ملک بھر میں بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے شرمناک واقعات عام ہوتے ہوتے، اب تشویش ناک صورتحال اختیار کر چکے ہیں اور اسی سلسلے میں کے پی کے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا ہے۔
قانون بنانے والی پارلیمانی کمیٹی کے متعدد اجلاسوں کے بعد جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس میں بچوں کے تحفظ کے لیے متعدد تجاویز شامل ہیں جس میں چائلڈ پروٹیکشن پولیس اسٹیشنوں کے قیام، بچوں پر جنسی تشدد کے الزام میں سزائے موت پانے والے مجرم کو پھانسی کی ویڈیو بنا کر پبلک کرنے سمیت متعدد تجاویز شامل ہیں۔ خیبر پختون خوا اسمبلی میں ایک ایسی رپورٹ پیش کیے جانے کا عمل بر وقت اور اچھا اقدام ہے جس کی دیگر صوبوں میں بھی تقلید کی اہم ضرورت اور بچوں کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
گزشتہ کئی سال سے ملک بھر میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور وفاقی حکومت نے بھی اس سلسلے میں " زینب الرٹ" کے نام سے آغاز کیا تھا، جس میں فوری پیش رفت نہیں ہوئی تا کہ موثر قانون بنایا جا سکتا۔ ضلع قصور میں اس سلسلے میں زیادہ واقعات ہوئے اور کمسن بچی زینب کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس نے ملک بھر میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔ پولیس کی بر وقت کوشش سے ملزم گرفتار ہو کر عدلیہ میں تیز سماعت کے نتیجے میں سزائے موت پا کر اپنے انجام تک پہنچ گیا تھا مگر ملک میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آ رہی بلکہ مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
جنسی زیادتیوں کے واقعات تعلیمی اداروں، تعلیمی ہوسٹلز، سرکاری دارالامان تک پہنچ چکے ہیں، جن میں اہم افراد پر بھی الزامات عائدکیے گئے مگر سرکاری طور پر ایسے مبینہ ملزموں کو بچا لیا گیا اورحقائق کو چھپانے کی بھرپور سرکاری کوشش کی گئی اور ملزم سیاسی اثر و رسوخ کے باعث محفوظ رہے۔
کے پی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ مساجد، مدارس، اسکولوں اور ایسے ادارے جہاں بچوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں کی انتظامیہ کو سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا پابند بنایا جائے اور جنسی تشدد کے واقعات کی رپورٹ عام تھانوں کے بجائے چائلڈ پروٹیکشن تھانوں میں درج کی جائے، جہاں ایسے ایس ایچ اوز تعینات ہوں جو قوانین سے مکمل آگاہ ہوں تا کہ بر وقت قانونی کارروائی مکمل ہو کر معاملات آگے بڑھائے جاسکیں۔ رپورٹ میں یہ واضح نہیں کہ خصوصی تھانوں میں درج مقدمات تفتیش کے بعد عام عدالتوں ہی میں پیش ہوں گے یا عدالتیں بھی خصوصی ہوں گی۔
ملک میں تو یہ حال ہے کہ لاکھوں مقدمات کئی سالوں بلکہ عشروں سے زیر سماعت ہیں جہاں مقدمات کی سماعت ہی نہیں ہوتی یا اگر ہوتی ہے تو بعض وجوہات کے باعث سالوں التوا کا شکار رہتی ہے اور سالوں میں بھی فیصلے نہیں ہو پاتے۔ بچوں پر جنسی تشدد اور ہلاکتوں کا ایک بڑا اہم مجرم جاوید اقبال سزا نہیں پا سکا تھا اور اپنی موت آپ مر گیا تھا۔ بچوں اور خواتین سے جنسی زیادتیوں کے مقدمات ہزاروں کی تعداد میں عام مقدمات کی طرح زیر سماعت ہیں اور تاریخوں پر تاریخیں پڑتی رہتی ہیں جس کی مختلف وجوہات پیش کی جاتی ہیں۔ بچوں سے زیادتی کے بعد انھیں قتل کر دینے کے متعدد مقدمات موجود ہیں اور صرف قصور کی کمسن زینب کا ہی واحد کیس ہے جس کا فیصلہ جلد ہوا اور مجرم کو پھانسی ہوئی جو معمول کے مطابق اور سرعام نہیں تھی تا کہ لوگ عبرت حاصل کرتے۔
اب کے پی اسمبلی میں پیش ہونے والی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب مجرم کی پھانسی کی ویڈیو پبلک کی جائے۔ یہ بھی غنیمت ہے مگر انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیدار شاید اس پر بھی اعتراض کریں کہ یہ غیر انسانی اقدام ہو گا۔ اسلام میں سرعام سخت سزاؤں کا حکم انسانی حقوق کے خلاف نہیں بلکہ انسانی حقوق پامال کرنے والوں کے خلاف ہے تا کہ سر عام دی جانے والی سزاؤں سے لوگوں میں خوف پیدا ہو اور دیکھنے والے اس سے عبرت حاصل کر کے ایسا کرنے سے باز رہیں۔
خواتین پر جسمانی تشدد، بچوں سے جنسی زیادتی، خواتین کے جنسی استحصال اور عصمت دری کے مقدمات کی فوری سماعت اور ملزموں کو جلد سزاؤں کے لیے خصوصی تھانوں کی طرح خصوصی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا جانا اشد ضروری ہے۔ بچوں، طالبات اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے جلد فیصلوں تک ایسے شرم ناک واقعات کبھی نہیں رکیں گے اور ایسے مقدمات کے فیصلوں میں غیرضروری تاخیر کے باعث ہی متاثرین میں مایوسی پھیلتی ہے کیونکہ بدنامی فوری ہو جاتی ہے اور حقیقی مجرموں کو سزا ملنے میں مدتیں لگ جاتی ہیں۔