ملک میں جاری جمہوریت اگرچہ بے شمار سیاسی، اخلاقی اور غیر قانونی پابندیوں کا شکار ہے مگرکم تعلیم یافتہ پاکستانیوں میں سیاسی شعور مسلسل بڑھ رہا ہے جس کا ثبوت ملک میں ہونے والے بڑے بڑے سیاسی جلسے اور مختلف مذہبی اجتماعات ہیں جن میں ملک میں تشویش ناک ہو جانے والی کورونا کی مہلک وبا بھی کمی نہیں لا سکی اور لوگوں کی بڑی تعداد کورونا ہلاکتوں میں شدید اضافے کے باوجود بے دھڑک شریک ہو رہی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ کورونا لیڈروں اور عوام میں تفریق نہیں کرتا، اس لیے عوام کو سیاسی اجتماعات سے خود کو دور رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس وبا سے محفوظ رہیں اوردوسروں کو بھی متاثر نہ کریں۔ وزیر اطلاعات کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا ہے کہ حکومت بتائے کہ جلسوں میں شریک ہونے والے کتنے افراد کوکورونا ہوا ہے۔ حکومت کے پاس اس سلسلے میں کوئی ڈیٹا ہے تو عوام کو بتایا جائے محض اپوزیشن کے جلسوں کو بنیاد بنا کر عوام کو خوف میں مبتلا کرنے کی بے بنیاد کوشش نہ کی جائے۔
اپوزیشن کے جلسوں میں شرکت سے روکنے کے لیے وزیروں کی طرف سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ لوگ خود کوگھروں میں محدود رکھیں اور خود کو اور دوسروں کو بھی کورونا سے محفوظ رکھیں۔ حکومت کا موقف درست بھی ہے مگر انتظامی کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی ہے جس کا ثبوت بڑے اپوزیشن جلسوں کو ناکام کہنا یا جلسی کہنا بھی ہے۔ میڈیا سے لوگوں کو خود پتا چل جاتا ہے کہ کس کا جلسہ کیسا رہا اور کس کو عوام نے مسترد کیا مگر سرکاری حلقے اپنے جلسوں کو کامیاب اور مخالف جلسوں کو ناکام قرار دے کر خود اپنا مذاق اڑا رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ تین سیاسی حکومتوں نے اپنی مقررہ مدت مکمل کی جس کے نتیجے میں ملک میں ووٹ دینے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو بڑھتے ہوئے سیاسی شعورکا ایک واضح ثبوت ہے۔
ملک میں باری باری حکومتیں کرنے والی دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پیش پیش رہی ہیں جن کی باریوں سے بے زار ہو کر 2018 میں لوگوں کو تحریک انصاف کو آزمانے کا موقعہ بھی ملا۔ 2008 سے قبل تک یہ بھی ہوتا رہا کہ وفاق میں کسی بھی پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا عوام نے موقعہ نہیں دیا مگر ملک و قوم نے یہ بھی دیکھا کہ پہلی بار 2008میں چاروں صوبوں میں مسلم لیگ (ق) کی جو حکومت تھی وہ وفاقی سمیت ہر جگہ الیکشن ہار گئی حالانکہ جنرل پرویز مشرف کی صدارت اور (ق) لیگ کے دور میں مہنگائی، بیروزگاری کی وہ حالت نہیں تھی جو 2008میں تھی۔
ملک میں خوشحالی اور ارزانی بھی تھی اور جمہوریت بھی آج سے بہت بہتر تھی مگر (ق) لیگ چند علاقوں تک محدود ہو گئی اور وفاق میں پیپلز پارٹی نے اپنی مخلوط حکومت بنائی جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پی پی، کے پی میں اے این پی اور پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں پی پی کی مخلوط حکومت بنی۔ کے پی میں مجلس عمل دوبارہ نہ آ سکی۔
2013 میں عوام نے اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کر کے جہاں پنجاب اور سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی کو منتخب کیا تو کے پی میں پہلی بار تحریک انصاف کو منتخب کیا جس نے مخلوط حکومت بنائی اور باقیوں کے ساتھ اپنی مدت پوری کی۔
2018 میں پہلی بار خیبرپختونخوا کے عوام نے پی ٹی آئی کو پہلے سے بھی زیادہ اکثریت دلائی جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے تیسری بار مسلسل کامیابی کا ریکارڈ قائم کیا جب کہ پنجاب میں تیسری بار اکثریت لینے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو حکومت بنانے نہیں دی گئی کیونکہ وہ وفاق میں زیادہ نشستیں لے کر ناکام رہی تھی۔ 2018 میں اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ پی ٹی آئی کو وفاق، پنجاب اور کے پی میں زیادہ کامیابی دلا کر عوام نے کیا اور تحریک انصاف کو اپنے اعتماد سے نوازا جو اپنی مدت کے سوا دو سال گزار چکی ہے مگر مخالفین کے مطابق حکومت اپنی پالیسی کی وجہ سے سیاسی تنہائی کا شکار ہو چکی ہے۔
ملک کے عوام وفاقی سطح پر ہمیشہ وفاقی پارٹیوں کے حامی رہے ہیں اور بلوچستان کے سوا کہیں بھی علاقائی پارٹیوں کے حامی نہیں اور اس کی وجہ بھی بلوچستان کی صورت حال ہے جہاں اب کوئی بھی وفاقی پارٹی تنہا صوبائی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہی اور سیاسی تقسیم بڑھائی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں سیاسی شعور دیگر صوبوں سے کم ہے اور وہاں بڑی پارٹیوں کے بجائے بالاتروں کی زیادہ چلتی ہے جو راتوں رات اپنی من پسند پارٹی بنوا کر اسے اقتدار میں لے آتے ہیں اور ان کے ہاتھوں بڑی پارٹیاں استعمال ہو جاتی ہیں۔ بلوچستان کی سیاسی صورتحال دیگر صوبوں سے مختلف ہے اور ملکی سیاست پر اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں کبھی نہیں رہی۔
ملک میں کورونا سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا خوف کسی صوبے میں نظر نہیں آیا بلکہ لوگ سیاسی پارٹیوں سے بھی آگے نکل کر اپوزیشن کے جلسوں میں شریک ہوئے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو کسی سیاسی جلسے میں شرکت نہیں کرتی بلکہ گھر بیٹھے سیاسی جلسوں میں کی جانے والی تقاریر سنتی ہے اور اپنی رائے قائم کر کے فیصلے کرتی ہے جب کہ سیاسی پارٹیوں کے کارکن اپنے مشترکہ جلسوں میں حاضری یقینی بناتے ہیں۔
گھنٹوں اپنے اپنے قائدین کا انتظار کرتے ہیں جب کہ سیاسی تسکین کے لیے اپنا وقت اور پیسہ بھی لگاتے ہیں اور سیاسی صعوبت بھی برداشت کرتے ہیں اور اپنے سیاسی شعور کا برملا اظہار کرتے ہیں اور ووٹ دینے کے لیے بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ لوگ اپنے سیاسی شعور سے اپنی پسندیدہ پارٹیوں کا ساتھ دے رہے ہیں، لگتا ہے کہ وہ اب کسی پارٹی کے کہنے پر نہیں خود اپنی مرضی سے تبدیلی لائیں گے جو ان کے بڑھتے سیاسی شعور کا عملی مظاہرہ ہو گا۔