وفاقی حکومت نے کراچی کے ارکان اسمبلی کے لیے 106 ارب 80 کروڑ روپے کے خصوصی ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کا اعلان کردیا ہے جس میں تین ارب چالیس کروڑ روپے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے لیے ریلیز بھی کردیے گئے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے ہر رکن سندھ اسمبلی کو تین تین کروڑ روپے ملیں گے۔
ارکان قومی اسمبلی کے فنڈز پی ڈبلیو ڈی اور سندھ اسمبلی کے ارکان کے فنڈز کے ایم سی کے ذریعے استعمال ہوں گے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی پریس کانفرنس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کراچی کے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور چھوٹی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو یہ فنڈز ملیں گے یا نہیں یا ملیں گے تو کتنے ملیں گے۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن)کے جن ارکان صوبائی اسمبلی نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات میں انھیں اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے انھیں بھی پنجاب حکومت دس دس کروڑ روپے کا ترقیاتی فنڈ فراہم کرے گی۔ (ن) لیگ کے صدر شہباز شریف نے اس اقدام کو سیاسی رشوت قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ بھی اپنی ایک آبزرویشن میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کو پہلے ہی غلط قرار دے چکی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور میں 2002 میں جو عام انتخابات کرائے تھے وہ غیر جماعتی بنیاد پر تھے۔ عام انتخابات سے قبل پرویز مشرف نے پہلی بار ملک کو اسمبلیوں کی غیر موجودگی میں جو ضلعی حکومتوں کا نظام دیا تھا وہ ملک کا پہلا بااختیار بلدیاتی نظام تھا جس کے انتخابات سے قبل صدر پرویز مشرف نے صاف کہہ دیا تھا کہ ارکان اسمبلی کا اصل کام قانون سازی ہے سڑکیں، گلیاں، نالیاں بنوانا اور فراہمی و نکاسی آب نہیں ہے۔
عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی بلدیاتی عہدیداروں کی ذمے داریوں میں آتا ہے یہ کام قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور سینیٹروں کا نہیں ہوتا کہ انھیں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز دیے جائیں۔ یہ فنڈز ان کا حق نہیں بلکہ سیاسی رشوت ہے جو سیاسی حکومتیں ارکان اسمبلی کو نوازنے کے لیے دیتی آئی ہیں اس لیے انھیں آیندہ ایسے فنڈز نہیں ملیں گے کیونکہ ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کا ہی حق ہے۔
وزیر اعظم عمران خان بھی اقتدار میں آنے سے قبل ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے سخت خلاف تھے لیکن اقتدار میں وہ ارکان قومی اسمبلی کی حمایت کے باعث آئے تھے اس لیے انھوں نے اپنے اس موقف سے بھی انحراف کیا اور اپنے موقف میں تبدیلی لاکر اب انھوں نے بھی ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے شروع کردیے ہیں۔ عمران خان سے قبل پرویز مشرف نے بھی اپنے سابقہ موقف سے یوٹرن لیا تھا اور 2002 کے بعد جب اپنے حامی ارکان اسمبلی کے ذریعے انھوں نے مسلم لیگ (ق) بنوا کر اپنی حکومت بنوائی تھی تو ملک میں بااختیار ضلعی حکومتیں تھیں جن کے ناظمین مالی و انتظامی طور پر بااختیار تھے جن کے اوپر صوبائی وزیر بلدیات تو تھے مگر وہ ناظمین کے حاکم نہیں تھے نہ ان کے خلاف کسی بھی کارروائی کا اختیار رکھتے تھے نہ وہ محکمہ بلدیات کے محتاج تھے اور ان کے معاملات قومی تعمیر نو بیورو دیکھتا تھا جس کے سربراہ دانیال عزیز چوہدری تھے اور این آر بی کا دفتر اسلام آباد میں تھا جس کے ارکان بائیس گریڈ کے افسران تھے جن سے راقم کو اسلام آباد میں ضلعی حکومتوں کے معاملات پر گفتگو کا موقعہ بھی ملا تھا۔
اس وقت وفاقی وزارت بلدیات تھی جو ملک بھر میں یوسیز کے ماتحت پنچایت کمیٹیوں کے معاملات دیکھتی تھی اور ان پنچایت کمیٹیوں نے لوگوں کے باہمی تنازعات، طلاق و خلع و دیگر عدالتی معاملات حل کرائے تھے جس سے عدالتوں پر ایسے مقدمات کا بوجھ کم ہوا تھا اور لوگوں کے باہمی تنازعات کسی خرچے اور وقت ضایع ہوئے بغیر حل ہوجاتے تھے مگر موجودہ یوسیز میں پنچایت کمیٹیوں کا وجود ہی نہیں ہے اور لوگ پریشان ہیں۔ پرویز مشرف نے کمشنری نظام ختم کرکے صوبائی سیکریٹریوں، کمشنر و ڈپٹی کمشنر سطح کے افسروں کو ہر ضلع میں ڈی سی او بناکر منتخب ناظمین کے ماتحت کردیا تھا جس کی بیورو کریسی کو بہت تکلیف تھی اور ضلعی ناظم اپنے ان ماتحتوں کے تبادلے بھی کرا دیتے تھے۔
نام نہاد سیاسی حکومتوں میں بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی میں بڑی گاڑھی چھنا کرتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے مالی و سیاسی مفادات کا تحفظ اور خیال کرتے تھے۔ ارکان اسمبلی اپنے بنگلوں پر کمشنر و ڈپٹی کمشنروں کو بلا کر ان کی خدمت کرکے اپنے حلقوں میں عوام پر رعب و دبدبہ برقرار رکھا کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد سے ہر ڈپٹی کمشنر کو اس کے ضلع کا بادشاہ قرار دیا جاتا تھا اور وہی ارکان اسمبلی کے نزدیک کمشنر سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوتا تھا جو اپنے ضلع کے کہنا نہ ماننے والے ڈسٹرکٹ سیشن جج کو بھی تبدیل کرادیا کرتا تھا، اس لیے ارکان اسمبلی کے نزدیک ڈپٹی کمشنر اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو ضلع کے ترقیاتی کاموں میں اپنے من پسند ارکان اسمبلی کو نہ صرف اہمیت دیتا ہے بلکہ ضلع کی مختلف کمیٹیوں میں بھی شامل کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ان کی غیر قانونی حرکات پر بھی تحفظ فراہم کرنے میں مددگار و معاون ثابت ہوتا ہے اس لیے ارکان اسمبلی کے لیے ڈپٹی کمشنر سے اچھے تعلقات برقرار رکھنا ضروری اور ان کی سیاست کا تقاضا ہوتا ہے۔
اگر پرویز مشرف اپنے اصول پر قائم رہتے تو وردی میں صدر منتخب کیے جاتے نہ طویل عرصہ اقتدار میں رہتے اس لیے وہ ارکان اسمبلی کو ناظمین پر اہمیت دینے پر مجبور ہوئے اور انھیں ترقیاتی فنڈز دینے پر راضی ہوئے تھے اور انھوں نے ناظمین کے اختیارات محدود کرا دیے تھے۔ پارلیمانی نظام میں اہمیت بلدیاتی عہدیداروں کی نہیں بلکہ ارکان اسمبلی کی ہوتی ہے اور ارکان اسمبلی قانون سازی پر توجہ دینے کے بجائے اپنے حلقے کے تعمیری و ترقیاتی کاموں کو اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں اور اسی لیے انھیں سیاسی حکومتیں غیر قانونی طور پر ترقیاتی فنڈ دیتی ہیں جس سے گھر بیٹھے معقول کمیشن ملتا ہے اپنے لوگوں کو ٹھیکے دلا کر انھیں فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور اقربا پروری کرکے وہ اپنے پسندیدہ علاقوں میں تعمیری کام کرا کر اپنے ووٹ پکے کر لیتے ہیں۔
ارکان اسمبلی کی سیاسی وفاداری تبدیل کرانے کا یہ اہم ہتھیار بھی حکومت کے پاس ہوتا ہے اور حکومت اپنا حق سمجھتی ہے کہ جس رکن اسمبلی کو چاہے ترقیاتی فنڈ دے جو ناپسندیدہ ہو اسے نہ دے یا آسرے پر رکھے اور یہی بلیک میلنگ ہر حکومت میں ہوتی آئی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ بلدیاتی عہدیداروں کو بھی اگر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کا اختیار ملا ہوتا تو حکومتوں کو ارکان اسمبلی کی حمایت جاری رکھنے کی مجبوری ہوتی نہ انھیں ترقیاتی فنڈز دینے پڑتے اور محض قانون سازی کے لیے لوگوں کو اسمبلیوں کے نام پر منتخب ہونا پڑتا۔