ممتاز صحافی روف طاہر اور میرے روف بھائی جان کا جس سے بھی ناطہ و تعلق رہا، وہ سمجھتا تھا کہ وہ اسی کے سب سے زیادہ دوست اور خیر خواہ ہیں، نوائے وقت میں ان کا رپورٹنگ فیلو بننا ان سے میرے گہرے روابط کے آغاز کا موجب بنا اور پھر احترام و انسیت، محبت، پیار مضبوط ہوتا چلا گیا، انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح سمجھا۔ نوائے وقت میں ایک عرصہ اکٹھے رہے پھر وہ جدہ چلے گئے واپس آ گئے تو مختصرمیل ملاقات، ہیلو ہائے تو رہی مگر لمبی ملاقاتیں زیادہ نہ تھیں مگر جہاں اب گئے ہیں وہاں سے تو واپس بھی نہیں آئیں گے، اللہ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام دے۔ لگتا تھا میرا ان سے تعلق صدیوں پرانا ہے۔ نوے کی دہائی کے وسط میں نوائے وقت کا رپورٹنگ ڈیسک شام کو دیکھنے والا ہوتا، خبریں فائل کرنے کے بعد اپنی اپنی طرز کے سب رپورٹرز، ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا، سب ان دنوں استاد صحافی ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے مگر احترام کا دامن کوئی نہ چھوڑتا، ڈیسک کے روح رواں روف طاہر ہی ہوتے۔ بھاری اور گرجدار آواز کے ساتھ شعیب الدین کے ساتھ روف طاہر گفتگو کاآغاز کرتے، انکل کیا حال ہے۔ ہم سب پیار سے شعیب الدین کو انکل یا چاچو کہتے تھے۔ روف بھائی جان کا انکل کیا حال ہے کہنا ایک طرح ہیپی آواز کے آغاز کا اعلان ہوتا تھا۔ محترم سعید آسی، سکندر لودھی، جاوید یوسف، بدر منیر چودھری، خواجہ فرخ، سلمان جعفری، اسد علی اعوان، طاہر ملک، سیف اللہ سپرا سب گفتگو میں شامل ہو جاتے اور پھر خوب جمتی۔ نوائے وقت کے وہ دن بھی کیا خوب دن تھے۔
مرحوم، روف طاہرآج کے دور میں قرون اولیٰ کے انسان تھے، سچ یہ کہ اس دور نامراد میں، انکل کھرے انسان دبنگ لہجے میں گفتگو کرتے مگر دلیل کیساتھ، ان کی تحریریں ایک سیاسی تاریخ، انداز ایسا دلنشیں کہ ان کا کالم پڑھنا شروع کرتا تو پڑھتا ہی چلا جاتا، آج ان کو مرحوم لکھتے کلیجہ منہ کو آتا ہے، مدت دراز سے دشت صحافت کے صحرا نورد رؤف طاہر نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے مگر ثابت قدمی سے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا، ملک کے تمام مرکزی سیاستدانوں سے ذاتی مراسم کے باوجود کوئی ذاتی مفاد حاصل نہ کیا، ان کی ذات میں ایک کھرا اور محب وطن صحافی پوشیدہ تھا، اگر ان کو فطری صحافی کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔
اکثر سیاسی اختلاف کے باوجود مرحوم نے ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح پیشہ وارانہ امور سمیت زندگی کے ہر معاملہ میں بے لوث مشورے دئیے، راہنمائی کی، وہ ایک بلند پایہ صحافی تھے، متعدد قومی اخبارات میں پیشہ وارانہ خدمات انجام دیں، لیکن جناب مجیب الرحمٰن شامی کیساتھ ان کی رفاقت بہت ہی، دیرینہ اور مضبوط تھی، ایک مدت ہفت روزہ زندگی سے منسلک رہے، اس دوران شامی صاحب سے ایسا تعلق قائم ہواءجو مرتے دم تک قائم رہا اور کیا خوب قائم رہا، شامی صاحب کا حوالہ دیئے بغیر ان کا کالم اور گفتگو ادھوری رہتی۔ صحافتی خدمات کی ادائیگی کےلئے عازم سعودیہ ہوئے، ایک مدت وہاں قیام کیا، اس عرصہ میں نواز شریف بھی فیملی سمیت سرور پیلس میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے انہی دنوں نواز شریف سے ذاتی مراسم استوار ہوئے اور یہ تعلق بھی مرحوم نے ہی نہائت خوش اسلوبی سے نبھایا۔
سعودی عرب سے واپس وطن آئے تو شامی صاحب سے تعلق خاطر قائم رہا اور نبھتا رہا، روزنامہ جنگ میں اسی دوران کالم نویسی شروع کی، ان کے کالم آج بھی میرے جیسے صحافت کے طالب علموں کیلئے مشعل راہ ہیں، بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہو گی کہ متعدد سیاستدان ان سے اپنی سیاسی حکمت عملی پر مشورے کیا کرتے اور ان کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے، نواز شریف بھی ان سیاستدانوں میں شامل تھے، مرحوم کے نواب زادہ نصراللہ مرحوم سے خصوصی تعلقات تھے، جب نواب زادہ کا نکلسن روڈ پر مستقل ڈیرہ تھا ان دنوں روزانہ رؤف طاہر نواب زادہ کے ڈیرہ پر جاتے اور ان سے طویل گپ شپ کرتے، نواب زادہ بھی ان کی ملاقات کا ناغہ برداشت نہ کرتے تھے۔
رؤف طاہر کو صحافت کا درویش کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، نواز شریف دور میں ان کو ریلوے کا ڈی جی پبلک ریلیشز تعینات کیا گیا، تو مرحوم نے صحافیوں اور وزارت ریلوے کے درمیان مثالی تعلقات قائم کئے۔ جونئیرسینئر کی تمیز کئے بغیر جو صحافی بھی کسی کام کے سلسلے میں ان کے پاس جاتا مایوس نہ لوٹتا، مرحوم ایک درد مند انسان تھے کسی مشکل میں گرفتار کوئی صحافی ان کے پاس مدد کو آتا تو ہر ممکن اس کی مدد کیلئے بھاگ دوڑ کرتے، ماضی کی سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں معلومات کا خزینہ اپنے دل و دماغ میں رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے کالموں میں ماضی کی سیاست کا عکس بھر پور انداز سے دکھائی دیتا تھا، مرحوم ان اوصاف حمیدہ کے ساتھ ایک متقی اور پرہیز گار مسلمان بھی تھے، خدا خوفی بھی ان کاوصف تھی، نماز، روزہ کی پابندی کرتے، محفلوں اور تقاریب میں دوسروں کی عیب جوئی کے بجائے تعمیری گفتگو کرتے، شدید ترین مخالفین کے بارے میں بھی اچھا رویہ رکھتے، کسی کی دل آزاری سے گریز کرتے، دوستی اور تعلق کو آخری حد تک جا کر نبھانے کی کوشش کرتے، دوست تو دوست دشمن بھی ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتے۔
روف طاہر ملکی سیاسی تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا تو تھے ہی، دین اسلام اور اسلامی تاریخ سے بھی بخوبی آگاہ تھے، مرحوم کی ایک بہت بڑی خوبی ان کا بہت زیادہ پیدل چلنا بھی تھی، شائد اسی وجہ سے وہ صحت مند اور چاک و چوبند رہے، مرحوم ایک بہترین استاد بھی تھے، صرف جونئیر صحافیوں کیلئے نہیں بلکہ یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے طلباءکو بھی لیکچر دیتے رہے اور اس دوران ان کا رویہ اپنے طلباءسے ہمیشہ دوستانہ رہا، آج بھی ان کے طالب علم ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔
شامی صاحب، جامی صاحب کے ساتھ روف طاہر کا تعزیتی پروگرام کرتے ہوئے رودیئے، شامی صاحب آپ اکیلے نہیں روئے ہم سب بھی روف بھائی جان کے جانے پر روئے ہیں مگر، جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔