کچھ دنوں پہلے ایک بحری جہاز پھسنے کے باعث نہر سوئز بند ہوئی تودنیا پریشان ہوگئی کہ اس عالمی تجارت کا کیا ہوگا؟ جو پچھلے پچاس سالوں میں پندرہ سو فیصد بڑھی ہے۔ پوری دنیا کا کاروبار متاثر ہونے لگا، وہ کاروبار جس نے اس پوری دنیا کو ایک فیکٹری بنا کر رکھا ہے، ایک کمپیوٹرکی چپ اگر امریکا میں بنتی ہے تو کمپیوٹر اسمبل ہوتا ہے چین میں۔ اگر گاڑی کے پارٹس ملائیشیا میں ہوتے ہیں تو گاڑی اسمبل ہو تی ہے امریکا میں۔ جوتے کا تلہ اگر ایک ملک میں بنتا ہے تو اوپری حصہ کسی اور ملک میں۔ کپڑے بنگلہ دیش میں بنتے ہیں مگر دنیا کی بڑی بڑی فیشن کمپنیاں اپنا ٹریڈ مارک چسپاں کرکے ان گارمنٹس کو دنیا کی مارکیٹ میں بیچتی ہیں۔
کئی کاروبار ایسے ہیں جو صرف آن لائن ہی ہوتے ہیں۔ ڈجیٹل ٹیکنالوجی نے سمندری تجارت کو بھی وسیع کیا۔ سوئز نہر کے بند ہونے سے دنیا کو یہ بات ضرور سمجھ آئی کہ وہ ایک ہوگئے ہیں۔ ڈیوس ریکارڈو کی اس معاشی تھیوری نے اب جڑیں پکڑ لی ہیں کہ حب الوطنی یہ نہیں کہ تم مہنگی چیزیں بنا رہے ہو اور سستی چیزیں دشمن ملک سے نہیں خرید رہے ہو کہ کل وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ اس میں نقصان کسی ایک کا نہیں بلکہ دونوں کا ہوگا۔ اپنے ہی لوگوں کو مہنگی اور غیر معیاری چیزیں خریدنے پر مجبور کروگے۔
آج کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کے وجود کی بقاء کے لیے تجارت لازمی ہوچکی ہے۔ جس ملک کے اپنے پڑوسی ممالک سے تجارتی تعلقات نہیں، وہ ملک اس کمیونٹی کے ابھرتے تجارتی تقاضوں کوپور ا نہیں کرسکتا۔
بنگلہ دیش پچاس سالوں میں اپنی تجارت کو اس منزل تک لا چکا ہے جس کی مثال کم ملتی ہے۔ ویت نام بھی ایک ابھرتی معاشی حقیقت ہے۔ ہندوستان نے بھی تجارت کو فروغ دینے میں ایک مثال قائم کی ہے۔ ہاں بس اس خطے میں اگر کوئی پیچھے ہے تو وہ صرف ہمارا ہی ملک ہے۔ یہ تو ہمارے بیرونِ ملک پاکستانی ہیں جو ریمیٹنس کی شکل میں اس ملک کو پیسہ بھیج رہے ہیں۔ ہمارا تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے اور یہ خسارہ کئی دہائیوں سے ہے اور یہی خسارہ بنیاد ہے اس بات کی کہ اس ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنا پڑا۔
تجارت ایک ایسا سیکٹر ہے جس کو وہی ملک بہتر انداز میں ہنڈل کر سکتا ہے جس کے پاس انسانی وسائل بہتر ہوں یا پھر ایسے معدنی ذخائر وسیع ہوں جن کی دنیا کو ضرورت ہے، جیسا کہ پیٹرول یا پھر گیس وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے تیل کی مانگ پچھلے سات سالوں میں 25% بڑھ گئی ہے اور ہندوستان نے اس حوالے سے جاپان جیسے ملک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جو اس دنیا کا تیسرے نمبر پر تیل درآمد کنندہ ملک ہے۔ انسانی ترقی کے مروج پیمانے کے مطابق ہمارا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہو تا ہے۔
حالیہ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس نے ترقی نسواں کے حوالے سے پاکستان کے مزید چار پوائنٹس کم کردیے اور اس طرح پاکستان کو چار بدترین ممالک کے بیچ کھڑا کردیا۔ اگر اس ملک میں تجارت کوفروغ دیا جائے تو کس طرح۔ ہم کسی بھی ٹیکنالوجی میں عبور نہیں رکھتے۔ ہم جہاز بنا سکتے ہیں، نہ ریل گاڑی، نہ ہی کمپیوٹر وغیرہ۔ ہمارے ملک میں بجلی اسقدر مہنگی ہوچکی ہے کہ جو چیزیں ہم بنانے میں خود کفیل تھے اب ہم وہ بھی نہیں بنا رہے۔ وہ ہی چیزیں اب ہم درآمد کرلیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ ان کی تیاری پر اب خرچہ بڑھ گیا ہے۔
سارے کام غیر فطری انداز میں ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں چینی کی قیمت بیس روپے تب ہی کم ہو گی جب ہم اس کو ہندوستان کی منڈی کے ساتھ جوڑ دیں گے۔ ایسی خبر پاکستان کے چینی کے کارخانوں کے مالکان کے لیے تو اچھی نہیں مگر عوام کے لیے اچھی ہے۔ اگر ہندوستان میں ٹماٹر کی قیمت زیادہ ہے تو ہندوستان ٹماٹر پاکستان سے خرید کر اپنے صارفین کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اسی طرح سے سیکڑوں اشیائے خورونوش ہیں جن کی باہمی تجارت سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ افراطِ زر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ چین اور ہندوستان کے تعلقات دہائیوں سے کشیدہ ہیں۔
ان کے درمیان شدید سرحدی تنازعات ہیں۔ جب ہندوستان اور چین کے درمیان پچاس ارب ڈالر کی تجارت ہو سکتی تو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کیوں نہیں؟ امریکا کا سب سے بڑا حریف چین ہے مگر سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی چین ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی آپسی تجارت میں دونوں ممالک کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آمدورفت یا ٹرانسپورٹ پر خرچہ کم آتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے بارڈرز ملے ہوئے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کا بارڈر بھی سوئز نہر کی طرح ہے جنگ ہو یا امن یہ بارڈر دونوں صورتوں میں کھلا ہونا چاہیے۔ زیادہ تجارت، زیادہ بچت، زیادہ روزگار، زیادہ سیاحت اور زیادہ امن۔ مغربی ممالک میں یورپی یونین کی کامیابی کا رازلوکل تجارت ہے۔ پاکستان میں رواں مالی سال میں لوکل تجارت مزید 22% کم ہوئی ہے۔
پاکستان کے داخلی سیاسی تضادات وقت کے ساتھ سلجھنے کے بجائے دن بہ دن الجھتے ہی جارہے ہیں۔ اب تک ہماری خارجہ پالیسی میں کوئی سدھار نہیں آیا۔ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون اس ملک کی تجارت ہو تی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ برآمدات کی جائیں اور ملک کے لیے زرِمبادلہ کمایا جائے، روز گار کے مواقعے پیدا ہوں، شرح نمو میں اضافہ ہو مگر یہاں وہ حالات بھی سازگار نہیں۔ ہماری شرح نمو بڑھنے کی رفتار خود ہمارے خلاف ہی شاہد ہے کہ یہاں کس قدر انسانی ترقیاتی کاموں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ غرض یہ کہ جو کچھ بھی اس ملک میں اسوقت ہو رہا ہے انتہائی غور طلب ہے اور اب ہمارے پاس وقت کی شدید کمی ہے۔