ہمارے بیانیے ہم سے کہیں نہیں جاتے۔ کبھی کالا باغ ڈیم کے شوشے، تو کبھی ایک ٹک ٹاکر کے شگوفے۔ کبھی نہلے پہ دہلا تو کبھی بادشاہ کبھی یکا؟ کبھی لال قلعہ فتح کرنا تھا تو کبھی سری نگر پر جھنڈا گاڑنا تھا۔
اب اس قوم کو ہم نے ارطغرل کے پیچھے لگا دیا ہے، کبھی سعودی عرب سے ثقافت پکڑی تو کبھی افغان سرزمین کو روند کر برصغیر میں داخل ہونے والے وسط ایشیائی اور ایرانی حملہ آوروں کو ہیرو مانا، انھیں بیانیہ پر بنے تھے ذوالفقار علی بھٹو قائد عوام۔ ہماری آج کی سیاست انھیں بنیادوں پر کھڑی ہے۔
یہ بیانیہ ہمارا ذریعہ معاش ہے، اقتدار میں آنے کے لیے بھٹو اسی بیانیے پے چلے، تھے وہ سیکولر تھے جب حالات اور بگڑے تو بہت کچھ کیا جو سیکولر کو زیب نہیں دیتا۔ میاں نواز شریف صاحب جنرل ضیاء الحق کی برسیوں پر تقاریر کیا کرتے تھے۔
بھٹو اگر ایوب کی جھولی میں پل کر بڑے ہوئے تو نواز شریف جنرل ضیاء الحق کی جھولی میں۔ لیکن بات کو یہاں مختصر کرنا زیادتی ہوگی، ان دونوں کے ساتھ۔ ایک سولی پر چڑھ گیا اور اپنی بیٹی بھی ملک پرنثار کر گیا تو اپنی بیٹے بھی اور زوجہ پاگل پن میں یگانہ و یکتہ رہ گئی۔ میاں صاحب ہلکے پھلکے انداز میں کھیلتے رہے اور ایسے ہی شہیدوں میں اپنی انگلی ضرور شہید کرائی۔ ایک بار جلاوطن بھی ہوئے اور دوسری بار کچھ ایسا ہی مقام ہے کہ اگر آئے تو جیل ان کا منتظر ہے۔
کل جو کام بے نظیر کے ساتھ میاں صاحب کرتے تھے آجکل وہی کام نواز شریف کے ساتھ زرداری صاحب کررہے ہیں۔ وہ ایک نئے بیانیے کو جنم دے رہے تھے "ووٹ کو عزت دو" کہ پنجاب طبقاتی اعتبار سے ایک نئی شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔ وہاں بھرپور مڈل کلاس، ٹریڈنگ کلاس، سول بیوروکریسی، جاگ پڑی ہے۔ وکلا جدوجہد میں پنجاب سب سے آگے تھا، دائیں بازو کی سیاست ان کا لاشعور تھا، نواز شریف نے اس دائیں بازو کی سیاست کو جمہوری قوتوں سے جوڑا۔ زرداری صاحب ماڈریٹ سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے اگر قریب نہ لائے ہیں تو دور بھی اتنا اب نہیں رکھا۔
ہماری سیاست میں اب دو اہم پارٹیاں نہیں، تیسری پارٹی بھی خان صاحب کی قیادت میں موجود ہے۔ جن کے لیے اسامہ بن لادن شہید ہیں اور عورت کا وہی تصور ہے جو جنرل ضیاء الحق نے چھوڑا تھا۔ عورت کے حوالے سے ان کے بیان پے مریم نواز نے اپنا رد عمل دیا مگر اسامہ بن لادن پہ جب شاہ محمود نے جو بیان دیا، اس پہ مسلم لیگ کا کوئی رد عمل نہیں آیا۔ اس پہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک واضع موقف ضرور رکھتی ہے۔
خان صاحب کا ووٹ بینک بھی وہ ہی ہے جو میاں صاحب کا ہے، زرداری صاحب کا موقف فطری طور ملالہ کے بہت قریب ہے۔ مگر ہے یہ سب بیانیہ سیاسی سودے بازی سے جڑا ہوا یا ان کے ووٹ بینک سے جڑا ہوا، اقتدار کے زینوں پہ یہ وہ پگڈنڈی ہے جو سب کو عزیز ہے۔
ستر سال سے ہمیں امریکا چلاتا رہا، جمہوریت دینے والا بھی وہی تو جمہوریت لینے والا بھی۔ نائن الیون کے بعد، کیری لوگر میں ایک پالیسی آئی مگر تب تک امریکا کا اثر رسوخ اس مملکت خداداد میں کم ہوا کہ وہ افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے ہندوستان میں دلچسپی لینے لگا، اسے چین کے تناظر میں بھی امریکا کے پاس بہت اہمیت حامل تھی۔ ہندوستان امریکا کو افغانستان کے حوالے سے وہ نتائج نہ دے سکا۔ اور پھر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھی۔
امریکا پاکستان کے قریب آرہا ہے، ہماری حکومت مانے نہ مانے، اس لیے کہ ہمارا بیانیہ بہت آگے نکل گیا ہے۔ ہم پبلک میں یہ کبھی بھی نہیں مانی گے۔ ہم اپنا بیانیہ اپنے روح سے تو اتار دیں گے مگر اپنے تن سے نہیں۔ اور پھر جو تن پہ ہے وہ روح پہ بھی واپس آ سکتا ہے۔
میاں صاحب بیانیہ بنانے میں لگ گئے، زرداری صاحب میاں صاحب کو آگے کر کے بات چیت میں مصروف ہوگئے، ایسے پتے بھی تھے میاں صاحب کے پاس شہباز شریف کے روپ میں۔ کل اسمبلی سے غائب ہوکے کم از کم اس حکومت کو بجٹ تو پاس ہونے دیا۔ لیکن 172 سے ووٹ پے جو بجٹ پاس ہوا، سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کسی بھی وقت گر سکتی ہے، یہ اور بات ہے بجٹ پاس ہوگیا ہے۔
اب چند ہی سالوں میں آمنے سامنے ہوں گے مریم نواز اور بلاول۔ باقی سب ماضی ہوگا۔ مریم کے ساتھ ہوں گے حمزہ شہباز شریف، بلاول کے ساتھ!!!
جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ "کب تک دل کی خیر منائیں " کب تک یہ سب یوں ہی چلتا رہے گا۔ ایم آرڈی تحریک، وکلاء تحریک، اور پھر "پی ڈی ایم" کی چلائی ہوئی تحریک۔ ایک طرف پختون قوم پرستی اپنی ماہیت تبدیل کرتے ہوئے شدید ہورہی ہے۔ بلوچ قوم پرستی اپنی جگہ اب کے سندھی قوم پرستی بھی اپنی نئی راہیں متعین کر رہی ہیں اور پنجاب کی قوم پرستی بھی۔ سندھ کی طبقاتی طرز پنجاب کی طرح نہ بدلی۔ ان میں کوئی ٹریڈنگ کلاس نہیں ابھری۔ اس لیے صرف زمیندار طبقہ ہے۔ ان کے طاقتور حلقے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔ سندھ کی قوم پرستی بے چاری اپنی نعرے بازی کا شکار ہو کر، ایڈوانس باتوں کے خیال پیش کرکے خود اپنے لیے مسئلے پیدا کرتی رہے گی اور اس سے پیپلز پارٹی پہ کچھ فرق نہیں پڑیگا۔
یہ ملک شرفائوں کی کلب کا عکس ہے۔ ہمارے شرفا دیکھ سکتے ہیں، کیسے پیسے بناتے ہیں۔ کبھی چینی غائب ہوجاتی ہے تو کبھی آٹا۔ زمینوں پہ قبضے، کورونا کی ویکسین کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی کوشش تو یہ بھی ہوا کہ پیٹرول کو تو خود گیس کو بھی غائب کردیا گیا۔ یہ کوئی امریکا کے امیزون کمپنی والے بیزوز بھی نہیں، نہیں ایلن ماسک ہے جس نے ٹیلسا کے نام سے الیکٹرک گاڑی متعارف کروائی اور دنیا کو اس طرف لا رہا ہے، نہ یہ زک برگ ہیں جو فیس بک لائے۔ اتنا پیسہ صرف چند چار کمپنیاں کما لیتی ہیں کہ ہماری مجموعی پیداوار سے بھی دس گناہ زیادہ ہے۔
ہماری شرفا اقتدار کی بھوکی شرفا ہے۔ ان کی نفسیات اس گماشتہ سرمایہ دار کی طرح ہے جس کا تذکرہ، جن کی نفسیات پے کارل مارکس نے روشنی ڈالی ہے۔ ان کی ساری کمائی کا تعلق ہماری تباہی سے ہے جس طرح افغانستان کے وار لارڈز ہیں، جس طرح لاطینی امریکا میں ڈرگ کے کاروبار کے پیچھے مافیا ہیں۔ ان کا ہر حلقہ ان کی جاگیر ہے۔ اگر کوئی پارٹی اقتدار سے دور جاتی ہوئی نظر آئے یعنی ایسا بیانیہ جو ایسٹیبلشمنٹ سے ٹکڑ لے کے بیٹھے یہ اس پارٹی سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ شرفا بے نظیر کے پیچھے تھی کہ اس کے ٹکٹ کے بغیر جینا محال تھا۔ زرداری صاحب کا زمانہ کچھ اور ہے۔ کچھ تو خود انھوں نے ایسے کام کیے اور کچھ زمانے کی روایت بھی تھی۔ اب پی ڈی ایم کی تحریک ہوا میں معلق ہے۔ یہ ہیں ہمارے شرفا جو جمہوریت کی بقا کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اب نہ لوگوں میں وہ دم ہے، نہ پیپلز پارٹی کے پاس وہ جیالے رہے۔ میاں صاحب کی پارٹی ہے جو مزاحمت کی پارٹی بن کے ابھری اب اس کی قیادت مریم نواز نہیں شہباز شریف کررہے ہیں جو کہ مذاکرات پے یقین رکھتے ہیں۔
یہ جو پاکستان آپ کو نظر آرہا ہے اس وقت ایک مشکل وقت کا شکار ہے۔ یہ ساری اس شرفا کی عنایات ہیں۔ ہم اقتدار کی اس طرف ہوں یا پھر اس طرف۔ اس جنگ ہم میں ادارے نہ بنا سکے۔ جب انگریز یہاں سے رخصت ہوا بہت بہتر تھے یہ ادارے۔ یہ تھانے، یہ کچہری، یہ ریلوے، یہ آبپاشی کا نظام، یہ سرکاری اسکول، سرکاری اسپتال۔ جب قضا آتی ہے تو مارے غریب جاتے ہیں۔۔ ہم نے کراچی میں گجر نالہ تو اکھاڑ دیا مگر وہ قبضے جو شرفائوں نے کیے ہیں ان کا کیا وہ تو ہم ہٹا ہی نہیں نہیں سکتے۔
ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں ہم ہی کاربند اصول وفا نہ تھے