سپریم کورٹ نے سوال کیا ہے کہ ملک کے تمام ادارے کام کرسکتے ہیں تو پارلیمنٹ کام کیوں نہیں کرسکتی؟ عدالت عظمیٰ میں کہا گیا کہ پریس کانفرنسوں سے زندگیاں نہیں بچیں گی۔ وفاقی حکومت کورونا پر قانون بنائے تاکہ پورے ملک میں وفاقی قانون پر عمل درآمد ممکن ہوسکے۔
کورونا کے سلسلے میں بعض صوبوں نے اپنے طور پر قانون تو بنالیے ہیں مگر تمام صوبے قوانین پر عمل کرانے میں مکمل طور پر ناکام اور سندھ اور وفاق کی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہی ختم ہونے میں نہیں آرہیں۔ ملک میں پہلی بار وفاق اور پنجاب نے اپنے اتنے زیادہ ترجمان مقررکیے ہیں کہ جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور حکومتی ترجمانوں کی روزانہ کی لاتعداد پریس کانفرنسوں پر ہی سپریم کورٹ کو کہنا پڑا ہے کہ ایسی پریس کانفرنسوں سے لوگوں کی زندگیاں نہیں بچیں گی۔
سپریم کورٹ کے ججوں نے کورونا وائرس کی حدت محسوس کرلی ہے اور اپنی اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پتا نہیں مریضوں کی تعداد کہاں جا کر رکے گی۔ سپریم کورٹ نے وفاق پر واضح کردیا ہے کہ آپ کے پاس اب وقت نہیں ہے اور ملک کو موجودہ صورتحال میں متفقہ قانون سازی کی فوری ضرورت ہے۔
عدلیہ نے کورونا کی تشویش ناک صورتحال میں اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے اور وہ حکومت کو اپنے کوئی احکامات بھی نہیں دے رہی اور نہ حکومت کے لیے خود مسئلہ بن رہی ہے اور چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ بھی کام کرے اور قانون سازی کی جائے مگر لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کو کورونا کا کوئی ادراک ہے اور نہ ہی اس کی حدت کو سنجیدگی سے محسوس کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وفاق اور صوبوں کی پالیسیاں ایک دوسرے سے مختلف سمتوں میں جاری ہیں۔ جس سے نقصان ملک و قوم کو ہو رہا ہے اور کہیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔
یہ سو فیصد درست ہے کہ ملک بھر میں حکومتی ایس او پیز مذاق بنے ہوئے ہیں اور کہیں بھی ایس او پیز پر عمل نہیں ہو رہا جس کی ذمے دار حکومتیں ہیں مگر صوبائی حکومتیں شاید خود کو ناکام سمجھ کر یہ توقع لگائے بیٹھی ہیں کہ ایس او پیز وفاق نے بنانے ہیں اور وفاق ہی ان پر عمل کرانے کا پابند ہے اور خود صوبوں کی کوئی ذمے داری نہیں ہے جب کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے قانون سازی اور قوانین پر عمل کرانے میں مکمل آزاد اور طاقت کے حامل ہیں مگر کوئی بھی صوبہ اور وفاق ایس او پیز پر عمل نہیں کرا رہا اور صرف الزام تراشیاں عروج پر ہیں، راقم کوگزشتہ دنوں لاہور جانے کا اتفاق ہوا جہاں ریسٹورنٹ اور دکانیں رات دس بجے کے بعد بھی کھلی نظر آئیں۔
پولیس کی موجودگی میں لوگوں کو ریسٹورنٹس کے اندر اور باہر کھانا بھی کھلایا جاتا رہا اور روشنیاں کم کرکے ایس او پیز کی خلاف ورزی میں کاروبار کرتے بھی دیکھاگیا جب کہ کراچی میں ریسٹورنٹس مغرب کے بعد بند دیکھے گئے۔
ڈبلیو ایچ او نے پنجاب میں کورونا کی تشویش ناک صورتحال پر جو وارننگ دی ہے وہ بروقت اور حکومت پنجاب کی لاپرواہی اور ناکامی کا واضح ثبوت ہے جب کہ سندھ میں بھی صورتحال بہتر نہیں مگر حکومتی ناکامی یہاں بھی موجود ہے۔ تیسرے چھوٹے صوبے کے پی کے میں اموات کی شرح سندھ و پنجاب سے زیادہ کیوں ہیں اس پر وفاق کو توجہ دینی چاہیے تھی مگر وفاق کے حکومتی ترجمانوں کو سندھ پر بے جا تنقید اور جوابی پریس کانفرنسوں سے فرصت ملے تو وہ پنجاب اور کے پی کے میں اپنی حکومتوں کی ناقص کارکردگی پر توجہ دیں اور حقائق کا ادراک ممکن ہوسکے۔
وفاق کا اٹھارہویں ترمیم پر خدشات کا اظہار غلط نہیں مگر وزیر خارجہ تسلیم کر رہے ہیں کہ حکومت ترمیم کی پوزیشن میں نہیں تو موجودہ صورتحال میں وفاق اپنی ضد اور انا کیوں برقرار رکھ کر اپوزیشن کو قریب لانا نہیں چاہ رہا اور پارلیمنٹ کو بھی دوسرے اداروں کی طرح کام کرنے کیوں نہیں دیا جا رہا اور قانون سازی کیوں نہیں کرائی جا رہی جس پر سپریم کورٹ بھی نشاندہی کرچکی ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ ملک میں اس غیر یقینی صورتحال کے خاتمے کے لیے اپنے ترجمانوں کو اپوزیشن پر بے موقعہ گولہ باری کرنے سے روکے اور سیاسی صورتحال کورونا کے باعث ہی کچھ بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرے۔
حکومتی حلیفوں کو اپنے سیاسی مفادات کے بجائے ملک کے مجموعی مفادات کو ترجیح دے کر وزیر اعظم کو مجبور کرنا ہوگا کہ پارٹی سیاست بالائے طاق رکھ کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیں اور کورونا کی مزید بگڑتی ہوئی صورتحال پر قومی اتفاق رائے پیدا کرکے قانون سازی کی جائے۔