مختلف پہلو ہیں کورونا کے۔ معیشت سے لے کر اس بیماری کے پھیلائو تک۔ نئے سماجی اور سیاسی پہلو۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ وبا کب اپنا دم توڑے گی۔ مستقبل قریب میں اس کا کوئی توڑ نہیں یعنی اس کی ویکسین کے ایجاد ہونے کے کوئی قریبی امکانات نہیں، صرف لاک ڈائون ہے جو اس کا واحد حل ہے اور دوسری طرف خود اس سے جڑا ہو ایک عمل کہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا، ماسک پہننا، صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا وغیرہ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر کب تک؟ اس کا جواب نہ ہونا خود ایک بہت بڑے بحران کا اندیشہ دکھا رہا ہے۔
اس بیماری کی ویکسین کا نہ ہونا تو اپنی جگہ ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہو سکا کہ لوگوں کا ٹیسٹ کیسے کیا جائے، کس طرح یہ اندازہ لگایا جائے کہ کتنوں کو یہ بیماری اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور جب تک اس بات کا تعین نہیں ہوتا تب تک اندازہ ہے کہ یہ بیماری دنیا کے بہت سے حصوں تک پھیل چکی ہوگی۔ اگر مستقبل قریب میں اس کی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تو پھر تمام طبی محقق اس بات پے متفق ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ ایک سال کے اندر یہ وبا دنیا کی لگ بھگ آدھی آبادی کو لگ چکی ہوگی۔ ضروری نہیں کہ اموات زیادہ ہوں مگر یہ وبا دنیا کو ایک سنگین بحران کے شکنجے میں ڈال سکتی ہے۔
دوسری طرف کورونا نے معیشت کے پہیے جام کیے ہیں مگر ماحولیات کے حوالے سے کورونا کی وجہ سے کاربن و دھواں بہت حد تک رک گیا ہے۔ ہمارے کرہ ارض کی اوپر والی سطح پر جو Ozone layer ہے جو کسی جانب سے ٹوٹ رہی تھی وہ دوبارہ سے خود بہ خود جڑنے لگی ہے۔ چین سے لے کر اٹلی تک ہوا میں ستھرائی آگئی ہے، جو نیو یارک، لاس اینجلس اور شکاگو کی فضاؤں میں دھند تھی وہ غائب ہوگئی ہے۔ صرف فروری کے مہینے میں چین کے اپنے حصے کی جو آلودگی تھی اس میں پچیس فیصد یعنی بیس کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی آئی ہے جوکہ برطانیہ کی ماحولیاتی آلودگی کے آدھے حصے کے برابر ہے جو ہر سال فضا میں پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں تیل کی کھپت میں ایک کروڑ بیرل کمی واقع ہوئی ہے۔
لیکن اب تک مجموعی طور پر دنیا کی مجموعی پیداوار میں دس فیصد تک کمی آچکی ہے۔ کروڑوں لوگ بیروزگار ہوئے ہیں، ہمارے مودی صاحب نے تو حالات اس وقت اور بھی بدتر کر دیے جب چار گھنٹے کے نوٹس پر ایک ریاست کی دوسری ریاست کی طرف نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی۔ یہ کام دیگر ممالک میں بھی ہوا مگر اس طرح نہیں جس طرح مودی صاحب نے کیا۔ موصوف کو یہ بھی پتہ نہیں کہ دنیا میں جو چند ممالک ہیں جہاں بے گھر افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے اس میں ہندوستان کا شمار بھی ہوتا ہے۔
یہ بیچارے بے گھر لوگ مسجد، مندر اور گردواروں میں کھانا بھی بھیک میں لے کر کھایا کرتے تھے۔ اب جب سے مندر، مسجد اور گردوارے بند ہوئے تو ان کے کھانے پینے کے ذرایع بھی تمام ہوئے۔ دلی میں دوسری ریاستوں سے آئے مہاجرین مزدور طبقہ تھے جو دن بھر مزدوری کے بعد وہیں سو جاتے تھے جہاں ان کا کام ہوتا تھا۔ لاک ڈاؤن میں کام بند ہونے سے یہ مزدور بے روزگار ہوئے، راستے بھی بند ہوئے کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں اور اس طرح آہستہ آہستہ خانہ جنگی جیسا ماحول دکھائی دے رہا ہے۔
یقینا اب اس بحران سے نکلنے کے بعد دنیا ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ جمہوریتوں میں ووٹر اب سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالیں گے۔ دنیا میں جو اقوام جنگوں کو ہوا دیتی تھیں ان کی پذیرائی اب نہ ہو پائے گی۔
مگر کم از کم یہ بحران چھ ماہ تک مزید جاری رہتا نظر آ رہا ہے اور اگر اس طرح ہم مجموعی طور پر اس کا جائزہ لیں تو اس وبا نے معیشت کو بھی بہت نیچے تک لے جانا ہے اور دوسری طرف دنیا کے صحت کے نظام کو بھی کھو کھلا کر کے چھوڑ دینا ہے جس سے کئی ممالک میں خانہ جنگی کی صورتحال چھڑ سکتی ہے اور یہ بھی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس وبا پر قابو پا لیا گیا تو معیشت ہماری ہو یا دنیا کی، ایک جھٹکے میں ہی دوبارہ اپنی وہی حیثیت بحال کر لے گی جو اس وبا سے پہلے تھی لیکن اگر بہت دیر ہوئی، مز ید اموات واقع ہوئیں تو شاید پھر بہت وقت درکار ہوگا معیشت کو بحال ہونے میں۔
ہمارے لیے یہ اپریل کا مہینہ آگے آنے والے وقت کے لیے بہت کچھ متعین کریگا، اگر یہ وبا اتنی ہی پھیلی تو ٹھیک ہے اور اگر مزید پھیلی تو بحران کی صورتحال سے دوچار ہونا پڑیگا۔ ہمارے پاس اس وقت کوئی واضح ڈیٹا موجود نہیں کیونکہ ہم دنیا کے ان چند بدترین ممالک میں سے ہیں جہاں ہم لوگوں کے اس بیماری کی نسبت ٹیسٹ کرنے میں بالکل ناکام گئے ہیں۔ اس بیماری کو پھیلانے میں دو بڑے اجتماع اہم ذریعہ بنے جن کو ہم روک نہ پائے۔ سعودی عرب جیسے ملک نے مذہبی اجتماعات پر کچھ دنوں کے لیے پابندی عائد کردی تو ہم کیوں نہیں کر پائے اور اس کی کیا وجہ تھی؟
چلو یہ بھی صحیح تھا مگر پھر ہم نے دیکھا وفاق اور سندھ میں بڑے وقت تک نااتفاقی رہی کہ لاک ڈائون کیا جائے کہ نہیں؟ کیا کیا جائے؟ پھر دیر سے ہی صحیح بالآخر سب نے لاک ڈائون کو ہی صحیح سمجھا۔ پھر اب جو بیروزگاری ہوئی اور مارکیٹ سے اشیا غائب ہونا شروع ہوئیں، وہ چیلنج بھی اتنا بڑا نہیں تھا مگر چونکہ ہمارے پاس سسٹم نہیں ہے، ہم مسائل صحیح طرح حل نہیں کر پا رہے ہیں اور اب جو بات واضح ہوکر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری سیاست کے طریقوں نے سسٹم کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ہمیں سول سسٹم پر بھروسہ نہیں ہے۔
ہماری دو بڑی پارٹیاں اور ان کی قیادت نیب زدہ ہیں۔ نیب کی کھلی اجازت معیشت کو پیچھے دھکیل گئی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ یہ سب اس ملک پر جنرل مشرف کے زمانے سے شروع ہوا، نواز شریف کے دور تک بیرونی قرضوں کا بوجھ اور چڑھتا گیا، ان کی ادائیگیوں نے ہمارے اندر خود ایک بہت بڑے بحران کو جنم دیا اور پھر موجودہ حکومت کی نااہلیاں تھیں کہ معاملات اور بگڑتے گئے اور پھر کورونا کی وبا بھی آگئی۔
جو اہم ترین پہلو ہے وہ یہ ہے کہ کورونا بنیادی طور پر ایک لوکل معاملہ ہے پھر اس کے بعد ایک صوبائی معاملہ۔ وفاق کا کام ہے صوبوں کے ساتھ مل کر کام کرنا اور صوبوں کا کام ہے کہ وہ لوکل باڈیز کو زیادہ متحرک کریں لیکن سندھ کے اندر جو قانون سازی کر کے LGA 2013 (لوکل گورنمنٹ ایکٹ) بنایا گیا وہ آئین کے آرٹیکل 140A سے اگر ٹکرائو میں نہیں تو اس کی عکاسی بالکل نہیں کر رہا۔ دوسری طرف این ڈی ایم اے جو وفاق کا ادارہ ہے وہ اصولی طور پر فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ پارٹ دوم میں آتا ہے جو کہ مشترکہ مفادات کی کائونسل یعنی آئین کی وضع کردہ باڈی سی سی آئی کے زمرے میں آتا ہے۔
خود سی سی آئی بھی ایک طرح سے کابینہ ہے، ایک ایسی کابینہ جو وفاق کے سبجیکٹ کے حوالے سے ہیں جس میں وزیر اعظم اور تین وفاق کے نمایندوں کے ساتھ تمام وزیر اعلیٰ کا بیٹھنا بھی ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لیے اب بھی کوئی لائحہ عمل طے نہیں ہو پایا۔ وفاق صوبوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتا او ر صوبے لوکل باڈیز کو اختیارات دینے کے لییئتیار نہیں۔ انسانی کمزوریوں کا اثر ہماری کورونا کے خلاف جنگ پر پڑے گا۔
یہ اپریل کا مہینہ بہت بھاری دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں مریضوں کی تعداد چار پانچ گنا بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور اموات بھی۔ لاک ڈائون اور بھی مضبوط کرنا پڑے گا، جس کے بہت سے فال آئوٹ بھی ہیں جیسا کہ مستحق لوگوں تک راشن اور دیگر اشیائے صرف پہچانا۔
ہم تو ابھی تک اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کے لیے ہی تیار نہیں اور وقت بہت تیزی سے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک