ملکی سیاست میں مارچ کو ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ مارچ واحد مہینہ ہے جس کو سیاسی مقام بھی ملا ہوا ہے۔ ملک کی تاریخ میں مارچ کی اہمیت غیر سیاسی طور پر اس لیے زیادہ ہے کہ 23 مارچ یوم پاکستان بھی ہے اور 80 سال قبل لاہور میں اسی روز قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں اگست اور مارچ کے دو دن ایسے ہیں جنھیں ہمارے قومی دنوں کی حیثیت حاصل ہے اور ملک میں 14 اگست کو جشن آزادی اور 23 مارچ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے۔ 23 مارچ یوم پاکستان کے موقع پر پاک فوج کی پریڈ بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے جس میں چاروں صوبوں کی بھرپور نمایندگی ہوتی ہے۔
ملک میں ماضی میں دہشت گردی کے باعث کچھ عرصہ یہ پریڈ نہیں ہوسکی تھی مگر افواج پاکستان نے دہشت گردی پر اپنی جانوں کے نذرانے دے کر قابو پالیا اور 23 مارچ کو اسلام آباد میں پاک افواج کی طرف سے پریڈ کا سالانہ سلسلہ دوبارہ کامیابی سے شروع ہوگیا ہے جس میں غیر ملکی سربراہ بھی شریک ہوتے ہیں۔ یوم پاکستان کی اس تاریخی فوجی پریڈ میں پاک فوج اپنی کارکردگی کے مظاہرے کرتی ہے بلکہ پریڈ میں چاروں صوبوں کی ثقافت بھی پیش کی جاتی ہے اور شام میں ایوان صدر میں ممتاز شخصیات کو ایوارڈز سے بھی نوازا جاتا ہے۔
ملک میں سیاسی مارچ بھی مشہور ہیں جوکہ مارچ کے مہینے کے علاوہ بھی ہوتے آئے ہیں جن میں جماعت اسلامی کی طرف سے ملین مارچ بھی مشہور ہیں۔ ملک میں آج تک کوئی پارٹی حقیقی ملین مارچ تو نہیں کرسکی اور بعض پارٹیاں اپنے ہزاروں افراد کے مارچ کو بھی ملین مارچ ہی قرار دیتی ہیں جہاں اگر ایک لاکھ افراد بھی بہ مشکل جمع ہوں مگر کہلاتے وہ ملین مارچ ہی ہیں کیونکہ تعداد گنتا کون ہے۔
ہر سیاسی جماعت اپنے جلسے جلوس کے شرکا کی تعداد زیادہ ظاہر کرتی ہے مگر ہر حکومت کو اپوزیشن کے ہزاروں افراد چند سو، اپوزیشن کے جلسے جلوس اور بڑے اجتماع کارنر میٹنگ لگتے ہیں جنھیں کوئی دیکھے نہ دیکھے عوام اپنے لحاظ سے ضرور دیکھتے ہیں۔ ملک میں سیاسی مارچوں سے حکومتیں بدلنے کا رجحان بھی چلا ہوا ہے مگر اب تک کسی مارچ یا دھرنے سے کوئی حکومت تبدیل نہیں ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہونے کا کوئی امکان ہے۔
ملک میں چھوٹی بڑی درجنوں جماعتیں ہیں۔ بڑی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے پاس قابل قدر تعداد اپنے کارکنوں کی ضرور ہے اور وہ حکومتی معاملات مفلوج کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہیں مگر کوئی بھی جماعت اپنے مارچ اور دھرنے سے ملک کی حکومت تبدیل کرنے کی طاقت بہرحال نہیں رکھتی۔ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری جب اپنے ملک کے دورے پر آئے تھے تو انھوں نے اپنی سیاسی طاقت اپنے مذہبی اور سیاسی کارکنوں کے ذریعے اسلام آباد میں دو بار ضرور دکھائی مگر دونوں بار ناکام ہو کر ایسے لوٹے کہ پاکستانیوں سے مایوس ہوکر سیاست ہی چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کے خلاف بلکہ ایک دوسرے کے خلاف ہمیشہ مارچ کیے اور ناکام رہے اور جب جنرل پرویز مشرف نے حکومت میں آکر دونوں کو ملک سے چلے جانے پر مجبور کیا تو دونوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا تو دونوں ایک معاہدے پر مجبور ہوئے اور چارٹرڈ آف ڈیموکریسی کیا جس کے تحت پی پی اور مسلم لیگ (ن) 2008 سے 2018 تک پہلی بار اپنی مدتیں پوری کیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے مارچ میں عمران خان کی حکومت کے خلاف مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت وہ ملک بھر میں جلسے جلوس کریں گے اور وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ حکومت چھ ماہ میں ختم ہو جائے گی کیونکہ عمران خان کا حکومت کرنے کا ٹھیکہ پورا ہو گیا ہے۔
ملک میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو حکومت تبدیل کرنے کے لیے نہیں بلکہ عوام کے سب سے بڑے مہنگائی کی دنیا پر حکومت کے خلاف تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی عمران خان کی حکومت کو قانونی تسلیم نہیں کرتیں اور حکومت اور وزیر اعظم کو سلیکٹڈ قرار دیتے ہیں۔ یہ ملک گیر جماعتیں 2018 کے انتخابات کو درست تسلیم نہیں کرتیں اور قومی اسمبلی میں بھی موجود ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے 2018 ہی میں دونوں جماعتوں کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا جس پر پی پی اگر مان جاتی تو مسلم لیگ (ن) بھی مان جاتی اس لیے تینوں اسمبلیوں میں رہنے پر مجبور ہیں مگر اب یہ پارٹیاں ملک میں قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) موجودہ حکومت سے جلد چھٹکارا تو چاہتی ہے مگر ماضی کی طرح اس طرح تحریک نجات شروع نہیں کرنا چاہتی جیسے وہ بے نظیر حکومت میں چلا چکی ہے مگر کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
(ن) لیگ کا اس سلسلے میں پی پی سے تو معاہدہ ہے مگر پی ٹی آئی سے ایسا کوئی معاہدہ نہ ہونے کے باوجود عمران خان کے خلاف تحریک نجات سے پس و پیش کر رہی ہے۔ (ن) لیگ کو عوام پر مسلط مہنگائی کی صرف زبانی فکر ہے اور عملی فکر اپنے رہنماؤں کے خلاف نیب کے مقدمات کی ہے جو نیب کی جانبدارانہ پالیسی اور کمزور و ناقص تفتیش کے باعث عدلیہ سے ضمانتیں حاصل کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر مارچ میں حکومت کے خاتمے کے لیے عملی طور پر میدان میں آچکے ہیں جنھیں مسلم لیگ (ن) اور پی پی اپنے اسلام آباد کے دھرنے میں مکمل ساتھ نہ دے کر مایوس کیا تھا اب چھوٹی اپوزیشن پارٹیوں کے 6 رکنی اتحاد کے ساتھ مل کر اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کرچکے ہیں اور مارچ ہی میں اسلام آباد میں دھرنے کے لیے پرعزم ہیں اور وہ تنہا بھی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی سیاسی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کے گزشتہ پرامن دھرنے کا پورا فائدہ تو مسلم لیگ (ق) نے اٹھایا جنھوں نے مولانا سے ان کا دھرنا مشروط طور پر ختم کرایا تھا اور چوہدری پرویز الٰہی مولانا کے اصرار کے باوجود قوم کو وہ راز نہیں بتا رہے جس سے مولانا کو آسرے پر رکھا تھا جس کے بعد وہ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے اور مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ کچھ نہ آسکا تھا۔
حکومت اپنے کمزور حلیفوں سے زیادہ اپنی پشت پناہی کرنے والی طاقت کے باعث جاتی نظر نہیں آ رہی مگر مارچ میں حکومت کے خلاف اپوزیشن کے مارچ ضرور مارچ میں ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) اب پی پی سے بگاڑ چاہے گی نہ مولانا فضل الرحمن کو ناراض رہنے دے گی اور مارچ میں اپوزیشن لیڈر کی ناکام واپسی کے بعد شہباز شریف اور مریم نواز کو بھی کچھ کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا کیونکہ موقعہ اچھا اور اب عوام کے ساتھ حکومت بھی مہنگائی کے باعث پریشان ہے اور اپوزیشن کو دکھاوے کے لیے ہی سہی مگر عوام کے لیے میدان میں آنا ہوگا۔