وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ سارے کرپٹ ہمارے خلاف کھڑے ہیں ہم ملک میں قانون کی بالادستی اور انصاف کا نظام لائیں گے اور کرپٹ سسٹم سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف جنگ جیتیں گے، قومیں حکمران طبقے کی کرپشن سے تباہ ہوتی ہیں۔ ہماری پہلی حکومت ہے جو غریب طبقے کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہے، آج معیشت بہتر اور کسان خوشحال ہوگئے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آئے پونے تین سال ہوگئے ہیں اور یہ پارٹی ماضی میں تین تین بار اقتدار میں رہنے والی حکمران پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر کرپشن کے سنگین اور ملک لوٹنے کے الزامات کی بوچھاڑ میں اقتدار میں لائی گئی تھی جس کے بارے میں پارٹی کی قیادت کہہ رہی ہے کہ اسے مکمل اور بااختیار اقتدار نہیں ملا جس کی وجہ سے وہ اپنے منشور پر عمل اور کرپٹ سیاسی قیادت کو سزا نہیں دلا سکے اور ہمارے کرپشن کے خلاف اقدامات کے نتیجے میں سارے کرپٹ ہمارے خلاف آ کھڑے ہوئے ہیں مگر وہ ان کے آگے نہیں جھکیں گے اور کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کرپشن کا واویلا اس قدر کامیابی سے کیا گیا تھا کہ قوم بھی ان باتوں پر یقین کرکے یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ ملک میں عوام کی حالت زار، مہنگائی و بے روزگاری کے ذمے دار دونوں پارٹیاں ہیں جو باری باری اقتدار میں آکر کرپشن کرتیں اور ملک کو لوٹ کر ملک سے باہر اثاثے بناتی رہیں، اس لیے اس بار ایک نئی پارٹی کو آزمایا جائے جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور وہ اقتدار میں آ کر ملک و قوم کی قسمت بدل دیں گے اور ان کے دور میں روزانہ سو ارب روپے کی ہونے والی کرپشن تو ضرور رک جائے گی جس کی نشاندہی خود عمران خان نے کی تھی جن کے بقول اگر وزیر اعظم ایماندار ہوگا تو کرپشن خود رک جائے گی۔
عمران خان نے قوم کو بتایا تھا کہ حکمران کرپشن کے علاوہ اقربا پروری کرتے اور اپنوں کو نوازتے اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال کرتے رہے۔ انھوں نے اپنی بڑی بڑی کابینائیں بنا کر قوم پر مالی بوجھ ڈالا مگر میں اپنی کابینہ 17 وزیروں تک محدود رکھوں گا اور بچت سے حاصل ہونے والی رقم عوام کی بہبود پر خرچ کی جائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔
ان کے اعلانات اور دعوؤں پر یقین کرنے والی قوم نے یہ دیکھا کہ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا ایک بھی دعویٰ پورا نہیں ہوا۔ ان کی کابینہ میں نااہلی کے الزام میں ہٹائے جانے والے کسی ایک رکن کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی بلکہ ان کے محکمے تبدیل کیے جاتے رہے۔ انھیں حکومت اور پارٹی میں اہم عہدے دیے گئے۔
جن لوگوں کا کبھی سیاست میں نام نہیں سنا گیا تھا انھیں غیر منتخب ہونے کے باعث مشیر اور معاون خصوصی بنایا گیا۔ آئے دن نئے نئے عہدے تشکیل دے کر قوم پر مالی بوجھ بڑھایا گیا جس کی وجہ سے وفاقی کابینہ کی تعداد پچاس ہوچکی ہے جس میں مزید اضافہ متوقع ہے کیونکہ کابینہ میں وزیر اعظم کے دوستوں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی تعداد زیادہ ہے اور حکومتی حلیف پارٹیوں کو شکایت ہے کہ انھیں وعدے کے مطابق کابینہ میں نمایندگی نہیں دی گئی بلکہ اپنوں ہی کو نوازا گیا۔
پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ہماری حکومت میں کرپشن کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے اور بعض اپوزیشن لیڈروں کے بقول حکومت کا کوئی ایک وزیر بھی کرپشن سے پاک نہیں ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پونے تین سالوں میں اپوزیشن نے حکومت پر نااہلی اور گڈ گورننس نہ ہونے کا الزام ضرور لگایا ہے مگر وزیر اعظم پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا۔ وزیر اعظم پر اپوزیشن اپنے کرپٹ رہنماؤں اور ساتھیوں کی پشت پناہی اور انھیں تحفظ دینے بلکہ انھیں فائدے پہنچانے کے الزامات ضرور عائد کرتی آ رہی ہے اپوزیشن رہنماؤں کو جیل میں رکھ کر کرپشن کی رقم برآمد ہوئی نہ پونے تین سال میں کسی پر کرپشن ثابت کرکے حکومت کسی کو سزا دلا سکی ہے۔
وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ کرپٹ اکٹھے ہوکر ہمارے خلاف کھڑے ہیں مگر کرپشن کے مبینہ الزامات میں ملوث کی گئی مسلم لیگ (ن) اور پی پی متحد نہیں اور پی ڈی ایم میں تقسیم ہو چکے ہیں اور وہ کرپشن کے مقدمات کے باوجود اکٹھے نہیں بلکہ الگ الگ حکومت پر ان کے خلاف کرپشن کے جھوٹے مقدمات نیب سے بنوانے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ کرپشن کے مقدمات پر پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین نے اپنے حامی ارکان اسمبلی کو ضرور اکٹھا کرکے عمران خان کو دکھا دیا ہے۔ قوم پونے تین سالوں میں وزیر اعظم کی کرپشن کرپشن کی بے مقصد تکرار سے بھی اکتا گئی ہے اور کرپشن پر اپوزیشن سے نفرت کی بجائے اب ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ نہ دے کر اپوزیشن پر اپنے اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔