وفاقی کابینہ نے بجلی تقریباً چھ روپے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ کے سربراہ وہی عمران خان ہیں جو وزیر اعظم بننے سے پہلے بجلی مہنگی کرنے پر تنقید کرتے تھے اور دھرنے میں بجلی کے بل جلا کر عوام سے بجلی کے بل جمع نہ کروانے کا درس دیتے تھے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر 6مرحلوں میں یہ اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور حکومت رواں سال اکتوبر تک 884 ارب روپے اضافی ریونیو اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت بجلی کی آمدنی پر 10 فیصد کے برابر سرچارج وصولی کے لیے نیپرا کے ایکٹ میں ترمیم بھی منظورکرچکی ہے جس سے بجلی سات روپے تک مزید مہنگی ہو جائے گی۔
حکومت آئی ایم ایف کو 3.60 روپے سالانہ بجلی میں اضافے کی یقین دہانی بھی کرا چکی ہے۔ کابینہ کے فیصلے پر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی جب کہ فروری میں مہنگائی میں پہلے ہی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
موسم گرما میں بجلی کا استعمال بڑھنے سے اجرتوں پر مذاکرات اور بجٹ میں نئے ٹیکس کے اقدام سے رسدی دھچکوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ بات ملک کی اپوزیشن نے نہیں بلکہ ملک کے سب سے اہم مالیاتی ادارے اسٹیٹ بینک نے آیندہ دو ماہ کے لیے جاری کی گئی، مانیٹری پالیسی میں کہی ہے جو حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
حکومت اپنے اقتدارکو برقرار رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کے حکم پر ڈھائی سال سے مسلسل بجلی مہنگی کرکے عوام دشمنی کرتی آ رہی ہے تاکہ اسے مزید عالمی قرض مل سکے جب کہ حکومت ڈھائی سالوں میں اتنے غیر ملکی قرضے لے چکی ہے جتنے مسلم لیگ (ن) کے مطابق ان کی تین حکومتوں میں نہیں لیے گئے تھے۔ حکومت کہتی آ رہی ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے لیے گئے قرضے اتارنے کے لیے ہمیں یہ نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے آتے ہی اس کے وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے خلاف تھے جس پر انھیں ہٹا کر آئی ایم ایف سے بلا کر عبدالحفیظ شیخ کو لایا گیا تاکہ ان کی وجہ سے عالمی قرضے آسانی سے مل سکیں۔
اسد عمر نے اس ملک میں سیاست کرنی ہے جب کہ حفیظ شیخ سیاستدان نہیں کہ انھیں کبھی عوام کے پاس جانا پڑے۔ خود عمران خان عالمی قرضوں کے خلاف تھے اور انھوں نے عالمی قرضے نہ لینے کا واضح اعلان بھی کیا تھا مگر وزیر اعظم بننے کے بعد انھیں اپنی تقاریر یاد ہیں نہ اب وہ اپنے پرانے موقف پر ہیں بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد موجودہ حکومت نے اتنی مہنگائی بڑھا دی ہے جو ماضی کی کسی حکومت میں نہیں تھی اور اب اسٹیٹ بینک بجلی کی قیمتیں بڑھائے جانے پر مہنگائی میں مزید اضافے کی وارننگ دے چکا ہے اور حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ مہنگائی بڑھی ہے۔ وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں صاف کہا ہے کہ اب زیادہ محنت کرنا ہوگی اور مہنگائی کنٹرول کرنا اب حکومت کی پہلی ترجیح ہوگی۔
عوامی حلقے حیران ہیں کہ صرف دو روز بعد کابینہ نے اپنے ایک اور اجلاس میں آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی سات روپے فی یونٹ تک اچانک مزید مہنگی کردی اور وزیر اعظم اور ان کی کابینہ تو مہنگائی پر کنٹرول کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے چکی تھی۔ وفاقی کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے 140 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کی بھی منظوری دی اور آیندہ پانچ روز بعد ہونے والے کابینہ کے اجلاس کا بھی انتظار نہیں کیاگیا اور عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ بڑھا دیا گیا۔
تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کے وزیر اعظم سے توقع تھی کہ وہ بجلی اور گیس سستی کریں گے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ماضی کی طرح نہیں بڑھائیں گے۔ پہلے سے مقروض قوم پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ہلکا کریں گے نئے قرضے نہیں لیں گے۔ وفاقی کابینہ 17 رکنی ہوگی۔ حکومتی اخراجات کم کیے جائیں گے مگر یہ سب کچھ عمران خان کے کیے گئے اعلانات کے برعکس ہوا۔ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے کیونکہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ ہی مہنگائی بڑھنے کی واحد وجہ ہوتی ہے۔
گزشتہ حکومتوں پر جس وجہ سے عمران خان تنقید کرتے تھے آج ان کی حکومت وہی کچھ کر رہی ہے۔ عمران خان کے بقول پاکستان شریف خاندان اور زرداری کو امیر بنانے کے لیے نہیں بنا تھا جن کی کرپشن اور قرضے واپس نہ کرنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ تیس سال تک ملک کا پیسہ چوری ہوتا رہا تو موجودہ ڈھائی سالوں میں کرپشن کم یا ختم ہوئی ہے تو اب مہنگائی کیوں بڑھائی جا رہی ہے؟ چوروں کے دور میں اتنی مہنگائی نہیں تھی جتنی ایماندار وزیر اعظم کے دور میں مسلسل بڑھ رہی ہے تو کیا ماضی کی حکومتیں بہتر نہیں تھیں؟
موجودہ حکومت نے بھی بجلی کی چوری روکنے پر بالکل توجہ نہیں دی بلکہ بجلی و گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے پر ہی توجہ دی جس سے مہنگائی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ کے الیکٹرک کے ایک سابق سربراہ جو ریٹائرڈ فوجی افسر تھے نے کہا تھا کہ بجلی کے نرخ بڑھانے کے بجائے بجلی چوری روکی جائے۔ سستی بجلی چوری کم ہوگی مگر تبدیلی حکومت بجلی چوری روکنے پر توجہ نہیں دے رہی بلکہ بجلی مزید مہنگی کر رہی ہے جس کی وجہ سے بجلی کی چوری عوام کی مجبوری بن گئی ہے مگر حکومت کو سمجھ نہیں آرہی۔