دیارِ وطن میں اب رہا کیا ہے کہ وطن بدر بھی نہیں پھر بھی جلاوطنی سی لگتی ہے۔ سر کوئے نا آشنا سا بھی نہیں۔ سب کے سب اس اغیار سے لگتے ہیں، کوئی ہو کا جیسا عالم ہے، سناٹا ہے، زرد پتوں کا بچھاؤ ہے، حد نگاہ تک۔ ہم کب کے اس بزم سے اٹھ چکے تھے۔
اہل قلم ہونا ایسا ہی ہے کہ لہو رونا ہو۔ جنرل ضیاء کا زمانہ تھا، میں فکری طور اسی طالب علمی کے زمانے میں پیدا ہوا اور پھر آمریتوں سے ہماری نہ بن سکی۔ ہم کہ ٹیپو سلطان بھی نہ تھے، نہ ہی چی گویرا۔ مجھے یاد ہے میں نے اس زمانے جب میری عمر بیس سال بھی نہ تھی، صدر کراچی کیفے جارج کے سامنے رومی اشاعت کے کتاب گھر وین گارڈ سے چی گویرا کی سوانح حیات خریدی تھی۔ وہ میرے سرہانے پڑی رہتی تھی، جب تک کہ پوری نہ ہوئی میری آنکھوں سے اتر نہ سکی، میرا چین گیا آرام گیا۔
میکسم گورکی کی "ماں " سے آنکھ کھولی اور دوستو وسکی "ایڈیٹ" پہ پہنچ کر شعور کی کیفیات کو محسوس کیا۔ پرنس میشکن اس ناول کا مرکزی کردار تھا۔ وہ یہ کہتا ہے کہ "زندگی مرگ بستر پہ آخری سانسوں پہ ہی کیوں نہ رہتی ہو، موت سے بہتر ہے" میں حسن پرست تھا، انقلاب پرست نہیں۔
مجھے زیرک روح اچھی لگتی تھی اس کا تن نہیں۔ انقلاب میری طرف آیا بھی تو جمالیات کے راستوں سے گزر کر آیا، سچ خود حسن ہے اور حسن سچ سے بھی وسیع ہے۔ میں نے سچ کو حسن کے تناظر میں دیکھا ورنہ سچ مجھے ایسا ہی محسوس ہوا جیسے جمنا کے چوراہے پر کسی جذباتی شخص نے شعلہ بیاں تقریر سی کی ہو، جیسے ہمارے صحافی حضرات۔
اہل قلم، اہل زبان، اہل دانش، اہل سچ یہ سب حسن کی مدح سرائی کرنے والے، یہ سب شوق کا مضمون رقم کرنے والے، یہ سب سخن ور کتنے ہوں گے اس دیارِ وطن میں؟ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ان کے قلم سے اتنا خوف کیوں ہے؟ ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں لیکن ان کی زبان سے وہ کچھ ابھرتا ہے جسے ایوان اقتدار کے ستون ہلنے لگتے ہیں۔
ستر سال کی تاریخ میں تین ادوار بہت بھاری گزرے۔ جب صحافت کرنا بہت مشکل ہوئی۔ ایک ایوبی آمریت کا زمانہ، دوسرا جنرل ضیاء الحق اور تیسرا آج کا دور۔ غالباً جنرل مشرف کے زمانے میں بولنے لکھنے پر قدغن نہ تھا۔
اب کیا ہے! ہمارے سامنے ٹوٹتے ہوئے ہمارے ہی بنائے ہوئے بیانیے ہیں۔ ہماری تاریخ جو ہم نے مسخ کی ہے، اب آیندہ کی نسلیں خود اپنی تاریخ کی تلاش میں نکل پڑی ہیں۔ یہ وادی مہران جو تبت سے چھوٹے جھیلوں کی ترتیب بناتے ہوئے، لداخ سے گزرتی، کشمیر سے چلتی، دریا کابل سے لے کر سب کو اپنے میں جذب کرتے ہوئے آکر سمندر کی وشال سرحدوں پر اس میں گھل مل جاتی ہے۔
ہزاروں سال کی تاریخ ہے اس کی، ہڑپا، موہن جودڑو، مہرگڑھ، ٹیکسلا، نہ جانے کتنے مذاہب و ادوار آئے اور ان ہزار سالوں کی تاریخ میں ستر سال کا یہ پاکستان بھی ہے، میری دعا ہے یہ ہزاروں سال تک آباد رہے مگر کیا ہم نے کوئی ایسا کام کیا ہے؟ جس سے یہ پروان چڑھ سکے؟ وادیٔ مہران ہو یا پھر دریائے سندھ یہ کئی ادوار اپنے سینے میں سمائے بیٹھا ہے۔ یہ وہ سندھو ہے جس نے سکندر اعظم کو لگام دی۔ اتنا تیز بہتا دریا تھا کہ یونانیوں نے اس کو سمندر کو لکھا۔ وہ اس دریا کو پار نہ کر سکے۔ اور دلی دور است ہی رہا۔ غالباً مغلوں، ارغوانوں اور ترخانوں کے زمانے میں یہ سندھو سمندر نہ تھا اور وہ اسے پار کر گئے اور دلی پر راج کیا۔ فیض کا شعر ہے کہ
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو تیرے عارض بے رنگ کو گلناز کریں
اس دیارِ وطن میں اجداد کی قربانیاں ہیں، یوں نہیں ملی تھی یہ ارض وطن۔ شیخ مجیب جو اپنی سائیکل پر کلکتہ کی گلیوں میں نعرے لگاتا پھرتا تھا "بن کے رہے گا پاکستان" اور پھر اس پاکستان کی تشریح میں اور جنرل ایوب کی تشریح میں تضاد کیوں ہوا۔ ہم نے جو بیانیہ مغربی پاکستان میں بنایا وہ مشرقی پاکستان میں فعال نہ ہوسکا۔ پھر آگے جاکر یہ بیانیہ تین چھوٹے صوبوں کے لیے بھی ناقابلِ قبول ٹھہرااور اب تو اس بیانیہ کو پنجاب بھی نہیں مانتا۔
اتنا بڑا آدمی تھا میر غوث بخش بزنجو جو بلوچوں کو یہ باور کرواتا رہا کہ ہمیں پاکستان سے ڈائیلاگ کرنے ہیں، مزاحمت نہیں۔ وہ خود اس دیارِ وطن میں جلاوطنی کے احساس میں مبتلا رہا۔ اکبر بگٹی تو دور کی بات، باچا خان بھی جلاوطنی کے احساس کے ساتھ جلال آباد میں جاکر ابدی نیند سوئے۔ وہ جس نے پاکستان کی قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش کی ان کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ بھی تمام عمر پابند سلاسل رہے، نالاں رہے، جلاوطنی کے احساس کے ساتھ اپنے ہی وطن میں ابدی نیند سوئے، غرض کہ ایک طویل فہرست ہے ایسے دلفگار لوگوں کی۔
میرے والد کو بنگالی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ میں، عاصمہ جہانگیر، حاصل بزنجو شیخ حسینہ سے ایوارڈ لینے کے لیے بنگلا دیش گئے جو انھوں نے ہمارے والد کو بنگالیوں کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑے ہونے کے اعتراف میں دیا۔ وہ ایوارڈ انھوں نے ہمیں نہیں دیا ہمارے والد کو دیا تھا اور ہم لینے گئے تھے۔ ہم ان دوریوں اور فاصلوں کو ختم کرنے گئے تھے۔ ان کا کلیجہ درد و غم سے بھرا ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے انھوں نے کوئی بیانیہ بنایا ہو، قطع نظر اس کے کیا ہم اس بات کو جھٹلا سکتے ہیں کہ ہم نے 1971 کے سانحے میں جو خون بہایا اس کا جواز کیا تھا؟ ہم نہیں چل سکتے اس بیانیے کے ساتھ جو ہم نے سانحہ ڈھاکا کے بعد بنایا اور وہ بھی نہیں چل سکتے لیکن حقیقتوں کا اعتراف ہمیں کرنا ہوگا۔
یہ دوریاں ایک دم ختم نہیں ہوں گی۔ اس کے لیے بہت محنت اور کاوشوں کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ کام جاری رکھنا ہوگا۔ زخم ان کو لگیں ہیں ہمیں نہیں۔ در اصل ہم نے تو زخم دیے ہیں اور یہ حقیقت ہمیں اپنے بیانیے میں بطور اعتراف قبول کرنی ہوگی اور اگر نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ ہمارا یہ بیانیہ بھی باقی بیانیوں کے طرح ادھورا رہ جائے۔
اس دیارِ وطن میں اب درد کی انجمن ہے، زرد پتوں کا طویل بچھاؤ ہے جو حد نگاہ تک پھیلا ہوا ہے اور یہ دل ہے کہ درد سے بھرا ہوا ہے۔
ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشاق سے ایسے کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے
(فیض)