Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Larkana Ki Taraqi Mein Lahori Family Ka Kirdar

Larkana Ki Taraqi Mein Lahori Family Ka Kirdar

میں بچپن سے سنتا آ رہا تھا کہ لاہوری محلہ، لاہوری خاندان کے نام سے منسوب ہے جو لاڑکانہ میں تین صدیاں پہلے پنجاب کے شہرکمالیہ سے آ کر یہاں آباد ہوا تھا۔ یہ خاندان کھرل ذات سے تعلق رکھتا تھا، جسے لاڑکانہ والے لاہوری کہتے تھے۔

اس خاندان میں الحاج امیر علی لاہوری زیادہ مشہور رہے ہیں، جن کی دوستی بھٹو خاندان سے بڑی مضبوط اور قریبی تھی، خاص طور پر امیر علی، سرشاہنواز بھٹو کے قریب ترین دوستوں میں سے تھے اورجب ذوالفقارعلی بھٹو پیدا ہوئے تو ان کے کان میں اذان اور نام ذوالفقارعلی بھی امیرعلی نے رکھا تھا۔ امیر علی کے دوسرے بیٹے نے بتایا کہ یہ پرانی بات ہے کیونکہ ان کی اس وقت ساتویں پشت میں سے قلب حسین ہے اور انھیں فخر ہے کہ وہ سندھی ہیں۔

اس خاندان کے پہلے فرد بھوروخان تھے، جولاڑکانہ میں آکر آباد ہوئے۔ بھٹوکے دور حکومت میں خالد احمد کھرل ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ تھے، جو بعد میں محترمہ بے نظیرکے زمانے میں وفاقی وزیر بھی رہے، جن سے اس خاندان کی رشتے داری ہے، کیونکہ امیر علی کے بڑے بیٹے احمد حسین کی شادی خالد کھرل کے خاندان میں ہوئی تھی۔ اس وقت احمد حسین کی عمر تقریباً 90 سال ہوگی اور وہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ کھرل اصل میں راجپوت ہیں۔

قلب حسین لاہوری کے دادا ٹھارو خان کو برٹش حکومت کی طرف سے خان بہادر کا خطاب ملا تھا، ٹھارو خان کے زمانے میں لاڑکانہ شہر چھوٹا تھا جس کو وسیع کرنے کے لیے وہ آبادی بڑھانا چاہتے تھے، انھوں نے اپنے دوستوں میں سے رانی پورکے سیدوں کوکہا کہ وہ کچھ خاندان ایسے دیں، جنھیں وہ لاڑکانہ میں آبادکریں۔

رانی پورکے سیدوں نے کدھ میمن ذات کے خاندانوں کو ٹھاروخان کے حوالے کیا، جنھیں ٹھارو خان نے اپنی زمین مفت میں ان کے حوالے کی اور اس پرگھر بنانے اور کاروبار کرنے کے لیے بھی پیسے دیے جو آج تک وہاں رہتے ہیں اور وہ علاقہ لاہور محلہ کہلاتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ لاہوری خاندان نے انگریزوں کے زمانے میں ریلوے ٹریک کے سیدھے ہاتھ والا سارا حصہ خرید لیا تھا اور قلب حسین کہتے ہیں کہ یہ علاقہ انگریزوں سے کسی وفاداری کے سلسلے میں نہیں ملا تھا۔

امیر علی لاہوری کے 5 بھائی تھے، جو ان کی زندگی میں ہی انتقال کرگئے۔ ان بھائیوں میں ایک بھائی در محمد خان تھے جن کے بیٹے کا نام شاہ محمد خان تھا جو لاڑکانہ میونسپل کمیٹی کے پہلے صدر تھے وہ عہدہ سنبھالنے کے 2 سال بعد ہی صرف 27 سال کی عمر میں انتقال کرگئے جس کے بعد امیر علی کوکمیٹی کا وزیر متفقہ طور پر بنایا گیا اورانھوں نے دن رات محنت کی۔

شہر میں صفائی، ستھرائی اور ترقیاتی کام اتنے کروائے کہ لوگ ان سے بہت خوش تھے، وہ اس منصب پر22 برس تک کام کرتے رہے اور آخرکار صحت کی خرابی کی وجہ سے انھوں نے ذمے داری سے استعفیٰ دیا۔ ان کی خدمات کوسراہتے ہوئے کمیٹی کے ممبران کی طرف سے ایک بڑی الوداعی پارٹی منعقدکی گئی، جس کا سپاس نامہ گولڈ سے لکھا گیا جو اسے پروگرام کے دوران یاد داشت کے طور پر حوالے کیا گیا، جو آج تک ان کے پاس موجود ہے۔ یہ سپاس نامہ ایک مخمل پر Emboss کیا گیا تھا جو اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی خوبصورت اور نیا ہے۔

جب انگریز حکومت میں تعلیم و صحت کے اداروں کے علاوہ انتظامی عمارتیں اورآفس بن رہے تھے تو لاہوری خاندان نے بڑا اہم رول ادا کیا اور ان کے لیے زمین مفت میں دی جس کی وجہ سے لاڑکانہ شہر میں گورنمنٹ ہائی اسکول بنا جو اب ہائر سیکنڈری لیول سے کامیابی سے چل رہا ہے جس کا صد سالہ جشن کچھ مہینے پہلے منایا گیا تھا، جس کی تقریب میں تقریرکرتے ہوئے لوگوں نے لاہوری خاندان کا شکریہ ادا کیا۔ آب پاشی کا دفتر جسے رائس کینال کا دفترکہتے ہیں وہ اور اس کے ساتھ ڈی سی ہاؤس، آفیسرز کلب جوکبھی ڈی سی ہاؤس کا حصہ تھا، سمبارا ان سول اسپتال جو ابھی چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی اسپتال کا حصہ ہے اور ہائی وے کا دفتر وغیرہ کے لیے اس خاندان نے مفت میں پلاٹ دیے تھے اور اس کے علاوہ کئی دفاتر بننے میں مالی امداد بھی کی۔

امیر علی کے تین بیٹے تھے، احمد حسین، قلب حسین اورمصطفیٰ حسین تھے، ان میں سے مصطفیٰ دوسال قبل اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ امیر علی کا پہلی بیوی سے ایک بیٹا علی گوہر تھا جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ بیٹے علی گوہر پیدا ہونے کی خوشی میں ایمپائر روڈ کے سامنے جو خالی پلاٹ تھا، اسے غریب لوگوں میں مفت تقسیم کیا، جس کا نام علی گوہر آباد رکھا گیا جو اب بھی اسی نام سے آباد ہے جب کہ دوسری بیوی سے احمد حسین بیٹا پیدا ہوا تو اس کے نام حسین آباد محلہ آباد کیا اور وہاں پر لوگوں میں مفت زمین لوگوں کے حوالے کی کہ وہ وہاں آباد ہو جائیں اور اسی طرح لاڑکانہ کی آبادی بڑھتی گئی اور لوگ آکر یہاں آباد ہوئے۔ اس کے علاوہ ملک کی بڑی شخصیت ہیں، جن کے والد کو لاڑکانہ میں آباد کرنے کے لیے پلاٹ دیا جہاں اس نے ایک بڑا عالی شان بنگلہ بنایا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ پورے لاڑکانہ شہر میں ایک بھی ایسی سڑک یا گلی نہیں ہے، جو لاہوری خاندان کے کسی نامور فرزند کے نام سے منسوب کی گئی ہو۔ پرانی مچھلی مارکیٹ جو امیر علی لاہوری نے بنوائی تھی، جس کے سنگ بنیاد پر ان کا نام اور تاریخ اور سال بھی لکھا ہوا تھا مگر اس مارکیٹ کو توڑکر دوبارہ بنایا گیا تو اس تختی کوکہیں پھینک دیا گیا جو ایک زیادتی ہے۔ لاہوری محلے کے برابر رائس کینال پر ایک اوور ہیڈ برج بنایا گیا ہے، جو بھٹو صاحب کی پہلی بیوی شیریں امیر بیگم کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، جس کا سیاست سے یا پھر اقتدار یا پی پی پی سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی شخصیت جو بھٹو خاندان کے حوالے سے ہے، اس پرکسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک معتبر خاتون تھیں۔ پھر بھی گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کی انتظامیہ کو شاباش دیتے ہیں، جو انھوں نے لاہوری خاندان کی طرف سے دی گئی 24 ایکڑ زمین کو تحفے کے طور پر ذکرکیا ہے۔

لاہوری خاندان کے بھٹو خاندان سے بڑے اچھے، مضبوط اور قریبی تعلقات تھے اور خاص طور پر سر شاہنواز بھٹو جو نئوں ڈیرو میں رہتے تھے اور جب بھی آتے تو امیر علی لاہوری سے ملنے آتے، بھٹوکے سسر احمد خان امیر علی سے ضرور مشورہ کرتے اور وہ بغیر اطلاع دیے ان کے پاس چلے جاتے تھے اور سر شاہنواز بھٹو نئوں ڈیرو میں عید کی نماز ادا کرنے کے بعد سیدھے امیر علی کے لاہوری بنگلے پر آتے جہاں دونوں بیٹھ کر لمبی کچہری کیا کرتے تھے۔ (جاری ہے)