عالمی وبا کورونا وائرس سے جہاں لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں، وہاں مسلمانوں کے لیے اللہ کا اپنا مہینہ کہلانے والا ماہ صیام بھی متاثر ہوا اور دو رمضان المبارک کورونا میں گزرے مگر مسلمانوں کے ایمان کو یہ عالمی وبا متاثر نہ کرسکی۔
گزشتہ سال کورونا کا خوف اتنا تھا کہ حکومتی ایس او پیز پر عمل کیا جا رہا تھا جو اب دوسرے رمضان المبارک میں نہ مسلمانوں میں کورونا کا کوئی خوف ہے، نہ سرکاری ایس او پیز پر عمل۔ گزشتہ سال کورونا شروع ہوا تو مارچ میں کراچی میں ہونے والے پی ایس ایل کے میچز منسوخ کرکے حکومت نے اس کی سنگینی کا احساس کیا تھا اور مساجد، مدرسوں اور رمضان میں ہونے والی عبادات کے لیے بھی ایس او پیز پر عمل کرایا گیا تھا جو مکمل تو کامیاب نہیں تھا مگر بڑی مساجد میں عمل دیکھنے میں آیا تھا۔
کسی مسجد میں نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ مقرر نہیں کیا گیا تھا مگر صف بندی کے لیے دو تین فٹ پر نمازیوں کے لیے نشانات لگائے گئے تھے۔ مساجد میں سینیٹائزر اور ادویات کے اسپرے کے لیے گیٹ بنائے گئے تھے۔ زیادہ بزرگ نمازیوں اور بچوں کو مساجد آنے سے روکا بھی گیا، اعتکاف پر بھی کچھ پابندی لگائی گئی اور خوف کی فضا کے باوجود ایمان پر یقین رکھنے والے بزرگوں نے مساجد میں نماز کی ادائیگی ترک نہیں کی تھی۔
مساجد میں ماسک لگا کر بھی داخل ہوا جا رہا تھا۔ بڑی مساجد کی انتظامیہ نمازیوں کو احتیاط کا پابند کر رہی تھیں اور داخلے کا ایک گیٹ مختص تھا جہاں اسپرے سے گزر کر نمازی مساجد میں آ جا رہے تھے۔ کورونا سے ہلاکتیں کم زیادہ ہوتی رہیں۔ حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی تو مساجد سے اسپرے گیٹ ہٹا کر تمام راستے کھول دیے گئے تھے اور محرم الحرام کے بعد مساجد میں کورونا کے ایس او پیز پر عمل مکمل ختم کردیا گیا تھا۔ مساجد سے جو دریاں اور قالین ہٹائے گئے تھے وہ دوبارہ بچھا دیے گئے تھے۔
سال رواں میں کورونا دوبارہ پھیلا تو حکومت نے زیادہ وبا سے متاثرہ علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن ایجاد کیا اور ملک میں صورتحال زیادہ خراب ہونے پر 8 مئی سے 16 مئی تک حکومت کو مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کرنا پڑا۔
ضروریات زندگی کی اشیا کی دکانیں کھولنے کی اجازت گزشتہ سال بھی دی گئی تھی اور اس سال عید کی چھٹیاں بڑھا دی گئیں جس پر تاجروں نے حسب سابق احتجاج کیا مگر حکومت نے نہیں سنی اور سرکاری چھٹیاں برقرار رکھ کر اپنی رٹ کا مظاہرہ کیا جو کورونا میں اس بار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک بھر میں صوبائی حکومتوں نے ثابت کر دکھایا کہ ان میں ایس او پیز پر عمل کرانے کی انتظامی صلاحیت ہے یا نہیں جس کے نتیجے میں ایس او پیز پر عمل برائے نام رہ گیا۔
اس رمضان المبارک میں کورونا کی مزید شکلیں برآمد ہونے کے باوجود حکومت نے معیشت بچانے کے لیے لوگوں کی جانوں کے ضیاع کو بہتر سمجھا کیونکہ انسانی جانوں کے ضیاع سے خاندان ضرور متاثر ہوتے ہیں حکومت متاثر نہیں ہوتی۔
اس بار کورونا سے اہم سرکاری شخصیات جان سے گئیں مگر حکومت نے زیادہ متاثرہ علاقوں میں بھی فوری لاک ڈاؤن نہیں لگایا اور عید کے موقع پر مکمل لاک ڈاؤن کرنے سے پہلے وفاقی وزیر نے کہہ دیا کہ " عید کی ابھی سے خریداری کرلیں " لاک ڈاؤن کی پیشگی اطلاع سے حکومت نے مارکیٹوں اور بازاروں میں رش خود بڑھایا جس سے کورونا بڑھا مگر حکومت کو کورونا بڑھنے سے زیادہ اپنی ٹیکس وصولی کم ہونے کی فکر لاحق رہی۔
رمضان المبارک اس بار ایسا گزرا کہ مساجد میں ایس او پیز پرکوئی عمل نہیں ہوا۔ مساجد میں دواؤں کا اسپرے تھا نہ داخلہ مخصوص۔ ماسک پہنے چند نمازیوں کو بغیر ماسک کے نمازی عجیب نظروں سے دیکھتے کہ وہ بھی ماسک ہٹانے پر مجبور نظر آئے۔ کوئی یہ کہتا ملا کہ ماسک سے نماز نہیں ہوتی، کورونا میڈیا اور حکومت کا پروپیگنڈا ہے۔ موت تو آنی ہے نمازی ایمان مضبوط رکھیں اور کورونا سے خوفزدہ نہ ہوں۔
گزشتہ اور موجودہ رمضان میں یہ فرق رہا کہ مہنگائی مزید بڑھ گئی اور حکومتیں کنٹرول کرنے کے دعوے کرتی رہیں مگر مہنگائی حکومت روک سکی نہ گراں فروشوں نے اپنی کم کمائی کو ترجیح دی بلکہ حسب سابق پہلے سے بھی عوام کو زیادہ لوٹا۔
حکومتی دہری پالیسیاں دونوں رمضان میں عروج پر رہیں اور ناجائز منافع خوروں نے حکومت کی طرح عوام کو لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حکومتی نمائشی چھاپوں سے جرمانے کی شکل میں حکومت کو کروڑوں روپے کی زائد رقم مل گئی۔ ایس او پیز پر عمل کرانے کی پابند پولیس کی بے انتہا کمائی ضرور ہوئی اور دونوں رمضان میں سب سے زیادہ متاثر عوام ہوئے اور آیندہ بھی ہوتے رہیں گے۔