٹھے ہوئے اور عمران خان کو گھسیٹ کر کرسی سے اتار دیا اور یوں وہ ہوگیا جس کے بارے میں ان لوگوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، آج عمران خان 2018 سے بھی کئی گنا بڑا دیو بن چکا ہے اور سیاسی جماعتیں اور طاقت کے ماخذ اکٹھے ہو کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔

یہ جیل میں بھی اس وقت کا سب سے بڑا سیاسی چیلنج ہے اور اگر ملک میں صاف اور شفاف الیکشن ہو گئے تو یہ دو تہائی اکثریت لے جائے گا اور اس کے بعد یہ سڑکوں اور گلیوں میں پھانسیاں دے گا اور اس وقت تک دیتا رہے گا جب تک یہ شیخ مجیب کے انجام تک نہیں پہنچتا مگر سوال یہ ہے کیا پاکستان اس وقت تک رہ جائے گا؟ میرا نہیں خیال یہ ملک اس وقت تک بچے گا۔

ہمیں یہاں ایک اور حقیقت بھی ماننا ہوگی عمران خان کو دوبارہ سیاسی زندگی دینے کا فریضہ بھی انھی لوگوں نے سرانجام دیا جو اسے 2018 میں اقتدار میں لائے تھے، اس کو لانے کا آپریشن بھی بھونڈا تھا اور اسے نکالنے کا پلان بھی، اسٹیبلشمنٹ اگر 2018میں جلدی نہ کرتی، خان کو 2024تک ڈویلپ ہونے دیتی تو یہ آج مختلف ہوتا اور اگر اسے 2022 میں زبردستی نہ نکالا جاتا تو بھی صورت حال مختلف ہوتی، اس کی سیاسی موت ہو چکی ہوتی۔

ہم آج اسے اسی طرح الیکشن سے روک کر بھی غلطی کر رہے ہیں، میرا مشورہ ہے آپ عمران خان کو الیکشن لڑنے دیں، کیا قیامت آ جائے گی؟ پاکستان تحریک انصاف پارٹی نہیں ہے، یہ پانچ چھ جتھوں کا مجموعہ ہے، آپ آج انھیں الیکشن لڑنے دیں، یہ آپس میں لڑ لڑ کر مر جائیں گے، عمران خان اگر وکلاء کو ٹکٹ دیتا ہے تو اس کے سیاسی امیدوار ڈنڈے اٹھا لیں گے اور اگر یہ سیاسی ورکرز کو ٹکٹ دے دیتا ہے تو وکلاء ناراض ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور اسے پیشی کے لیے بھی وکیل نہیں ملے گا۔

نو مئی اور دس مئی کے واقعات کے بعد عوام بھی ڈر گئے ہیں، خان اگر انھیں باہر نکلنے کی دعوت دے گا تو لوگ نہیں نکلیں گے، پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی بن چکی ہے اور کے پی میں پی ٹی آئی پی، یہ دونوں جماعتیں حکومتیں نہ بنا سکیں تو بھی یہ عمران خان کے ووٹ ضرور توڑیں گی اور اس کا فائدہ الیکشن کرانے والوں کو ہوگا لہٰذا خوف کس بات کا ہے؟

آپ اسے روک کر، اس کے خلاف مقدمے پر مقدمہ بنا کر اور امیدواروں سے کاغذات چھین کر عمران خان کو ہیرو بنا رہے ہیں اور اس کے قد میں روز دو فٹ اضافہ ہو رہا ہے، یہ اگر اسی طرح بڑھتا رہا تو یہ کسی دن جیل کی چھت پھاڑ کر باہر نکل آئے گا اور اگر یہ ہوگیا تو پھر ہم کیا کریں گے؟

کیا ہم نے سوچا چناں چہ آپ اگر اسے مارنا چاہتے ہیں تو پھر دوستوفسکی کے مشورے پر عمل کریں، یہ شادی ہونے دیں، یہ محبت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی ورنہ ہم جس طرح آج تک بھٹو کے رومانس سے نہیں نکل سکے، ہم اسی طرح عمران خان کی محبت میں بھی ہمیشہ گرفتار رہیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.