سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی اختیارات دینا، آئین کے آرٹیکل 140 کے خلاف ہے۔ بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقلی سے متعلق کیس سماعت میں سپریم کورٹ نے کہا کہ مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی چوائس نہیں بلکہ لازمی ہے اور شہریوں کے مفاد کو دیکھ کر قانون سازی ہونی چاہیے۔
جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے وہ ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے قانون سازی کرتی ہے اور جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو اختیارات منتقل نہیں کرتے اور جب نہیں ہوتے تو پھر وہ اختیارات منتقل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور سارا کھیل طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے اور اس کی کیا گارنٹی ہے کہ مقامی حکومتیں اختیارات ملنے پر کام کریں گی ممکن ہے بلدیاتی حکومتیں کام مزید خراب کردیں؟ اس موقعہ پر جسٹس اعجاز الحسن کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اختیارات منتقلی سے گھبرا رہی ہیں، کراچی ہی نہیں اسلام آباد میں بھی اختیارات کا مسئلہ ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان کے بلدیاتی اختیارات صرف کاپی پیسٹ ہیں جب کہ سندھ میں بلدیاتی قانون نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے ختم کرکے عوامی نمایندوں کو ہٹا کر سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقررکردیے تھے جب کہ کے پی کے اور بلوچستان میں بھی بلدیاتی ادارے وقت سے قبل ہی ختم کردیے گئے تھے جب کہ سندھ حکومت نے بلدیاتی ادارے اس لیے برقرار رکھے کہ اندرون سندھ بلدیاتی اداروں کی اکثریت پیپلز پارٹی کی تھی جو 30 اگست کو مدت مکمل کرکے ختم ہوئے جب کہ سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کو بے اختیار رکھا اور سارے اہم اختیارات پر خود قابض رہی۔ ایم کیو ایم کے بقول کراچی میں گٹر صاف کرنے کا اختیار بھی وزیر اعلیٰ کے پاس ہے، اس لیے صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات میں فرق کرنا ہوگا، جس پر سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت قانون سازی کے لیے گائیڈ لائن دے سکتی ہے اور اختیارات کے ساتھ احتساب کی بات بھی ہوگی۔
چیف جسٹس نے کے ایم سی کی سابقہ کارکردگی پر بھی سخت برہمی کا اظہارکیا جہاں لاکھوں ماہانہ تنخواہ لینے والے کام کرتے نظر نہیں آتے اورکراچی کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا سو فیصد درست ہے کہ بلدیاتی اختیارات مقامی بلدیاتی اداروں کے پاس ہی ہونے چاہئیں اور دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں بااختیار بلدیاتی ادارے موجود ہیں، جن کے ماتحت پولیس بھی ہوتی ہے اور میئرکو عوام برائے راست ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں جو مرکزی یا صوبائی حکومت کا محتاج نہیں ہوتا اور ملکی آئین کے تحت اپنے فرائض انجام دیتا ہے، مگر ان پر آئینی پابندی ضروری ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقررہ اختیار میں رہ کر کام کریں گے اور اختیارات کا آئینی استعمال وہاں کی منتخب حکومتیں بھی کرتی ہیں تو مقامی حکومتوں کو بھی ایسا ہی کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہمیشہ سے بااختیار مقامی حکومتوں کے خلاف رہی ہیں کیونکہ انھیں اپنے ارکان اسمبلی کو سیاسی رشوت کے طور پرکروڑوں روپے ترقیاتی فنڈ دینے کی عادت ہے جو رکن اسمبلی خاص کر اپوزیشن ارکان کو یہ ترقیاتی فنڈ نہیں دیے جاتے تاکہ وہ حکومت کا خفیہ طور پر ساتھ دیں اور حکومتی اقدامات کی مخالفت نہ کریں۔ ماضی میں عمران خان اس ترقیاتی فنڈ کے خلاف تھے مگر اب وہ بھی حکومتی فنڈ اپنے پسندیدہ ارکان کو دے رہے ہیں جب کہ سپریم کورٹ پہلے ہی ترقیاتی فنڈ ارکان اسمبلی کو دینے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے مگر یہ غیر قانونی فنڈز اب بھی اپنے حامیوں کو دیے جا رہے ہیں۔
یہ فنڈز مقامی حکومتوں کا اختیار ہے ارکان اسمبلی کا ترقیاتی فنڈز سے کوئی قانونی تعلق نہیں ہے مگر ترقیاتی فنڈ ہتھیانے کے لیے ہی ارکان اسمبلی چاہتے ہیں کہ منتخب مقامی حکومتیں ہوں ہی نہ اور بلدیاتی ادارے ان کے محتاج رہیں۔ جنرل مشرف کے بااختیار ضلع نظام میں وفاق اور صوبوں میں محکمہ بلدیات تھے مگر ان کے اختیارات محدود تھے۔ مقامی حکومتوں کو اختیارات ہوں تو وہ آزادانہ طور پر بہترکام کرسکتی ہیں۔ جب ملک میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے جب چاہیں منتخب میئر اور چیئرمینوں کو ہٹائیں گی۔
اپنی مخالف سیاسی پارٹی کے بلدیاتی ادارے ختم کرکے سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقررکریں گی اور ان حکومتوں کے ان غیر قانونی فیصلوں کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی تو حکومتیں من مانیوں سے کیوں باز آئیں گی۔ پنجاب کے بلدیاتی ادارے توڑا جانا موجودہ پنجاب حکومت اس کی واضح مثال ہے۔
پنجاب حکومت نے (ن) لیگ سے سیاسی مخالفت کے باعث آتے ہی بلدیاتی ادارے توڑ کر (ن) لیگ سے ہی نہیں بلکہ عوام سے انتقام لیا۔ وفاقی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے اسلام آباد کے میئرکو تین بار ہٹانا چاہا مگر ناکام رہی کیونکہ عدالت نے فوری فیصلہ دے کر میئر کو بحال کردیا، مگر ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سابق میئر کو یہ شکایت ہی رہی کہ ان کی مدت مکمل ہونے کے بعد ان کی درخواست کی پہلی سماعت ہوئی ہے۔
ملک میں نچلی عدالتوں اور پولیس میں سب سے زیادہ کرپشن کی باتیں کی جاتی ہیں مگر حقیقت میں سب سے زیادہ کرپشن محکمہ بلدیات اور بلدیاتی اداروں میں ہے۔ عوام کا اپنے مسائل کے لیے سب سے زیادہ واسطہ پولیس اور عدلیہ سے نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں سے پڑتا ہے۔
منتخب بلدیاتی اداروں میں کرپشن پھر بھی کم اور شنوائی زیادہ ہوتی ہے جب کہ بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے تقررکے بعد کرپشن بڑھ جاتی ہے اور عوام کی شنوائی کم ہو جاتی ہے کیونکہ محکمہ بلدیات میں لاکھوں روپے رشوت کے عوض ایسے سرکاری ایڈمنسٹریٹر تعینات کیے جاتے ہیں جن کا متعلقہ علاقوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ عوام سے دور رہ کرکمائی کی فکر میں رہتے ہیں، انھیں اپنے جلد تبادلے کا بھی خوف رہتا ہے وہ اس لیے جلد سے جلد اپنی تقرری کی رقم معہ منافع کے وصولی کی فکر میں رہتے ہیں۔