سندھ اسمبلی کے منظور کردہ بے اختیار اور مفلوج بلدیاتی نظام کی کراچی کے سیاسی میئر تو چار سال سے شکایتیں ہی کرتے آرہے ہیں، جسے پی پی کی سندھ حکومت نے کبھی اہمیت نہیں دی اور اسے ایم کیو ایم اور میئرکراچی کا ہمیشہ سیاسی واویلا قرار دیا۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ سندھ میں بلدیاتی عہدیداروں کی سب سے بڑی تعداد پی پی رہنماؤں کی ہے اور کراچی کے تین اضلاعی چیئرمینوں، سکھر ولاڑکانہ کے میئروں اور تمام سندھ کے اندرونی اضلاع کی ضلعی کونسلوں، میونسپل کمیٹیوں اور زیادہ تر ٹاؤن اور یوسیز چیئرمینوں کا تعلق سندھ کی حکمران جماعت سے ہے، مگرکبھی کسی ایک جیالے بلدیاتی عہدیدار نے اختیارات نہ ہونے کا رسمی بیان تک نہیں دیا۔
سندھ اسمبلی نے جب سندھ کے لیے بے اختیار اور مفلوج بلدیاتی نظام منظور کیا تھا، اس وقت سندھ کے وزیر بلدیات موجودہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی تھے، جن کا شمار آصف زرداری کے انتہائی قابل اعتماد دوستوں میں ہوتا ہے جو 1988 میں بھی سندھ کے با اثر وزیر بلدیات تھے۔
انھوں نے موجودہ بلدیاتی نظام میں اپنے چھوٹے بھائی آغا مسیح الدین درانی کو ضلع کونسل شکارپورکا چیئرمین منتخب کرایا تھا جو 4 سال ضلع چیئرمین رہے اورگزشتہ دنوں انھوں نے ضلع کونسل شکار پور کا الوداعی اجلاس منعقد کیا جس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ کے بلدیاتی نظام کے بے اختیار ہونے کا بھانڈا پھوڑ دیا جس کی تعریف سندھ کی حکومت کرتے نہیں تھکتی۔
سندھ کے سابق وزیر بلدیات اور موجودہ وزیر تعلیم سعید غنی جو سابق ضلعی نظام میں یوسی ناظم رہ چکے ہیں، بڑی معصومیت سے کہہ رہے ہیں کہ سندھ حکومت نے قانون کے مطابق میئر کراچی کو اختیارات دے رکھے ہیں مگر نہ جانے وہ کیوں مطمئن نہیں ہیں۔
اسپیکر سندھ اسمبلی کے حقیقی بھائی آغا مسیح خان درانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عوام کی خدمت عبادت ہے مگر میں آج تسلیم کرتا ہوں کہ موجودہ بلدیاتی سسٹم نے مجھے کام کرنے نہیں دیا اور میری راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں جس کی وجہ سے میں اپنی خواہش کے مطابق عوام کی خدمت نہ کرسکا۔ میں جو کام کرنا چاہتا تھا اس کی تکمیل نہ ہوسکی جس کا ذمے دار موجودہ لوکل گورنمنٹ سسٹم ہے۔
اگر بلدیاتی نظام کو عوام کے مفاد کے لیے آزاد اور بااختیار بنا دیا جائے تو عوام کے کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں ضلع کونسل شکارپورکے اکاؤنٹ میں 44 کروڑ روپے چھوڑ کر جا رہا ہوں، اب سندھ حکومت، شکارپور انتظامیہ اور بیوروکریسی کی مرضی ہے کہ وہ یہ خطیر رقم عوام کی بھلائی کے لیے استعمال کرے یا کاغذی کارروائیاں دکھا کر ہضم کر جائے۔
28 اگست تک برقرار رہنے والے ضلع کونسل شکارپور کے چیئرمین کا یہ بیان موجودہ بلدیاتی نظام کے بے اختیار اور مفلوج ہونے کی سرکاری تصدیق اور بطور چیئرمین ناکامی کا اعتراف ہے جو پیپلز پارٹی کے بااثر رہنما نے کیا ہے۔ بلدیاتی سسٹم کی بے اختیاری کا رونا چار سال سے ایم کیو ایم کے رہنما اور بلدیاتی عہدیدار ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی سندھ اور اس کے گورنر اور یوسی چیئرمین بھی کرتے آ رہے ہیں مگر 4سالوں میں سندھ حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔
میئر کراچی کا یہ شکوہ سو فیصد بجا ہے کہ آئین کے تحت بلدیاتی اختیارات کے حصول کے لیے 2017 میں، میں نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی اور میں اس ماہ اپنی مدت پوری کر رہا ہوں مگر تین سالوں میں میری درخواست کی سماعت کی نوبت نہیں آئی۔ مجھے میئر شپ کی جان چھوڑنے کا بھی کہا جاتا ہے جب کہ میں کراچی کے عوام کا وہ منتخب میئر ہوں جو جیل میں ہوتے ہوئے میئر منتخب ہوا تھا، اس عرصے میں سندھ حکومت نے اختیارات دیے نہ ہی عدلیہ کے ذریعے میئر کراچی کو آئینی اختیارات کا فیصلہ ملا، البتہ مجھے درجنوں مقدمات کا اب بھی سامنا ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر کو بھی شکایت ہے کہ جماعت اسلامی نے طویل عرصہ قبل سندھ اور کراچی کے آئین کے تحت بلدیاتی اختیارات کے حصول کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا مگر میری درخواست کی سماعت ہی شروع نہ ہوسکی۔
کئی فاضل جج صاحبان نے کراچی کے مسائل پر متعدد احکامات اور ریمارکس دیے اور سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کی کارکردگی پر کڑی تنقید بھی کی ہے مگر پھر بھی بلدیاتی اختیارات کا معاملہ سالوں سے اٹکا ہوا ہے حالانکہ بلدیاتی اختیارات سپریم کورٹ دلا سکتی ہے جس کے حکم پر ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔
سندھ سمیت کوئی بھی صوبائی حکومت اپنے صوبوں میں بلدیاتی الیکشن چاہتی ہیں نہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنا کر بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق اختیارات دینا چاہتی ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے ارکان اسمبلی کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے، جنھیں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ترقیاتی کاموں کے نام پر ہر سال کروڑوں روپے کی سیاسی رشوت دیتی آ رہی ہیں جسے سپریم کورٹ غیر قانونی قرار دے چکی ہے مگر یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے مگر اس غیرقانونی اقربا پروری اور ارکان اسمبلی کو نوازنے پر کبھی کسی حکومت کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد کسی صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو اختیارات دیے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل ہو رہی ہے۔