ایک نیا باب رقم ہوا ہے ڈسکہ میں۔ ایک ایسا باب جس سے عام لوگوں کو بھی دیکھنے اور سمجھنے میں آیا ہے کہ دھاندلی ہوتی کیا ہے؟ کونسے ایسے انتخابات اب تک ہوئے ہیں، اس ملک میں جن میں دھاندلی نہیں ہوئی، ماسوائے 1970 کے انتخابات کے۔
اگر دیکھا جائے تو ڈسکہ میں فقط ضمنی انتخابات ہی ہوئے تھے، قومی اسمبلی کی ایک نشست پر لیکن ان ضمنی انتخابات نے وہ پردے چاک کیے کہ حکمرانوں میں پھوٹ پڑگئی۔ کوئی ذمے داری اٹھانے کے لیے تیار ہی نہیں۔
حکومت بھی ان بیس پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ ووٹنگ چاہتی ہے جن پولنگ اسٹیشنزکے پریزائیڈنگ آفیسرز غائب ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ پریزائیڈنگ آفیسرزکے ویڈیو بیانات بھی آ گئے ہیں اور ریٹرننگ آفیسرز نے بھی تیرہ پولنگ اسٹیشنزکی تصدیق کردی ہے۔ اب اس حلقے میں دوبارہ انتخابات ہوں گے یا پھر ایسا کہیے کہ دھاندلی ثابت ہوگئی ہے۔
وہ بیانیہ جس کو صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے کندھوں پر ڈال دیا گیا تھا۔ یہ لوگ جو آرٹیکل 226 کی تشریح مانگنے کے لیے گئے تھے، وہ اس بات سے بھی لا علم ہیں کہ یہ بات آرٹیکل23 اور 239 کو چھیڑ دے گی، کچھ اس طرح کہ پھر آئین میں ترمیم کا حق پارلیمنٹ کے علاوہ کورٹ کا بھی ہوگا۔ اب اس طرح توکل کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آرٹیکل 18 کے تحت صدارتی ریفرنس ڈالو اورکچھ بھی کر والو یہاں تک کہ نئے صوبے بنوا لو، ایک ایسا کام جو آئین میں ترمیم کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔
نئے صوبے کی منظوری کے لیے نہ صرف دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے بلکہ اسی صوبے کی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے قرارداد کی منظوری کی بھی ضرورت ہے، اگر آرٹیکل 226 کی روح میں تبدیلی لائی گئی تو یہ تبدیلی آرٹیکل 226 تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بات بہت آگے تک جائے گی۔ 2014 میں خان صاحب کا ڈی چوک میں دھرنا بھی جعلی ثابت ہوا اور انھوں نے جو اپنا پورا کیس سپریم کورٹ میں پیش کیا وہ بھی کمزور ہوا۔
لینے کے دینے پڑگئے ڈسکہ کے انتخابات میں کھلِ عام دھاندلی کرنے میں۔ اتنی ویڈیو اب تک وائرل ہوچکی ہیں اس سلسلے میں کہ اب چاہے کتنی بھی حکومتی مشینری استعمال ہو مگر نشان مٹ نہیں سکتے۔ تو بات یہاں تک پہنچی کہ الیکشن کمیشن نے بھی بیان دیا کہ کیسے پنجاب حکومت کے چیف سیکریٹری یا آئی جی الیکشن کمشنر کا فون اٹھانے کے لیے تیار نہ تھے۔ ڈسکہ میں اس دھاندلی نے حکومت کو سینیٹ کے انتخابات کے لیے مشکل میں ڈال دیا ہے۔
پشاور سے لے کرکراچی تک حکمراں پارٹی کے اندر بہت بڑا بحران نظر آرہا ہے۔ پی ڈی ایم اپنی حکمتِ عملی کے تحت انتخابات سے بائیکاٹ کرنے جا رہی تھی لیکن پی ڈی ایم کی قیادت کو آصف زرداری صاحب نے ایسی غلطی کرنے سے روکا اور آج اس چال میں خان صاحب کچھ ایسے پھنس چکے ہیں کہ بہت مشکل نظر آرہا ہے کہ اب وہ اس بحران سے نکل سکیں۔
پاکستان میں صاف وشفاف الیکشن کروانا سب سے بڑا چیلنج بن چکا۔ 1970 وہ واحد سال تھا جب اس ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوئے۔ پہلی مرتبہ اس ملک کی تاریخ میں بالغ حقِ رائے دہی سے انتخابات کروائے گئے، مگر ہم نے ان نتائج کو ماننے سے انکارکردیا اور ان نتائج کو نہ ماننے کے نتائج سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ ہم نے پھر انتخابات کے نتائج میں گڑبڑکرنے کا سوچا اور بھٹو صاحب نے 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کروائی۔ اس وقت بھٹو صاحب کی سادہ اکثریت تو بنتی تھی مگر دو تہائی اکثریت نہیں۔
تحریک چل پڑی اور بات بلآخر جا ٹھہری ملٹری حکومت پر۔ پھر 1990 کی دہائی میں آئی جے آئی بنائی گئی۔ سیاستدانوں تک پیسے پہنچائے گئے۔ اس کے بعد ہمارے میاں صاحب مینڈیٹ لے کر آئے، وہ مینڈیٹ اتنا بھاری پڑا کہ 12اکتوبرکو ملٹری انقلاب آگیا۔ اب تک اس ملک کے سب سے متنازعہ انتخابات 018 کے انتخابات کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ اس کے باوجود بھی خان صاحب سادہ اکثریت نہیں رکھتے۔ ایک تو ان کی حکومت متنازع اور پھر کارکردگی میں ان کی خستہ حالی الگ۔
اس دفعہ لگتا ہے کہ بات بہت دور تلک جائے گی، جس چارٹر آف ڈیموکریسی نے ایک نئے عمرانی معاہدے کو اٹھارہویں ترمیم کی شکل میں مستحکم کیا تھا، غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا میکنزم، ججزکی تقرری، صوبائی خود مختاری یا پھر این ایف سی ایوارڈ۔ یقینا اب بھی بہت سے ابہام ہیں جو باقی ہیں اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کس طرح سول بالادستی کو یقینی بنایا جائے اورکس طرح سے اداروں کو سیاست سے دور رکھا جائے۔
یہ بڑا سنہری موقعہ ہے کہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک نیا عمرانی معاہدہ ان دو بڑی جماعتوں کی مفاہمت سے تشکیل دیا جائے بلکہ ان تمام پارٹیوں کے درمیان ہو جو اس وقت پی ڈی ایم میں ہیں۔ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنے کے بعدیہ دو بڑی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں لگ گئیں۔ میاں صاحب خود جاکر پٹیشنر بنے۔ اصغر خان کیس میں جو الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے تھا، اس کیس کا فیصلہ بھی سنایا گیا لیکن اس فیصلے پر عمل نہ ہوسکا۔ آصف زرداری کو میاں صاحب کے خلاف استعمال کیا گیا۔ آصف زرداری، بلوچستان میں سینیٹ چیئرمین کے انتخابات میں PMLN کی حکومت کو چلتا کرنے کے لیے مقتدر قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔
ڈھاکہ ہو یا ڈسکہ دونوں ہی ہمارے لیے سبق آموز ہیں۔ آئیے ہم اس ملک کو واپس 1973کے آئین پر اس انداز سے لے آئیں جیسے اس خطے میں بنگلہ دیش اور ہندوستان جیسے ملک چل رہے ہیں۔ کیا وجوہات ہیں کہ ان کی معیشت ہم سے بہتر ہے، وہ ہماری طرح IMF کے مقروض نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کیوں IMF کے مقروض ہیں؟ اس سوال پر اب ایک علیحدہ نشست درکار ہے۔