روزنامہ ایکسپریس میں شایع شدہ تصویر کے مطابق پاکستان سے کمبوڈیا پہنچنے کے بعد اسلام آباد کا 39 سالہ دنیا کا اکیلا کاون ہاتھی جنگلی حیات کے لیے مختص علاقے میں گھوم رہا ہے۔
اسلام آبادکے مرغزار چڑیا گھر سے رہائی پا کر جانے والے اس ہاتھی کو دنیا کے تنہا ترین ہاتھی کا نام دیا گیا تھا جہاں مقامی پنڈتوں نے کاون ہاتھی کا عملے کے ہمراہ روایتی طریقے سے استقبال کیا، اس ہاتھی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر رہائی نصیب ہوئی اور خصوصی پرواز کے ذریعے کمبوڈیا بھیجا گیا جہاں اسے جنگلی حیات کے لیے مختص علاقے میں رکھا جائے گا۔
تنہائی کے شکار اس ہاتھی کو پاکستان کا خوش نصیب ہاتھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جسے رہائی ملی اور جنگلی حیات کے لیے مختص علاقے میں رہنا نصیب ہواجب کہ یہ سہولت پاکستان کے کروڑوں غریب کہلانے والے انسانوں کے نصیب میں بھی نہیں ہے۔
اس خوش نصیب ہاتھی کی رہائی کے بعد اسے کمبوڈیا بھیجنے پر لاکھوں روپے خرچ بھی ہوئے ہیں، مگر تنہا قرار دیے گئے اس ہاتھی کو قدرتی ماحول میسر آگیا اور وہ اپنی باقی زندگی جنگلی حیات کے ماحول میں گزارے گا۔
پاکستان کے چڑیا گھروں میں ہزاروں جانور موجود ہیں جنھیں قید رکھنے کے لیے خصوصی پنجرے بنائے گئے ہیں اور ان کے آزادانہ گھومنے پھرنے اور رہنے کے لیے جگہیں بھی مختص کی جاتی ہیں، ان کی خوراک اور حفاظت کے خاص انتظامات پر لاکھوں روپے کے اخراجات ہوتے ہیں جو انھیں دیکھنے کے لیے آنے والوں کے ٹکٹوں اور سرکاری فنڈ سے پورے کیے جاتے ہیں اور روزانہ بڑی تعداد میں لوگ تفریح کے لیے ان چڑیا گھروں میں آتے ہیں جن میں بچے ان جانوروں کو دیکھ کر خاص طور پر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
شہری جنگلوں سے آئے پنجروں میں قید ان جانوروں کو دیکھنے کے لیے اپنی فیملیزکی تفریح اور جانوروں اور پرندوں سے متعلق معلومات کے لیے پیسے خرچ کر کے وہاں آتے ہیں تو بے زبان یہ جانور اور پرندے انھیں شکایت بھی نہیں کر سکتے کہ ان کی حفاظت اور خوراک پر مامور انسان کہلانے والے ان کے ساتھ انسانوں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں اور ان بے زبانوں کو ان کی مقررہ خوراک بھی ایمانداری سے فراہم نہیں کرتے۔ ان کے لیے بجٹ سے خریدی گئی خوراک بھی بدعنوانیوں کی نذر ہو جاتی ہے، ان کے علاج پر توجہ نہیں دی جاتی جس سے متعدد جانور اور پرندے بیماری میں علاج نہ کرائے جانے اور کم خوراک کی کمزوری سے مر جاتے ہیں۔ انسانوں کی تفریح کے لیے قید یہ بے زبان اپنے ساتھ ہونے والی انسانی زیادتیوں کی کسی سے شکایت بھی نہیں کر سکتے اور غیر قدرتی ماحول میں وقت سے پہلے مر جاتے ہیں۔
سری لنکا سے 1985 میں لائے گئے ہاتھی کو تو رہائی مل گئی جب کہ ہماری حکومتوں کو تو اپنے ملک میں تنہائی کا شکار لاکھوں بوڑھوں کی بیماری اور خوراک تو دورکی بات کبھی انھیں انسانی ماحول فراہم کرنے کا بھی خیال نہیں آیا جو اپنے آزاد ملک میں جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان انسانوں کو انسانی ماحول، صفائی ستھرائی اور آمد و رفت کی سہولتوں کی فراہمی کی ذمے داری بھی متعلقہ بلدیاتی اداروں کی ہے جو چڑیا گھروں میں قید جانوروں اور پرندوں کے نگران ہیں، فرق یہ ہے کہ انسان ٹکٹ لے کر انھیں دیکھنے آتے ہیں مگر شہروں میں آزاد کہلانے والے ان انسانوں کو صاف ستھرا آلودگی سے پاک انسانی ماحول بھی میسر نہیں ہے۔
ان آزاد انسانوں کو مضر اثرات سے پاک آب وہوا، تفریح کے لیے پارک، پینے کا صاف پانی، آمد ورفت کے لیے باسہولت راستے فراہم کرنا بھی حکومت کے بلدیاتی اداروں کی ذمے داری ہے مگر پورے ملک میں کوئی بھی ادارہ اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کررہا۔
ملک میں ایسا ماحول فراہم کرنے کی ذمے داری بلدیاتی اداروں کی ہے جن کی نااہلی سے لاہور ملک کا پہلا آلودہ شہر قرار پا چکا ہے۔ ملک کے چند بڑے شہروں میں پوش ایریاز ہیں جہاں صفائی ستھرائی اور پارکوں کی حالت قدر بہتر ہے مگر اسلام آباد سمیت ملک کا کوئی ایک بھی بلدیاتی ادارہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہے کہ کہا جاسکے کہ وہ اپنے زیر کنٹرول رہنے والوں کو مکمل آلودگی سے پاک انسانی اور قدرتی ماحول فراہم کر رہا ہے۔
انسانی ماحول کو بہتر بنانے میں سب سے اہم کردار درختوں کا ہوتا ہے مگر پی ٹی آئی حکومت کے بلین ٹری منصوبے کی پول سپریم کورٹ میں کھل گئی ہے اور چیف جسٹس نے حکومتی دعوؤں کو مسترد کردیا ہے کہ اتنے درخت لگائے جانا ناقابل یقین ہے۔ چیف جسٹس کے مطابق حکومت کے نزدیک کاغذوں میں آدھا پاکستان جنگل ہے اگر واقعی ایسا ہوتا تو ماحول بدل چکا ہوتا مگر حالت یہ ہے کہ پنجاب سندھ اور دیگر صوبوں کے مختلف شہروں میں شہریوں کا سانس لینا بھی مشکل ہو چکا ہے اور وہاں بے انتہا گندگی ہے۔
کے پی کا محکمہ ماحولیات چور، اسلام آباد انتظامیہ نااہل ہے۔ متعلقہ محکموں کو ملک میں درخت لگانے کے بجائے جنگلوں کے خاتمے اور درختوں کے کاٹے جانے میں دلچسپی زیادہ ہے جب کہ درخت قوم کی دولت اور اثاثہ ہوتے ہیں مگر یہ اثاثہ تباہ کردیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاون ہاتھی کی حالت دیکھ کر اسے کمبوڈیا کے جنگلی حیات کے مختص علاقے میں بھجوا دیا جہاں وہ بے حد خوش ہے جب کہ سپریم کورٹ نے بلین ٹری منصوبے کے جھوٹ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور متعلقہ افسروں کی سخت سرزنش کی ہے جس سے توقع ہے کہ انصافی حکومت بلین ٹری منصوبے کی کامیابی کا جو ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اس سے عوام کا تو سانس لینامشکل ہونے کا اعتراف تو چیف جسٹس پاکستان نے کرلیا ہے شاید اب خوش نصیب کاون ہاتھی کی طرح بدقسمت پاکستانیوں کو بھی شاید سکھ کا سانس لینا نصیب ہو جائے۔