کہا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے توڑکر جمہوریت کا قتل کیا ہے اورکیا برسراقتدار حکومتیں وہاں مرضی کی حکومت لانے تک مقامی حکومتوں کو اسی طرح ختم کرتی رہیں گی؟ پنجاب کے عوام کو حقوق سے محروم کرکے پنجاب کا حال کیا خراب کرنا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کرانا آئینی تقاضا ہے۔
پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کردیے تھے جو جمہوریت کا قتل تھا اور بعد میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے اور وفاقی حکومت بلدیاتی انتخابات کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر ڈال رہی ہے۔ مختلف صوبوں نے بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی مختلف وجوہات بتائی ہیں۔ حلقہ بندیوں کے نہ ہونے اور مردم شماری کو تاخیر کا سبب بتایا جا رہا ہے تو 2017 میں ہونے والی مردم شماری کا حتمی نوٹیفکیشن 2021 تک جاری ہونے کا فیصلہ نہیں ہو رہا۔
پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو غیرقانونی قرار دیا جا چکا ہے اور پنجاب حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کو جمہوریت کا قتل قرار دیا جا چکا ہے جو ایک انتہائی سنگین اقدام ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہیں۔
مختلف بہانے کیے جا رہے ہیں حالانکہ یہ آئین کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے جب کہ سپریم کورٹ کا حکم نہ ماننے پر ملک میں ایک وزیر اعظم نااہل قرار دیا جا چکا ہے مگر آئین کی خلاف ورزی پر کبھی کسی وفاقی اور صوبائی حکومت کے خلاف معمولی کارروائی تک نہیں ہوئی اگر ہو جاتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔ 2015 میں ملک میں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کا معاملہ اچانک سپریم کورٹ میں زیر بحث آگیا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد درخواستیں کئی سالوں سے سماعت اور فیصلے کی منتظر ہیں۔
بلدیاتی ادارے دنیا بھر میں جمہوریت کی نرسری اور بنیاد قرار دیے جاتے ہیں جہاں سے پرورش پانے والے بلدیاتی عہدیدار دنیا میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچے اور دنیا میں بلدیاتی اداروں کی مقامی حکومتوں کو تیسری قوت قرار دیا جاتا ہے مگر پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور مقامی حکومتیں جو پہلے وفاقی حکومت کی محتاج تھیں۔
اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کے سپرد کردی گئی ہیں اور ہر صوبے نے اپنی اپنی مرضی کے بے اختیار بلدیاتی قوانین بنا کر بلدیاتی اداروں کو مقامی حکومت قرار نہیں دیا بلکہ مکمل طور پر نام کے محدود اختیار دے کر اپنا مکمل محتاج بنا رکھا ہے۔
بلدیاتی اداروں کو توڑنے کے عمل کو جمہوریت کا قتل قرار دیا جا چکا ہے اور پنجاب میں جمہوریت کا یہ قتل بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کی دعویدار پی ٹی آئی کی حکومت نے اس لیے قتل جیسا سنگین جرم کیا تھا کہ پنجاب کے اکثر بلدیاتی اداروں کے عہدیداروں کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا اور گزشتہ بلدیاتی انتخابات پارٹی بنیاد پر ہوئے تھے جس کے نتیجے میں صوبوں میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) نے پنجاب، پیپلز پارٹی نے سندھ اور کے پی کے میں پی ٹی آئی نے امیدواروں کو ٹکٹ دیے تھے اور اپنی اپنی حکومتی طاقت استعمال کرکے اپنے امیدواروں کو کامیابی دلائی تھی۔
2018 کے عام انتخابات میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت (ق) لیگ کی مدد سے بنوائی گئی تھی جو مسلم لیگ (ن) کی مخالف تھی۔ سندھ میں آٹھ سال سے برسر اقتدار پیپلز پارٹی اور کے پی کے میں تین سال سے برسر اقتدار تحریک انصاف نے مختلف بلدیاتی قوانین بنا کر بلدیاتی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی تھی۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت مسلم لیگ (ن) کی دشمنی کی حد تک مخالف ہے، اس لیے ان سے (ن) لیگ کے بلدیاتی ادارے برداشت نہیں ہو رہے تھے اس لیے وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے مسلم لیگ (ن) کے میئر اور پنجاب حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار جن کی پنجاب میں واضح اکثریت تھی۔
پنجاب کے تمام میئر بھی مسلم لیگ (ن) کے تھے اس لیے ان سے جان چھڑانے کے لیے پنجاب کے تمام بلدیاتی ادارے سیاسی مخالفت میں توڑ دیے گئے تھے۔ پنجاب حکومت کے اس اقدام پر بڑا احتجاج بھی ہوا تھا اور لارڈ میئر لاہور نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع بھی کیا تھا اور اب اس معاملے پر سپریم کورٹ کے ریمارکس سامنے آگئے ہیں۔ وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول اسلام آباد کے میئر کو جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا انھیں وفاقی حکومت نے دو بار برطرف کیا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلا تاخیر میئر کو بحال کیا مگر وفاقی حکومت انھیں تنگ کرتی رہی جس پر وہ مستعفی ہوگئے اور میئرکا دوبارہ انتخاب ہوا جس میں وفاقی حکومت کی مداخلت کے باوجود مسلم لیگ (ن) ہی کا میئر کامیاب ہوا۔
سندھ میں پی پی حکومت اور کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کے بلدیاتی عہدیداروں کی اکثریت تھی اس لیے انھیں برقرار رکھا گیا اور بلوچستان حکومت جو بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت ہے اس نے بھی اپنے مخالف تمام بلدیاتی اداروں کو قبل ازوقت توڑ دیا تھا جس کے خلاف میئر کوئٹہ نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور وہاں بھی بلدیاتی اداروں کا قتل ہوا مگر حکومت محفوظ رہی۔ بلدیاتی اداروں کی دشمن حکومتوں کو اگر بروقت انصاف مل جائے تو بلدیاتی ادارے حکومتوں کے سیاسی انتقام سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔