روزنامہ ایکسپریس کے سینئر تجزیہ کار لطیف چوہدری نے کورونا کی صورتحال پر اپنے تجزیے میں درست کہا ہے کہ ملک میں اموات کے کم ہونے پر ہمیں اللہ ہی کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ ہی ہماری حفاظت کرے گا، حکومت سے کوئی توقع نہیں۔ وزیر اعظم کیوں قوم کا وقت ضایع کر رہے ہیں۔ قوم کس کا خواب دیکھتی رہی ہے اور کس کو اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھتی رہی ہے۔
ایکسپریس کے سینئر تجزیہ کار جاوید چوہدری سے گفتگو میں گزشتہ سال اپنی آخری ملاقات میں ملک کے پہلے ٹی وی اینکر طارق عزیز نے اپنے 1997 کے سیاسی حریف عمران خان صرف پانچ ہزار ووٹ لے کر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار طارق عزیز سے بہت بری طرح ہارے اور تیسرے نمبر پر رہے تھے کہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی یہ توقع رکھی تھی کہ عمران خان ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں یہ ضرور کچھ نہ کچھ کریں گے اور ملک کے کامیاب ترین وزیر اعظم ثابت ہوں گے۔
مرنے سے قبل اگر طارق عزیز کی جاوید چاہدری سے چوتھی ملاقات ہو جاتی تو یقین تھا کہ مرحوم بھی مایوس ہو کر کہتے کہ عمران خان نے ملک و قوم کے دو سال ضایع کردیے اور قوم جنھیں اپنا نجات دہندہ اور مسیحا سمجھتی تھی وہ ایک خواب تھا کیونکہ کوئی انسان کبھی مسیحا نہیں ہو سکتا اور اصل مسیحا اللہ ہی ہے اور ہمیں ہر مشکل اور وبا میں اللہ ہی سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ اللہ ہی نجات دہندہ اور حقیقی مسیحا ہے۔
پی ٹی آئی سندھ کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے بھی کہا ہے کہ عمران خان کو اللہ نے سلیکٹ کیا ہے جبکہ ملک کی اپوزیشن انھیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سلیکٹڈ قرار دیتے ہیں۔
مولانا طارق جمیل کا کہنا ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں اللہ پاک انھیں ویسا ہی حکمران دیتے ہیں اگر مولانا اور اپوزیشن لیڈر سندھ درست ہیں تو سب کو انتظار کرنا ہوگا کہ اللہ ہی کی مرضی سے حکمران تبدیل ہوگا مگر عمران خان کی حکمرانی سے ثابت ہو چکا کہ ایمانداری کے دعویدار وزیر اعظم بھی ملک و قوم کے مسیحا اور نجات دہندہ ثابت نہیں ہوسکتے اور اللہ پاک ہی اصل مسیحا ہیں اور کورونا میں وزیر اعظم کی متضاد پالیسی سے نہیں بلکہ اللہ ہی کی مہربانی سے لاپرواہ عوام کے ملک میں ہلاکتیں کم ہوئی ہیں وگرنہ خود عوام اور حکومت نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اللہ کا خوف جب حکمرانوں، سیاستدانوں، ناجائز منافع خوروں اور عوام میں نہ ہو اور کورونا ہی عالمی وبا بھی ان میں خوف خدا پیدا نہ کر پائی ہو تو کسی سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس بھی قابل غور ہیں کہ کوئی ادارہ بظاہر کوئی کام نہیں کر رہا اور کورونا سے لوگ راتوں رات ارب پتی بن گئے ہیں، کوئی بندہ نہیں کہ ملک میں آٹا، چینی اور پٹرول کے بحران کو دیکھے۔ ملک کی معاشی پالیسی کا تو معلوم نہیں لوگ بڑی امیدوں سے تبدیلی لائے تھے مگر حال یہ ہے کہ وزیر اعظم کہتا ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ آمر ہے اس کی کیا وضاحت ہے؟ اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ اور حکومت کوئی ہے۔
سپریم کورٹ نے کورونا میں ملکی حالت دیکھ کر ہی ازخود نوٹس لیا تھا جس کی متعدد سماعتوں کے بعد چیف جسٹس پاکستان بھی یہ کچھ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ غلط طور پر فیور دے کر منظور نظر افراد کو دو دنوں میں ارب پتی بنا دیا گیا جبکہ بے روزگاری میں دیگر افراد کو سرکاری سہولیات نہیں ملتیں جبکہ ملک کے ہر ادارے کی حالت این ڈی ایم اے جیسی ہے۔
ادھر تبدیلی حکومت کے دور میں جاگیردار اور تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسوں میں زمین آسمان کا فرق نمایاں ہوا ہے اور (ن) لیگ دور میں تنقید کرنے والی پی ٹی آئی حکومت نے زرعی ٹیکس کی شرح میں مزید کمی کردی ہے اور دوسری حکومتوں کی دی گئی شوگر سبسڈی غلط قرار دینے والے عمران خان تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم نئے تھے ہم سے بھی چینی مافیا نے سبسڈی لے لی تھی چینی کے ایشو پر سب ادارے ملے ہوئے تھے تو تبدیلی حکومت کیا کرتی؟
کورونا کی عالمی وبا بھی وزیر اعظم اور صوبائی وزرائے اعلیٰ میں اتفاق و اتحاد پیدا کرسکی اور باہمی پالیسیوں اور من مانی کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی کوئی نہیں سن رہا وفاق اپنی پالیسی کو ہی بہتر قرار دے رہا ہے اور وزیر اعظم ملک کو تباہ کن صورتحال پر پہنچا کر بھی کہہ رہے ہیں کہ اگلا مرحلہ مشکل مگر ہمت نہیں ہارنی۔ عام آدمی نہیں سمجھ رہا کہ ایس او پیز پر عمل کتنا ضروری ہے احتیاط نہ ہونے سے اسپتالوں پر دباؤ بڑھ جائے گا مگر اسپتالوں اور طبی عملے کو ضروری سہولیات حکومت خود نہیں دے رہی۔ حکومت اپنی کوتاہیاں دیکھنے کے بجائے عوام ہی کو بے احتیاطی کا الزام دے تو پھر یہی کہا جائے گا کہ اللہ ہی اصل مسیحا ہے۔