Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Senate Ke Baad

Senate Ke Baad

جمہوریت اپنے راستے خود متعین کرتی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات ہوچکے، جیت نہ تو حزبِ اختلاف کی ہوئی اور نہ ہی حکومت کی، مگر حکو مت کو ایک دھچکہ ضرور لگا ہے۔ اس طرح حزبِ اختلاف اپنے راستے کی طرف گامزن ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی کی جیت کیسے ہوئی یا پھرحفیظ شیخ کیسے ہارے؟ اس سوال میں الجھنے سے زیادہ ضروری ہے کہ میں اس بات پر تبصرہ کروں کہ آیندہ آنے والے چند مہینوں میں کیا ہونے والا ہے؟

آمریت کی ایک شکل یہ ہائبرڈ جمہوریت بھی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ آمریتوں کے ادوار نے دس دس سال تک کی مدت پوری کی، مگر کیا وجہ ہے کہ یہ ہائبرڈ جمہوریت تین سال بھی پوری کرتی نظر نہیں آرہی۔ یہ بنیاد ی طور پر پاکستان کی جمہوری تحریک کا ارتقاء ہے۔ مصالحت یقینی طور پر ہوئی ہے۔

اب پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ میں اتنی دوری نہ رہی جو پہلے تھی اور جو قربتیں اسٹیبلشمنٹ اور خاں صاحب کے درمیاں تھیں ان میں بھی خم پڑچکے ہیں۔ دوسرے اطراف میں اگر دیکھا جائے تو بین الاقوامی حالات بھی اب ٹرمپ کے جانے سے بدل رہے ہیں۔ ٹرمپ صاحب آئے تو خاں صاحب بھی آئے۔ ٹرمپ صاحب گئے تو شاید خان صاحب کے لیے بھی مشکلات بڑھ گئیں۔ ہمارے طرزکی حکومتوں کے لیے داخلی اعتبار سے خطرے بڑھ گئے ہیں، وہ چاہے مودی ہوں یا پھر مصرکے ڈکٹیٹر۔ پیوٹن ہوں یا اردگان، نتن یاہو ہوں یا پھر سعودی عرب کے ولی عہد۔

خان صاحب دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے جارہے ہیں۔ خان صاحب اعتماد کا ووٹ لے بھی جائیں گے، اگرکوئی بغاوت ان کی اپنی پارٹی سے نہ ہوتو! لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اگر حکومت میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو 26 مارچ کو لانگ مارچ ہوگا۔ خان صاحب کے پاس اس وقت جتنی صوبائی اور قومی اسمبلی کی سیٹیں موجود ہیں، اگر شفاف انتخابات کروائے جائیں تو ان میں سے شاید آدھی بھی نہ رہیں گی۔

تاریخی اعتبار سے یہ ماجرہ صرف ان کے ساتھ نہیں بلکہ ہرکنگز پارٹی کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ خان صاحب یقینا ایسا نہیں چاہیں گے کہ ملک نئے انتخابات کی طرف جائے، مگر اگر حالات میں تبدیلی نہیں آئی تو نوازشریف کا موقف اہمیت اختیارکر لے گا وہ یہ کہ استعفٰے پیش کردیے جائیں، اس موقف پر آصف زرداری متفق نہیں۔ پورا پنجاب اس وقت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑا ہے اور پیپلز پارٹی کو بھی سندھ میں الیکشن جیتنے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا نہیں۔

خان صاحب کی پارٹی، ماضی کی کنگز پارٹیوں سے قدرے مختلف تھی کہ انھوں نے تبدیلی کا بیانیہ دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید وہ اپنے اس بیانیہ میں کچھ حد تک کامیاب بھی جائیں گے، مگرہوا کیا؟ ایک تو حکومت کے معاملے میں نہ تجربہ کاری، اس پرکارکردگی صفر اور پھر اسٹیبلشمنٹ سے ایسا جوڑکہ اپنے آپ کوکہیں بھی آزاد ثابت نہ کر پائے اور نہ نظر آئے۔ خاں صاحب دراصل بڑھتی ہوئی مہنگائی کوکنٹرول نہیں کر پائے اور اس مہنگائی کے پیچھے ہاتھ تھے، ذخیرہ خوروں اور منافع خوروں کے اور یہ منافع خور خان صاحب کے بہت قریب حلقوں میں پائے گئے۔

تبدیلی کو تبدیلی کی ہی آگ لگ گئی۔ اب تبدیلی آئے یا نہ آئے مگر تبدیلی جا ضرور رہی ہے اور یہ بھی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ ایک خوش آیند موڑ جس موڑ پر آج پاکستان آکھڑا ہوا ہے۔ اب اشد ضرورت ہے نئے سرے سے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کے درمیان ایک نئے معاہدے کی۔ عوام سے کٹ کرکچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو حقیقی عوامی جماعتیں ہیں، ان کے ساتھ پی ڈی ایم میں شامل پارٹیاں بھی اپنی جڑیں عوام کے اندر رکھتی ہیں۔

خاں صاحب نے اپنے ہی"کرپشن" کے بیانیہ کو بے معنی کردیا کہ اب لوگوں کوکوئی سروکار ہی نہیں کہ کون کرپٹ ہے اورکون نہیں ! بس مہنگائی نہ بڑھے۔ کرپشن ہو یا ہارس ٹریڈنگ ان کا خاتمہ یقینا ایک رات میں تو نہیں ہوسکتا، یہ جمہوریت کی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹیاں تبدیل کرتے رہیں گے۔ لہٰذا جمہوریت کو آگے بڑھنے دیجیے اور اداروں کو مضبوط ہونے دیجیے۔

ہائبرڈ جمہوریت اس دفعہ جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچتی نظر آرہی ہے۔ پنجاب کا جمہوریت کی تحریک میں ہراول دستہ بن کر سامنے آنا پھر دوسرے یہ اکیسویں صدی ہے، دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی قوانین بڑی تیزی سے ہمارے اندر پیوستہ ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی سالمیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان ایک ماڈرن ریاست کی شکل میں ابھرکر سامنے آئے۔ دنیا کا ایک ایسا ذمے دار ملک جس کی سالانہ شرح نموکم ازکم ہندوستان یا پھر بنگلہ دیش کے برابر ہو۔ ہمیں اپنی پالیسی میں بہت تیزی سے تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

اب سول حکومت اور سولینزکے حقوق کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کو ختم کیا جائے۔ ایسی کوششوں سے اورکچھ بھی حاصل نہ ہوگا ہاں لیکن ملک کمزورہوگا اور ملک کا کمزورہونا کسی کے حق میں بہتر نہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نے جس طرح یہ ڈھائی سال پورے کیے ہیں، اگلے ڈھائی سال گذارنا ان کے لیے بہت مشکل ہیں۔ وہ لوگ سراسر غلطی پر تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کی پارٹی، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی بنیادوں کو ہلا دے گی۔ خاں صاحب کی حکومت میں مہنگائی نے ان کے دیے ہوئے "کرپشن "کے بیانیہ کو تہہ میں لگا دیا۔ اس مہنگائی کے پیچھے جو مافیا تھی وہ حکومت کے دائیں بائیں تھی۔ یہ ہرزہ سرائی، یہ ہلچل جو ایک شورش بن گئی ہے، ان کے پیچھے خاں صاحب کی این آر اوکی تقاریرہیں، لوگوں کو بار بارکی امیدیں دلانے والی تقاریر مگرکارکردگی صفر۔