سینیٹ میں حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک لیٹر پٹرول پر 47.86 اور ڈیزل پر 51.41 روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے، جس کے باوجود خطے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یہاں سب سے کم ہیں۔ یہ اعتراف اسی حکومت کے وزیر توانائی نے کیا جس نے جون ختم ہونے سے قبل ہی پٹرول پر اچانک سب سے زیادہ 25 روپے فی لیٹر اضافہ کیا تھا اور عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات میں سب سے زیادہ کمی کا فائدہ عوام کو نہیں دیا تھا جب کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور رہنما سابق حکومتوں کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت بڑھانے پر تنقید اور الزام تراشی کیا کرتے تھے اور عالمی نرخوں کی مثال دیا کرتے تھے کہ ماضی کی حکومتیں عوام دشمنی کرکے عوام کو بے جا ٹیکس لگا کر پٹرولیم مصنوعات مہنگی فروخت کرا رہی ہیں جس سے ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے۔
ماضی میں اقتدار میں رہنے والی ہر حکومت نے یہی طریقہ اختیار کیا، پٹرولیم مصنوعات پر سب سے زیادہ ٹیکس عائد کرکے انھیں حکومتی کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ بنائے رکھا۔ دنیا میں پٹرولیم قیمتیں کم ہوئیں تو پاکستان میں فوری قیمت کم نہیں کی گئی اور اگر عالمی سطح پر نرخ بڑھے تو ملک میں فوراً نرخ بڑھانے میں دیر نہیں کی گئی اور عوام کو عالمی سطح پر ملنے والے ریلیف سے محروم رکھا گیا جو ماضی اور موجودہ حکومتوں کی عوام دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔
پی ٹی آئی کی سیاست کا محور ہی سابقہ حکومتوں پر الزام تراشی رہا اور ہر حکومتی اقدام اور حادثات اور مہنگائی بڑھنے کے الزامات لگا کر وزرائے اعظم اور وزیروں سے مستعفی ہونے کے مطالبے کیے جاتے تھے اور اس وقت کے حکمرانوں کو جھوٹا، چور، ڈاکو اور عوام دشمن قرار دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا تھا۔
موجودہ حکمرانوں کی طرف سے ماضی کے حکمرانوں پر ایسے الزامات اس شدت اور ڈھٹائی سے لگائے گئے کہ عوام ان پر سو فیصد یقین کرنے پر تیار ہوئے اور انھوں نے ایمانداری کے دعویداروں کی سچائی پر یقین کرکے انھیں آزمانے کا فیصلہ کیا کہ شاید ان دعویداروں کے آنے کے بعد ملک و قوم کی قسمت بدل جائے مگر سچائی کے دعویداروں کی دو سال میں ہی قلعی مکمل طور پر کھل گئی اور دو سالہ عذاب برداشت کرنے کے بعد عوامی توقعات کا پانسہ ہی پلٹ گیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ موجودہ سے ماضی کے چور، ڈاکو، جھوٹے اور عوام دشمن ہی اچھے تھے جو عوام کو مارتے تو تھے مگر مار کر سائے میں تو ڈال دیتے تھے جب کہ موجودہ حکمران عوام کو دو سال سے مارتے بھی آ رہے ہیں اور انھیں سائے میں بھی نہیں ڈال رہے اور دھوپ میں ڈال کر دو سال میں بھی یہ کہتے نہیں تھک رہے کہ وہ یہ سب کچھ ماضی کے حکمرانوں کی وجہ سے کر رہے ہیں۔
بے شمار دعوے کرکے حکومت میں آ کر تبدیلی لانے میں ناکام حکمرانوں نے ملک میں مہنگائی بڑھانے کے سوا کچھ بھی کرکے نہ دکھایا اور عوام کی توقعات کے برعکس اب تک ہر وہ کام کیا جاچکا ہے جس کا پی ٹی آئی کے منشور میں ذکر تھا نہ عمران خان نے ایسا کوئی وعدہ کیا تھا۔
اپنا ہر کام، اپنے اعلانات کے برعکس یو ٹرن پہ یوٹرن لینے والے وزیر اعظم سے عوام کو دو سال سے صرف یہی سننے کو ملا ہے کہ "گھبرانا نہیں ہے" ملک پر ریکارڈ عالمی قرضوں کا بوجھ بڑھانے والوں کی معاشی ٹیم کی ناکامی پہ ناکامی، نئے نئے تجربات، چھوٹی کابینہ کی بجائے اپنے دوستوں کو نواز کر حکومتی اخراجات بڑھانے اور سب سے زیادہ غیر منتخب مشیر و معاون خصوصی مقرر کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کرنے والی تبدیلی حکومت دو سالوں میں عوام کو تو ریلیف نہ دے سکی مگر پنجاب اور وفاق میں سب سے زیادہ حکومتی ترجمان صرف اس لیے مقرر کیے گئے کہ وہ جھوٹ اور ڈھٹائی کا نیا ریکارڈ بنائیں اور اپوزیشن کو رگیدنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
ماضی کے حکمرانوں سے کرپشن وصولی کی حکومتی ٹیم کے پاس صرف دعوے ہی رہے اور حکمرانوں نے جھوٹے دلاسوں اور مہنگائی کے سوا کچھ نہیں دیا، البتہ وزیر اعظم نے ہر معاملے پر ایکشن ضرور لیا جس کا نتیجہ چینی، آٹا، دواؤں، پٹرولیم مصنوعات کی قلت اور مزید مہنگائی کی صورت میں ہی نکلا اور عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر وزیروں کے دعوے ختم ہو رہے ہیں نہ کہیں سچائی نظر آئی ہے۔
عوام کو صرف اس لیے برداشت کیا جا رہا ہے کہ ان سے جھوٹ پر جھوٹ بول کر انھیں سنہری خواب دکھا کر، ماضی کے حکمرانوں کو بدنام اور خود کو عوام کا سب سے زیادہ مخلص دکھا کر گمراہ کیا جائے ووٹ لیے جائیں اور اقتدار میں آکر ووٹ دینے والوں کی زندگی اجیرن کردی جائے کہ عوام ایسی جمہوریت سے ہی تائب ہوجائیں جس میں عوام کے ذریعے اقتدار میں تو آیا جاسکتا ہے مگر اپنا کوئی بھی عوامی بھلائی کا وعدہ پورا نہیں کیا جاتا اور عوام پہ صرف مہنگائی، اقربا پروری اور جھوٹوں کا مزید بوجھ لاد کر تسلی دی جاتی ہے کہ "گھبرانا نہیں ہے"۔
عوام دو سالوں سے ملک میں تبدیلی لانے کے دعویداروں کا تماشا، جھوٹ، ڈھٹائی اور جان بوجھ کر پیدا کی جانے والی مہنگائی اور بے روزگاری دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کا کام سیاسی رہنماؤں کے بہکاوے میں آکر صرف ووٹ دینا اور حکمرانوں کے مظالم برداشت کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ماضی کی کسی بھی حکومت میں عوام کے ساتھ یہ مظالم اور ناروا سلوک کبھی نہیں ہوا جو تبدیلی حکومت میں ہوا ہے۔ کیا عوام جھوٹی سیاسی اور مظالم سہنے کے لیے ووٹ دیتے ہیں اور عوام کا کام سیاستدانوں پر یقین کرنا اور ووٹ دینا ہی رہ گیا ہے۔
انتخابات سے بددل لوگ عمران خان کو آزمانے نہیں حقیقی تبدیلی کے لیے ووٹ دینے نکلے تھے مگر ان کے خواب چکنا چور کردیے گئے۔ تبدیلی عوام کی حالت بدلنے کی نہیں ماضی کی طرح اپنوں کو نوازنے کی آئی اور عوام ووٹ دے کر حکمرانوں کے مظالم پہلے بھی سہتے تھے مگر اب تو عوام دشمنی کی انتہا کردی گئی ہے اور عوام کی سابق حکومت سے 5 سالوں میں اتنے مایوس نہیں ہوئے جتنے تبدیلی کی آس میں موجودہ حکومت کے دو سالوں میں مایوس ہوگئے ہیں۔