پٹڑی سے اگر ریل اترتی تو بھی ٹھیک تھا مگر یہاں تو ہر چیز درہم بھرم ہے۔ ریل کی پٹڑی تو اس کا تسلسل ہے۔
یہ اک استعارا ہے، کوئی اشارہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں ورنہ سبق تو تاریخ سے اور بھی ملے ہیں جن سے ہم نے بہت کچھ سیکھنا تھا، اب کے ایک سبق اورسہی! ریل بیچاری تو بیٹھ گئی۔ سندھ فتح کرنے کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا تک رسائی کے بعد انگریز سامراج نے اس ریل گاڑی کو ایک بہت بڑے پروجیکٹ کے طور پر لانچ کیا تھا۔ راستوں پے دھیان کم دیا، نہروں، بیراجوں اور ریلوے کی پٹڑی پر دھیان زیادہ دیا۔
ہمیں 1947 میں پٹڑی اثاثے کے طور پر ملی مگر افسوس کہ ہم رتی برابر بھی ترقی نہ کر سکے بلکہ اس کو فروخت کردیا۔ اس کے سریے اکھاڑے، اس کی زمین پے قبضہ کیا۔ اتنی زمین تو کسی بھی محکمے کے پاس نہ تھی جتنی زمین ریلوے کے پاس تھی۔ کہاں تھے نیشنل ہائی وے، جی ٹی روڈ، موٹر وے۔ بس ریل تھی ریلوے اسٹیشن تھے پٹڑی تھی۔ بہت لمبے دیو قامت درخت تھے۔ قلی تھے، گارڈ تھے، لال اور سفید وردی والے۔ میں نے ٹرین کے ہر کلاس میں سفر کیا ہے تھرڈ کلاس سے لے کر سلیپر اور ایئر کنڈیشنز بوگی تک۔
پچھلے سے پچھلے سال اسی جون کے مہینے میں خدیجہ (میری زوجہ) کے ساتھ لندن سے ایڈنبرا کا سفر میں نے ریل کے ذریعے کیا تھا۔ چھ گھنٹے لگے، کراچی سے لے کر غالباً ملتان جتنا سفر تھا۔ کھڑکی کے باہر میلوں پھیلے ریگزار تھے، ہریالی تھی کہ ختم نہ ہوتی تھی۔ بچپن میں اماں کے ساتھ نوابشاہ سے محراب پور ریل میں جایا کرتا تھا۔ کتنے سارے مناظر میری کھڑکی کے پاس ٹھہر جاتے تھے۔ انگریزوں کے زمانے کی بنی ہوئی محراب پور ریلوے اسٹیشن جہاں سے میرا گائوں چار میل دور پڑتا تھا۔ گائوں سے ولیز جیپ ہمیں لینے آتی تھی۔ روہڑی کینال ساتھ ہمارے چلتی تھی اتنی ہریالی اور بے پناہ پھیلی ہوئی۔
ہماری ریل آہستہ آہستہ ہم سے بچھڑ تی گئی۔ ٹرانسپورٹ کی مافیاز ریل کی تباہی پر بہت خوش ہیں۔ اب ہر کام راستوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ کرولا یہاں کراچی میں بنتی ہے، ٹرکوں میں لاد کے لاہور اسلام آباد کے شوروم میں جاتی ہے سوک اور ہنڈا اسی طرح وہاں سے یہاں آتی ہیں۔ مسافر ہوں یا یا پھر ڈاک، اب سارے کام راستوں کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔
ہمارے راستوں کا جال شاید سائوتھ ایشیا میں سب سے بہتر ہو مگر ریل یا پٹڑی کا جال دنیا کے بدترین جالوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہمارا ریلوے اجڑ گیا اور اس حکومت نے تو ریکارڈ ہی توڑ دیے، ٹو ٹریک حادثوں میں۔ مگر اس مافیا کا کیا؟ جو ریل کی پٹڑی کی تباہ کاری پہ خوش ہے کہ ٹرانسپورٹ کا کاروبار پروان چڑھے۔
ہما را ریلوے کوئی چھوٹا نہیں تھا، لاکھوں ارب روپوں کی سرمایہ کاری ہم نے اس پے صدیوں سے کی ہے۔ اب کیا ہمیں ریلوے اسٹیشنوں کو نیلام کرنا پڑیگا، وہ ریلوے اسٹیشن جہاں اب کوئی ریل نہیں رکا کرتی۔ میرے ہالانی کے ریلوے اسٹیشن پر گاندھی، نہرو آکر رکے تھے۔ گاندھی لاڑکانہ اس ریل پہ آئے تھے۔ اب کے ہالانی میں اس ریلوے اسٹیشن کا نام و نشان بھی نہیں۔
پٹڑی تو دور کی بات اور سیکڑوں ایکڑ ریلوے کی زمین پر قبضہ بھی ہوچکا ہے۔ نہ جانے کتنے ریلوے اسٹیشن اور پٹڑیاں ہوں گی اس پاکستان میں۔ ہالانی کا اسٹیشن اسی آب و تاب سے موجود ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں نئے سرے سے بنا تھا مگر اب وہاں ایک بھی ٹرین نہیں رکا کرتی۔ اور اب ایک قلی شاید وہ اس امید سے بیٹھا ہے کہ کبھی تو ٹرین رکے گی کوئی تو مسافر اترے گا۔
دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرش نو میدی دیدار بچھا ہے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح
ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھی ہے فریاد کناں
اب تو یاد ہے بس جو بیٹھی ہے دل زدہ بچے کی طرح فریاد کناں، بچپن میں میرے اسکول میں پنکھے نہیں تھے۔ وہ اسکول جہاں کچھ پنکھے میرے والد نے تحفتاً بھی دیے مگر جس کلاس میں میں پڑھتا تھا خاص تاکید کی کہ یہ پنکھے اس کی چھت پر نہ لگیں۔ ہاں مگر میرے کلاس میں جھلی تھی جو ہم شاگرد باری باری چلاتے تھے اور کلاس میں پڑھتے بھی تھے۔
پٹارو سے گائوں آتے میرا ایکسیڈینٹ بچپن میں ہوا جب میری عمر چودہ سال بھی نہ تھی ٹانگ ٹوٹی تو میں فوجی اسپتال کے آفیسر وارڈ میں داخل نہ ہوسکا، میں جامشورو کے جنرل وارڈ میں داخل ہوا تاکہ میں دیکھ سکوں کہ عام لوگوں کو اور ان کا علاج کس طرح ہوتا ہے۔ وہ تو بھلا ہو ان پروفیسر صاحب کا جو میرے گائوں کے تھے کہ ابا کے جانے کے بعد فوراً مجھے روم میں شفٹ کیا۔ وہ دل سے غریب پرست تھے۔ دہقانوں کے کیسز لڑتے لڑتے اپنی زندگی گزار دی۔
کون ہوگا سندھ کی تاریخ میں ایسا وکیل جس نے پبلک انٹرسٹ کیسز میں اتنا بڑا کام کیا ہوگا اور یہ بھی کہوں بہت کمایا کہ دس بچے اعلیٰ تعلیم پاسکے ان کی کمائی سے۔ اتنا شاندار بنگلا نوابشاہ کی سوسائٹی میں بنوایا کہ شاید ہی کسی کا ہوگا۔ ہمارے برابر میں حاکم علی زرداری کا بنگلا ہوا کرتا تھا۔ جو بھی تھا، حاکم علی زرداری بھی ابا کے ساتھ تھے جب ابا نے مولانا حسرت موہانی کو مدعو کیا تھا، حروں کی حالت زار دکھانے کے لیے۔ وہ نوابشاہ آئے تو، تھرڈ کلاس ٹرین کی بوگی میں سفر کیا۔
اسٹیشن پے چچا بتاتے تھے کہ پتا نہ چلا کہ مولانا کس بوگی میں ہیں۔ جب اترے تو چچا کو پریشان پاکے پوچھا "کس کو ڈھونڈ رہے ہو بھائی" چچا نے کہا "جناب ہم مولانا حسرت موہانی کو ڈھونڈ رہے ہیں، انھوں نے اسی ٹرین پے آنا تھا، کہیں آپ نے انھیں دیکھا " مولانا نے شیروانی پہنی ہوئی تھی، ایک ہاتھ میں پیٹی اور دوسری ہاتھ میں چھڑی، چوڑی دار تنگ پجامہ پہنے ہوئے تھے، بولے" ارے بھائی وہ میں ہی تو ہوں " اس زمانے میں نوابشاہ کے کلیکٹر مسعود کھدر پوش ہوا کرتے تھے۔
نواب شاہ کے سکھوں کا ٹرین میں قتل ہوا تھا، اس میں ان کا نام بھی لیا جاتا رہا، لیکن ان کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ سندھ کے دہقانوں کی تحریک میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ اور یہ وہی تھے جنھوں نے "ہاری رپورٹ " مرتب کی تھی جس کی بنیاد پر سندھ ٹینینسی ایکٹ بنا تھا۔ یہ وہ رپورٹ تھی جس پے میرے والد کا فوٹو بھی چسپاں تھا۔ سلاخوں کے پیچھے کھڑے تھے۔ جس پے لکھا تھا دہقانوں کے حقوق لیے لڑنے والا شخص۔
بس ایک یاد سے جو دل زدہ بچہ کی طرح ہاتھ پھیلائے ہوتے بیٹھی فریاد کناں!
سنا ہے ریلوے کہ وزیر کہہ رہے ہیں کہ وہ استعفیٰ اگر دے بھی دیں تو کیا وہ جو اس حادثے میں مارے گئے وہ واپس زندہ ہوسکتے ہیں؟ ہم اب ایک کھنڈر پر کھڑے ہیں یا جس طرح وہ پاکستانی فلم میں صبیحہ خانم پر فلم یا یہ گانا ہے "یہ دیکھ میری بگڑی ہوئی تصویر موئن جو دڑو میں "
ہم سے اس دیس کا تم نام و نشان پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوب گزشتہ یاد آئے
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لیے
سب کچھ پٹڑی سے اتر گیا۔ صرف ریل بھی نہیں یہاں تک کہ اب خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ قوم آیندہ الیکشن میں دو تہائی اکثریت دے۔ مجھے تو اس پر چترا سنگھ کی غزل یاد آرہی ہے
میرا دل ہے شوق سے توڑو، ایک تجربہ اورسہی
لاکھ کھلونے توڑ چکے ہو ایک کھلونا اور سہی
ریلوے اسٹیشن، پٹڑی و بوگیاں تو قوموں کی روحیں ہوتی ہیں۔ ہمارا سارا، ادب، افسانے، ناول، شاعری کے منظر نامے ہیں یہ پٹڑیاں، یہ پوری آزادی کی تحریک ہے اس پہ بیاں، ہندوستان کے پاس ریلوے جو انگریز چھوڑ کر گیا تھا وہ اس سے بہت آگے نکل چکی اور ہم ہیں جو ہمیں ریل 1947 میں ملی تھی اس سے بھی بدتر کردی!!! اور پھر بھی ہمیں دو تہائی اکثریت چاہیے پہلے جو سادہ اکثریت ملی ہے وہ تو صحیح ثابت کر نہیں سکتے۔
خیر ریلوے کی اس تباہی میں صرف خان صاحب کا قصور نہیں، سب سے بڑا قصور اس ملک میں رائج آمریتوں اور پھر میاں صاحب کا بھی ہے جنھیں صرف شیر شاہ سوری کی طرح راستوں کا جال بچھانا آتا تھا۔