Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Jata Hua Saal

Jata Hua Saal

قومی سیاست کا محور و مرکز آجکل سینیٹ الیکشن ہیں حکومت کسی بھی طرح سینیٹ میں اکثریت حاصل کر کے مرضی کی قانون سازی کیلئے راستہ صاف کر نا چاہتی ہے تاکہ انتخابی مہم کے دوران عوام سے کئے وعدوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جا سکے، جبکہ اپوزیشن کسی بھی طرح حکومت کی راہ کھوٹی کرنے کی خواہش مند ہے۔ اس دوڑ میں سب آنکھیں بند کئے بگ ٹٹ بھاگے جا رہے ہیں، کسی کی آئین اور الیکشن کمیشن کے ضابطوں پر نگاہ ہی نہیں، یہ بات تو طے ہے کہ سینیٹ الیکشن تو اپنے وقت پر ہونگے، امکان ہے اپوزیشن اتحادکی رکن جماعتوں کے سربراہ الیکشن سے قبل اپنے ارکان کے استعفے بھی متعلقہ سپیکر صاحبان کو پیش نہیں کریں گے، حکومتی جماعت سینیٹ میں اکثریت بھی حاصل کر لے گی، خیبر پختونخوا، پنجا ب اسمبلی میں اس کے نامزد بیشتر اور سندھ اسمبلی، بلوچستان اسمبلی سے کچھ ارکان کی کامیابی کا واضح امکان ہے جبکہ پیپلز پارٹی کو سندھ اور ن لیگ کو پنجاب میں کچھ نشستوں پر کامیابی حاصل ہو گی، اس تناسب سے تحریک انصاف سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگی۔

سال رواں آخری ہچکیاں لیتے تیزی سے اپنے اختتام کی طرف رواں ہے، گزرتے سال میں ملکی معیشت کو استحکام ملا، مگر کورونا کی قہر سامانی نے دنیا بھر میں تباہی مچائی اور عالمی معیشت کو نہ صرف دھچکے لگائے بلکہ بعض ممالک کی معیشت ڈوب گئی اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشت ہچکولے کھاتے آگے بڑھ رہی ہے، متعدد ممالک میں مکمل لاک ڈاؤن کے اثرات بہت نمایاں ہو کر سامنے آئے مگر پاکستان نے پہلا دھچکا آسانی سے سہہ لیا دوسری مگر زوردار لہر ابھی جاری ہے خدا کرے اس بحران سے بھی ملک و قوم عافیت سے نبرد آزما ہو جائے، مگر ابھی اس کی تباہ خیزی کے مستقبل قریب میں خاتمے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا، رواں سال کرونا ویکسین کی تیاری کے حوالے سے بھی کامیابی ملی، تاہم مارکیٹ میں فوری آنے والی ویکسین بہت مہنگی ہے جس کی وجہ سے صرف امیر ممالک اسے خریدنے کی سکت رکھتے ہیں، غریب اور ترقی پزیر ممالک میں ابھی ویکسین خواب ہی ہے، امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ سال مارچ میں ویکسین غریب ممالک کو بھی دستیاب ہو گی۔

گزرتے سال اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحادپاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بھی معرض وجود میں آیا، اس اتحاد کی کامیابی ابتدءاسے ہی مخدوش تھی، اتحاد کی رکن جماعتوں کے اپنے نظریات اور منشور میں خاصا ٹکراؤ ہے، پیپلز پارٹی حکومت سے سیاسی لڑائی کیلئے تیار ہے مگر ریاستی اداروں سے مڈھ بھیڑکیخلاف اور مدافعت اور مصالحت کی حامی ہے، ن لیگ کی قیادت کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے اور اس حوالے سے پارٹی کے اندر بھی دو گروپ ہیں ایک مزاحمت چاہتا اور دوسرا جارحیت پر عمل پیرا ہے، اتحاد کے سربراہ پہلے سے ہی ان دونوں جماعتوں کی قیادت پر یقین نہیں رکھتے، وہ صاف کہتے ہیں کہ جب انہوں نے لانگ مارچ کر کے اسلام آبادمیں دھرنا دیا تھا تو پہلے ان جماعتوں کی قیادت نے کمر تھپتھپائی اور جب ہم نے قدم اٹھایا تو یہ لوگ پیٹھ دکھا گئے اور ہماری خبر بھی نہ لی، ان کے خیال میں ان بڑی دو جماعتوں کی خواہش تھی کہ "دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں "۔

اتحاد کی باقی رکن جماعتوں کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں، ان میں سے ہر پارٹی بڑی جماعت میں سے کسی نہ کسی کی مرہون منت ہے، کچھ کی تو کسی اسمبلی میں نمائندگی تک نہیں، ساجد میر اہلحدیث مکتبہ فکر کے نمائندہ اور فضل الر حمٰن دیو بند کے، محمود اچکزئی اور محسن داوڑ پختونوں کی نمائندگی کرتے ہیں، مگر دونوں پاکستان کے نظرئیے، جغرافیائی حدود کیساتھ قومی سلامتی کے ضامن ریاستی ادارہ کے بھی مخالف ہیں، جن کو نواز شریف کے بیانیے سے دلچسپی ہے اور نواز شریف کو اس لئے قبول کہ ان کے ہمنوا ہیں، سینیٹ الیکشن پر بھی ان میں سے کوئی اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں، فقط پریس ریلیز جماعتیں ہیں اور کسی بھی وقت ان میں سے کوئی بھی پی ڈی ایم کے حلقہ اثر سے آزاد ہو سکتا ہے۔

امریکی الیکشن اور انتقال اقتدار میں آنے والی مشکلات بھی رواں سال کا اہم ایونٹ ہے، ٹرمپ نے پہلے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، پھر الیکٹورل ووٹ میں ردو بدل کی کوشش، دھاندلی کا الزام لگا کر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر ہر طرف سے ناکامی کے بعد جوبائیڈن کی برتری قبول کر لی، مگر اب تک وائٹ ہاؤس چھوڑنے اور اقتدار منتقل کرنے کو تیار و آمادہ نہیں، ٹرمپ کی کھیل بگاڑنے کی کوششیں اپنی جگہ مگر جوبائیڈن بھی اس وقت مشکل میں آگئے جب ان کے بیٹے ہنٹر پر چین سے کاروباری تعلقات کا الزام لگا اور اس کی انکوائری شروع کر دی گئی، مبصرین کا خیال تو یہی ہے کہ جوبائیڈن اس مشکل سے بھی سرخرو ہو کر نکلیں گے اور دنیا کی سپر پاور کے سپر مین کے عہدے پر براجمان ہو جائیں گے۔

بھارت چین سرحدی جھڑپیں بھی گزرتے سال کا اہم واقعہ ہے، لداخ میں امریکہ کی طرف سے مستقل فوجی اڈے بنانے کی خبریں آنے کے بعد بھارت شیر ہو گیا اور اس کی فوج نے چینی علاقہ میں مداخلت کی غلطی کر دی، پھر ان کی جو درگت چینی فوجیوں نے بنائی اس کا نظارہ پوری دنیا نے کیا، چینی فوجیوں نے اسلحہ کے بجائے لاٹھیوں اور ٹھڈوں سے ان کی سیوا کی اور کافی حد تک بھارتی حدود میں داخل ہو کر اس علاقہ پر قبضہ کر لیا جس کے بارے میں عرصہ سے چین کا دعویٰ تھا کہ یہ اس کا علاقہ ہے جس پر چین قابض ہے، بھارت میں مسلمانوں کے بعد سکھوں کے خلاف متعصبانہ قوانین پر احتجاج کرتے سکھوں نے دہلی کا گھیراؤ کر لیا، بھارت میں زرعی شعبہ سے سکھوں کی اکثریت وابستہ ہے ان کو تنگ کرنے کیلئے مودی سرکار نے ظالمانہ قوانین منظور کر کے نافذ کئے تو سکھ بھڑک اٹھے اور دہلی کی طرف مارچ کی، آہستہ آہستہ پورے ملک کے کسان اس تحریک کا حصہ بن گئے، یہ گھیراؤ آج بھی جاری ہے جس پر بھارتی حکومت کی طرف سے ظلم و تشدد بھی ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں متعدد سکھ ہلاک ہو چکے ہیں، کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈونے بھی سکھ احتجاج کی حمایت کی جس پر بھارت بہت سیخ پا ہوا، مگر جسٹن ٹروڈو نے حق کا علم نہ چھوڑا اورسکھ مظاہرین کی حمایت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔

سال 2020ءکے آخری ماہ کاآخری عشرہ بھی اپنے انجام کو ہے دعا ہے نئے سال 2021ءکو عالم انسانی کیلئے باعث رحمت و برکت بنا دے اور مملکت خداداد پاکستان سمیت دنیا کے امن پسند ممالک کرونا کی وباءسے مستقل محفوظ ہو جائیں۔