سدھیر کا مزاج دوسرے ہیروز سے بالکل الگ تھا اور وہ ہمیشہ فلم انڈسٹری میں خاموش اور الگ تھلگ رہتے تھے اور انھیں کام کے بغیر پبلسٹی کروانا اچھا نہیں لگتا تھا جس کی وجہ سے ان کے بہت ہی کم انٹرویوز شایع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ فلموں میں اپنے اور گانا ریکارڈ کروانا بھی avoid کرتے تھے۔ یہ جوڑی سب سے زیادہ اداکار فردوس کے ساتھ پسند کی گئی جس کے ساتھ انھوں نے تقریباً 25 فلموں میں کام کیا جب کہ اداکارہ نغمہ کے ساتھ 22، مسرت نذیر کے ساتھ 18 فلمیں اور گیارہ فلمیں اداکارہ صبیحہ کے ساتھ تھیں۔
فلم دوپٹہ کے بعد وہ فلم خزاں کے بعد اور پون میں اسے ہیرو کا رول دیا گیا۔ پون میں اس کی ہیروئن شمی تھیں جو اپنے وقت کی بڑی خوبصورت ادکارہ تھیں جس سے بعد میں انھوں نے شادی رچا لی جس کی وجہ ان کے درمیان ایک دوسرے سے محبت تھی جو ایک فلم کی شوٹنگ کے درمیان ہو گئی۔ حالانکہ سدھیر پہلے ہی سے اپنے خاندان میں سے اقبال بیگم سے شادی کر چکے تھے۔ ایک فلم کے دوران سدھیر نے اداکارہ زیبا سے بھی پیار کی پینگیں بڑھائیں اور شادی کر لی جس کی وجہ سے اس کی بیوی شمی بے حد پریشان رہتی تھیں کیونکہ سدھیر سے شادی کے بعد اس نے فلمی دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔
سدھیر کے پاس اب کافی رقم آ گئی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے فلم سازی کا کام شروع کیا اور 1957ء میں فلم "آنکھ کا نشہ" بنا ڈالی جس کی کہانی مشہور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی لکھی ہوئی تھی جسے فلم بند کیا گیا۔ اس فلم کی کاسٹ میں سدھیر کے علاوہ مسرت نذیر، اسلم پرویز، درپن اور نیلو شامل تھے۔ سدھیر نے اس فلم میں اداکارہ صبیحہ کے باپ کا رول ادا کیا تھا اور فلم کی ہدایت کاری ایس فاضلی نے انجام دی تھی اور خوبصورت دھنوں کے مالک تھے ماسٹر عنایت حسین۔ اس کے بعد 1960ء میں اس نے فلم ساحل بنائی جس میں انھوں نے شمی کو ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا تھا جب کہ باقی کاسٹ میں علاؤالدین، نذیر، طالش شامل تھے۔
1963ء میں انھوں نے فلم بغاوت پروڈیوس کی جس کی ہدایت انھوں نے خود ادا کی اور ہیرو بھی خود ہی تھے جب کہ اس فلم کی کہانی اور گانے خود لکھے جس نے کامیابی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ فلم کی ہیروئن شمی تھی جب کہ اداکار اکمل نے اس فلم میں ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ آغا طالش کا بھی تعلق پشاور سے تھا جس کے ساتھ سدھیر نے کئی فلموں میں ساتھ کام کیا تھا جس سے مل کر سدھیر نے فلم "مفرور" پروڈیوس کی جس کے وہ خود ہیرو تھے جب کہ ہدایت کاری محمد سلیم نے ادا کی اور باقی کاسٹ میں زیبا، اسلم پرویز، آغا طالش وغیرہ شامل تھے۔ فلم کی موسیقی ایم الیاس نے بنائی تھی۔ اس فلم کو دوبارہ 1976ء میں جنگ آزادی کے نام سے ریلیز کیا گیا تھا۔
1968ء میں سدھیر نے فلم "میں زندہ ہوں" بنائی، جس میں اداکارہ شبنم کو کاسٹ کیا، اس کے بعد فلم "نشان" بنائی جس کی ہیروئن اداکارہ نغمہ تھیں۔ پھر 1978ء میں فلم دشمن کی تلاش بنائی جس میں اپنے بیٹے زمان خان کو ہیرو کے طور پر لے آئے مگر اس میں اداکاری کے جوہر نہیں تھے اس لیے وہ فیل ہو گئے جب کہ ان کے ساتھ اچھی ہیروئن بابرہ کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ اس فلم کی ہدایات دلجیت مرزا نے دی تھیں۔ فلم تو ناکام ہوگئی لیکن کے بیٹے کو کئی پشتو فلموں میں کام مل گیا۔
وہ اداکارہ صبیحہ کے ساتھ کئی رولز کر چکا ہے جس میں خاص طور پر وہ صبیحہ کے باپ، بھائی، شوہر، بیٹے قابل ذکر اور اہم ہیں۔ ان میں فلم چھوٹی بیگم، بہن، بھرا اور "دھن جگرا ماں دا" وغیرہ شامل ہیں اور اس طرح کے رولز شاید کسی نے کسی ایک اداکارہ نے نہیں ادا کیے ہوں گے۔ سدھیر کی پہلی پنجابی فلم بلبل تھی جو 1955ء میں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی۔ وہ اب پنجابی فلموں کا Favourit ہیرو بن چکے تھے، جس میں ایک فلم ماں پتر بھی تھی جس نے بڑا بزنس کیا جب کہ دلجیت مرزا کی فلم ٹھاہ بھی شامل ہیں۔ ان کی ایک اردو فلم سسی جس کی ہیروئن صبیحہ خانم تھیں اور دوسری فلم انار کلی جس کی ہیروئن نور جہاں تھیں بہت اچھی رہیں۔
سدھیر نے 1970ء میں ریلیز ہونے والی فلم ماں پتر نے نگار ایوارڈ اور لاٹری فلم میں 1984ء میں حاصل کیے۔ ان کا رول فلم کرتار جس میں وہ ایک سکھ بنے ہیں، عجب خان، ڈاچی، فرنگی قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے تقریباً 166 فلموں میں کام کیا تھا اور ان کا یہ فلمی کیریئر تقریباً چالیس سال سے اوپر ہی ہو گا انھوں نے سن 1987ء میں فلموں سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا اور ان کی آخری فلم سن آف ان داتا تھی۔ مگر ایک مرتبہ وہ ہدایت کار اقبال کشمیری کی فلم حسینہ کی بارات میں ایک مہمان اداکار کے طور پر کام کیا تھا جس کے لیے انھیں گزارش کی گئی تھی جس سے وہ انکار نہیں کر سکے اور یہ فلم شاید 1992ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ سدھیر کی فلموں نے باہر ممالک میں فلمی میلوں میں بڑی شہرت پائی تھی اور اسے کئی ایوارڈ بھی دیے گئے تھے جس میں زیادہ تر وہ فلمیں تھیں جو انھوں نے پروڈیوس کی تھیں۔
فلم "باغی" پاکستان کی پہلی فلم تھی جس کی نمائش 1956ء میں چائنا میں ہوئی تھی۔ فلم غالبؔ 1962ء میں ایرانی فلمی میلے میں دکھائی گئی تھی جس میں سدھیر نے غالبؔ کا کردار ادا کیا تھا، اس کی تیسری فلم انارکلی تھی جس میں انھوں نے نورالدین محمد جہانگیر کا کردار ادا کیا تھا جسے بیروت کے بین الاقوامی فلمی میلے میں اور پھر بین الاقوامی کابل فلمی میلے میں بغاوت فلم پیش کی گئی تھی۔ بین الاقوامی فلمی میلوں میں سدھیر کی فلموں کی نمائش نے اسے بڑی مقبولیت دی۔ اس کے علاوہ سدھیر کی فلم سسی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی فلم ہے جس نے گولڈن جوبلی کی تھی اور اس کے علاوہ اس کی پنجابی فلم " جی دار" پہلی فلم تھی جس نے پلاٹینم جوبلی منائی۔
سدھیر اپنی زندگی کا سفر پورا کرنے کے بعد انیس جنوری 1997ء میں دار فانی سے کوچ کر گئے، مگر اپنے پیچھے لاتعداد کامیاب فلمیں چھوڑی ہیں، جن کی وجہ سے وہ آج بھی زندہ ہیں فلمی شائقین کے دل اور دماغ میں۔