Friday, 22 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Chinar Golf Aur Miranjani Track

Chinar Golf Aur Miranjani Track

ریڈیو پاکستان کے معروف پنجابی پروگرام "سوہنی دھرتی" کے میزبان مرزا سلطان بیگ المعروف نظام دین سے کسی نے پروگرام میں سوال کیا کہ راولپنڈی میں بارشیں نہیں رک رہیں، کیا جائے ازراہ مزاح جواب دیا ملتان سے بندہ بلوا کر نتیجہ دیکھ لیں، ملتان کی گرمی کی تاب نہ لا کر ملکہ کوہسار کا رخت سفر باندھا، ہم سفر عبداللہ اختر، داؤد اختر، عبدالوہاب جاوید اور انس جاوید اصغر بھانجے اور بھتیجے، بیٹی حرا خالد اصغر تھے، داماد انجینئر شاہد منظور گورائیہ ہمارے میزبان تھے بیٹی نے اسلام آباد آنے کی دعوت دی، بارشوں سے موسم انتہائی خوشگوار ہے، مگر قیام تک نظام دین مرحوم کی بات سچ ثابت ہوئی مری کے پہاڑوں پر بھی ہماری موجودگی میں بارش نہ ہوئی۔

پہلے روز بھوربن چنار گالف کلب جاناہوا پہاڑیوں پر موجود دنیا کایہ مشکل ترین کلب ہے، اس کا صد ر عمومی طور پر کمپنی کمانڈر گھڑیال کیمپ سے ہوتا ہے، آرمی کے زیر کنٹرول یہ بہت صاف ستھرا اور محفوظ کلب ہے، گالف کے ایک کھلاڑی نے بتایا کہ سویلین بھی وزٹ کر سکتے ہیں، کھانے پینے کے لئے اچھا ریسٹورنٹ بھی موجود ہے، پارٹی کرنے کی بھی سہولت میسر ہے نیز ہٹس میں کیمپنگ بھی کی جاسکتی ہے، جس میں بون فائیر کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، یہ رینٹ پر دستاب ہیں، مجوزہ پروگرام سے دس بارہ روز قبل ان ہٹس کی بکنگ کرائی جاسکتی ہے، جس کا رابطہ نمبر کلب کی سائٹ پر دستیاب ہے۔

فیملی کے ساتھ جب ہم وہاں پہنچے تو بڑے، بچے، خواتین گالف کی نیٹ پریکٹس کر رہے تھے، بال اورسٹک کلب کی طرف سے پیسوں کے عوض دی جاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کھیل کے دوسو سے زائد رولز ہیں، یہ مہنگا ترین کھیل ہے، جسکی کٹ ہی لاکھوں میں ملتی ہے، اور بال کی قیمت بھی ہزار روپے سے زائد ہے جوایک ہی کھیل میں ختم ہو جاتی ہے، بڑے سکون اور تحمل سے کھیلے جانا والا یہ کھیل ہے، وہاں موجود اہل کار نے بتایا کہ موسم سرما میں بھی یہ کلب کھلا رہتا ہے، گراؤنڈ سے برف ہٹا دی جاتی ہے، مقابلہ جات زیادہ تر ویک اینڈ پر ہوتے ہیں، یہ ایلیٹ کلاس کا کھیل مانا جاتا ہے، پہاڑوں پر موجود اس کلب کی اضافی خوبی یہ ہے کہ یہاں بہت سے مناظر کو کیمرہ کی آنکھ سے محفوظ کیا جاسکتا ہے، سیاحوں کے لئے سنوکر کھیلنے کی سہولت موجود ہے، علاوہ ازیں گالف سیکھنے والے نئے کھلاڑیوں کے لئے Samulation کیبن بنایا گیا جس میں کھلاڑی اپنی کارکردگی سکرین پر بھی دیکھ سکتا ہے، کلب کے ساتھ پی سی ہوٹل تک ہائیکنگ ٹریک بھی ہے۔

اگلے روز اسلام آباد سے نتھیاگلی میرن جانی ہائیکنگ ٹریک کے روانہ ہوئے، یہ معروف ٹریک ہے، اسکی طوالت مشک پوری ٹریک سے زیادہ ہے، گرمیوں کے سیزن میں بہت سے ہائیکرز یہاں آتے ہیں، زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں، مذکورہ ٹریک ڈیگری فاریسٹ تک جاتا ہے، اس مقام پربرطانوی عہد کے بنگلے بھی ہیں جہاں سیاح کیمپ لگاتے ہیں، ٹریک پر روانہ ہونے سے قبل آپ کا ڈیٹا مقامی فرد کاپی پر نوٹ کرتا ہے، سیاح کی درخواست پر فون نمبر مہیا کیا جاتا ہے، راستہ بھول جانے یا کسی پریشانی کی صورت رابطہ کیا جاسکے، مقامی فرد نے بتایا کہ ٹورسٹ شعبہ کے اہلکار نتھیاگلی دفتر میں ہوتے ہیں۔

ٹھنڈیانی، بیرن گلی، میرن جانی، نتھیا گلی، مشک پوری، ایوبیہ ہمالیائی سلسلہ ہے جو سیاحوں کے لئے ہائیکنگ کے لحاظ سے بڑی رغبت رکھتا ہے، یہ پرامن علاقہ ہے، پنجاب اور کے پی کے کی حدود میں واقع ہے، جس کو گلیات کا نام دیا گیا ہے، سیاحوں کے تحفظ اور سہولیات کی فراہمی کے لیے گلیات اتھارٹی بھی قائم کی گئی ہے۔

ٹورسٹ بک گائیڈمیں انفرادی طور پر ہائیکرز کو ہدایات ملتی ہیں، تاہم ہائیکرز کو عالمی معیار کی سہولیات میسر نہیں ہیں، حتیٰ کہ معیاری "ہائیکنگ سٹک" بھی یہاں میسر نہیں، تین، چار گھنٹے کی ہائیکنگ میں ایسا ہٹ شعبہ سیاحت کی طرف سے بنایا نہیں گیا جس میں بڑی عمر کے لوگ، خواتین بیٹھ سکیں یا بارش کی صورت میں پناہ لے لیں، پورے راستہ پر کہیں بھی شعبہ سیاحت یا گلیات اتھارٹی کا نمبر رقم نہیں، ایمرجنسی کی صورت میں ریلیف یا مدد کے لئے کس سے رابطہ کرنا ہے۔

یہ تمام ٹریک از خود بارش کے پانی یا مقامی افراد کے چلنے سے وجود میں آئے ہیں، شعبہ سیاحت کا اس میں کوئی کمال نہیں ہے، اللہ کی دی ہوئی اس نعمت سے نہ جانے یہ شعبہ کیوں مستفید نہیں ہونا چاہتا، گوادر سے کراچی، لنڈی کوتل سے جنوبی پنجاب تک کے لوگ پہاڑوں کی سیر کرنے آتے ہیں، ہائیکنگ میں دلچسپی رکھنے والے لاکھوں لوگ خواہاں ہیں کہ وہ بہتر ین ماحول، تحفظ میں یہ"سبز ورزش" کرسکیں، یہ فطرت سے قریب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جس کے کئی نفسیاتی فوائد حاصل ہوتے ہیں، شوگر، بلڈ پریشر کے مریضوں کو بھی اس سے فائدہ ملتا ہے۔

ہائیکنگ ٹریکس کے حوالہ سے شعبہ سیاحت کو مزید کام کرنا ہے، ہائیکنگ سے متعلق جو معروف گروپس فعال ہیں انکی مشاورت اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے بہت ہی سہولیات ہائیکرز کو فراہم کی جاسکتی ہیں، شعبہ سیاحت کو نئے ٹریک دریافت کرنے کے ساتھ دلچسپی رکھنے والوں کے لئے تربیت کا اہتمام بھی کرنا چاہئے، تو بہت سے لوگ جو کسی ڈر کی وجہ سے شریک ہونے سے کتراتے ہیں وہ بھی بخوشی شریک ہوں گے، اس کے مقابلہ جات کے انعقاد سے نسل نو میں صحت مندانہ سرگرمی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں تو معذور افراد کو بھی ہائیکنگ کی سہولت دی جاتی ہے۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مری ڈیویلپمنٹ پلان کے تحت راولپنڈی تا مری ٹورسٹ گلاس ٹرین چلانے کی متمنی ہی نہیں بلکہ سیاحت کے فروغ کے لئے بہت سے اقدامات کرنے کی آرزومند ہیں، جس میں ٹرانسپورٹ بھی شامل ہے، سیاحوں کو اگر مقامی سطح پر معیاری، آرام دہ، محفوظ اور ارزاں کرایہ پر ٹرنسپورٹ مل جائے توسیاح ذاتی گاڑی لانے سے اجتناب کریں گے اس سے پارکنگ کا مسئلہ بھی حل ہوگا، ہوٹلز کے کرایہ جات، معیار اور مقدار کے لحاظ سے کھانوں کے نرخ کے لئے بھی پیرا میٹرز مقرر کرناپڑیں گے۔ شعبہ سیاحت کو ہمہ وقت فعال رکھنے سے بہت سی سرمایہ کاری ممکن ہے۔

گرم موسم کے اعتبار سے ملتان تو ویسے بھی بدنام ہے مگر عالمی موسمیاتی تبدیلی نے ہر شہر کو "ملتان" جیسا ہی کر دیا ہے، پہاڑوں کا رخ کرنے والے اگر چاہتے ہیں کہ ان کے علاقہ جات میں بھی موسم معتدل رہے تو انھیں بھی اپنی حیاتی میں کم از کم ایک درخت ضرور لگانا چاہئے کیونکہ ٹمبر مافیاز کے ہاتھوں درختوں کی کٹائی نے بھی ماحولیاتی منفی تبدیلی میں اہم کردار اد کیا ہے جس سے پہاڑ بھی متاثر ہوئے ہیں، وہاں بھی بارشوں اور ٹھنڈک میں بتدریج کمی آرہی ہے، ایسا نہ ہو کہ گرمی کی حدت کے باعث ہائیکنگ جیسی نعمت سے خدانخواستہ ہم محروم ہو جائیں۔