سندھ حکومت کے ترجمان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ حکومت کراچی سیف سٹی پروجیکٹ کی جلد تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ واضح رہے کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا یہ اہم منصوبہ گزشتہ 6 سال سے التوا کا شکار ہے اور منصوبہ اجلاسوں سے آگے نہیں بڑھ رہا، جس کے باعث منصوبے کی لاگت دس ارب روپے سے بڑھ کر 30ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔
2012 سے 2019 تک کئی بار ٹینڈر جاری کیے گئے مگر شہر میں ہزاروں کیمروں کی تنصیب کا یہ خواب پورا ہونے میں نہیں آ رہا اور حکومت چھ سال سے اس منصوبے کی تکمیل میں اب تک ناکام رہی ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا میگا سٹی ہی نہیں بلکہ ملک کو چلانے کا معاشی حب ہے جہاں ملک بھر سے آئے ہوئے لوگ ہی نہیں بلکہ مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے اور روزگار کمانے کے لیے آئے ہوئے بڑی تعداد میں غیر ملکی بھی رہائش پذیر ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے ڈاکوؤں کے ہاتھوں مر رہے ہیں، لٹ رہے ہیں اور امیر ہی نہیں غریب بھی جرائم پیشہ عناصر کی وارداتوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور کراچی میں جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کراچی میں ہونے والے جرائم برسوں نہیں عشروں پرانے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی دارالحکومت کراچی پیپلز پارٹی کی حکومت کے آسروں پر مسلسل لٹ رہا ہے جس کی 13 سال سے مسلسل حکومت ہے اور سندھ پر طویل ترین حکومت کا اعزاز پیپلز پارٹی کے پاس ہے مگر سندھ حکومت جرائم کے سب سے بڑے گڑھ کے مکینوں کو امن دینے میں مسلسل ناکام چلی آ رہی ہے صرف آسرے ضرور دیے جا رہے ہیں۔
شہر قائد میں اب عوام تو کیا خود پولیس اہلکار اور مساجد تک محفوظ نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ چوریاں، ڈکیتیاں، رہزنی، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی مزاحمت پر قتل پہلے بھی تھے مگر جرائم میں ماضی میں کبھی اتنا اضافہ نہیں ہوا جتنا گزشتہ ڈھائی سالوں میں ہوا ہے۔ اس کی وجہ بے روزگاری اور مہنگائی بھی ہے جو تبدیلی حکومت کا تحفہ ہے مگر عوام کے جان و مال کا تحفظ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے مگر سندھ حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔
پولیس اہلکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد وفاقی و صوبائی وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی، اراکین اسمبلی، سینیٹروں، حکومتی عہدیداروں، پارٹی رہنماؤں اور سیکیورٹی تھریٹ کے حامل بااثر افراد، اعلیٰ سرکاری افسروں اور شوقیہ پولیس اہلکاروں کو ساتھ رکھ کر عوام پر رعب جمانے والے امیروں کی حفاظت پر مامور ہے اور عوام کو لاوارث اور جرائم پیشہ عناصر کے سپرد کردیا گیا ہے۔
سیکیورٹی گارڈ رکھنے والوں نے اپنی دولت کے بل بوتے پر اپنی حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے۔ کراچی پولیس نے اپنے ایسے افسروں اور اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا ہے جن کا رشوت سے پیٹ نہیں بھرتا اور وہ اپنے سرکاری عہدوں اور پولیس کی وردی کو جرائم کے لیے بھی استعمال کرتے آئے ہیں ایسے لوگوں میں سپاہی، ہیڈ کانسٹیبلز، پولیس انسپکٹران تک کیا ڈی ایس پی اور ایس پی سطح کے افسران بھی شامل ہیں۔ یہ سلسلہ بھی بہت پرانا ہے کیونکہ کراچی پولیس کے لیے دبئی ہے جہاں کمانے کے مواقع سب سے زیادہ ہیں اور جرائم پیشہ ذہنیت کے یہ عناصر خود تبادلے کرا کر کراچی آتے ہیں۔ کراچی پولیس کے کم ہی افسروں اور اہلکاروں کو اپنے فرائض کا احساس ہے مگر اکثریت ایسے افسروں اور اہلکاروں کی ہے جنھیں سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔
دہشت گردی کے لیے جرائم کرنے والوں کو پولیس پکڑتی بھی آئی ہے مگر ان میں حقیقی دہشت گرد بہت کم اور بنائے گئے مصنوعی دہشت گرد زیادہ ہیں۔ اصل دہشت گردوں سے پولیس دور رہنے کی کوشش کرتی ہے اور بے گناہ رشوت نہ ملنے پر جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جاتے رہے ہیں اور پولیس کو ترقیاں بھی ملتی رہی ہیں۔
کراچی میں آبادی کے حساب سے پولیس نفری واقعی کم ہے۔ ہر تھانہ پولیس کی کمی کا شکار ہے مگر اعلیٰ عہدوں کی تعداد بہت بڑھی ہے جس کی وجہ سے پولیس میں گاڑیاں اور موبائل کم اسلحہ زیادہ تر پرانا، اہلکار ناتجربہ کار اور صرف مال کمانے میں مصروف رہتے اور جرائم پیشہ عناصر دندناتے اور شہریوں کو لوٹتے پھرتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد موبائلوں میں مختلف مقامات سے بھتہ وصولی میں نظر آتے ہیں جو افسروں نے ان کی غیر سرکاری ذمے داری بنا رکھی ہے۔
دنیا کے دس بڑے شہروں میں شمار کیے جانے والا کراچی سیف سٹی اب تک نہیں بنایا جاسکا جہاں گزشتہ چھ سالوں میں دس ہزار کیمرے نصب کیے جانے تھے جس سے جرائم میں کمی واقع ہوتی اور ڈاکوؤں کو ان کیمروں کے باعث پکڑ میں آنے کا خوف ہوتا۔ کراچی میں محدود طور پر لگے کیمروں کی وجہ سے متعدد وارداتوں کے مجرم پکڑے بھی گئے ہیں۔
دس ہزار کیمروں کی وجہ سے شہر کے چپے چپے پر نگاہ رکھی جاسکتی تھی اور ون ونڈو آپریشن کے تحت ایک ہیلپ لائن نمبر بھی جاری ہوتا مگر سیف سٹی منصوبے میں مسلسل حکومتی تاخیر اور بعض اداروں کی جان بوجھ کر سازشیں اس منصوبے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور سیف سٹی منصوبہ خواب بن کر رہ گیا ہے۔