روزنامہ ایکسپریس میں شایع شدہ ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ مسافر کوچ کی چھت پر بیٹھ کر اور کھڑکی اور پائیدان پر لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی دنیا کا واحد میگاسٹی ہے جہاں سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی وجود نہیں اور اندرون سندھ بھی سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ کا وجود ختم ہو چکا اور سندھ روڈ ٹرانسپورٹ اورگورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کے جو اڈے اور عمارتیں تھیں ان پر قبضے ہو چکے اور تجاوزات قائم ہوچکی ہیں جو کروڑوں نہیں اربوں روپے کی سرکاری پراپرٹی تھی۔
یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کو سب سے زیادہ نقصان خود اس کے افسروں اور عملے نے پہنچایا اور عوام کو سرکاری سفرکی سہولت ختم کرا کر بسیں تباہ کرا دیں اور بدعنوانیوں سے خود امیر اور پرائیویٹ پبلک ٹرانسپورٹ کے مالک بن گئے۔
ملک کے سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹوکے دور تک کراچی سے سندھ کے آخری شہروں سکھر، شکار پور، خیرپور، لاڑکانہ اور جیکب آباد تک سرکاری بسیں چلا کرتی تھیں جب کہ کراچی کے عوام کو بھی سرکاری بسوں میں سفرکی سہولت میسر تھی۔ افسروں اور عملے نے مسافروں سے بھرکر جانے والی بسوں کو باہمی ملی بھگت سے خالی دکھایا۔ مسافروں کو ٹکٹ دیے نہیں جاتے تھے اور ساری آمدنی آپس میں بانٹ لی جاتی تھی۔
کراچی میں سرکاری بسوں کے خاتمے کے بعد پرائیویٹ بسیں چلانے والوں کی مافیا وجود میں آئی تھی جس کے مالکان کا واحد مقصد مسافروں کو سفرکی سہولت فراہم کرنا نہیں بلکہ مسافروں کو لوٹنا اور مال بنانا تھا۔ ٹریفک پولیس اور بس مالکان کی باہمی ملی بھگت سے بسوں میں مسافروں کو اندھا دھند ٹھونسا جاتا۔ من مانے کرائے جبری طور پر وصول کیے جاتے۔ بغیر مینٹی نینس کی کھٹارا بسوں میں چھت پر مسافر بٹھائے اور سیڑھی اور پائیدان پر لٹکائے جاتے جس کی وجہ اور تیز رفتاری سے حادثات بھی زیادہ ہوتے اور مالکان ٹریفک پولیس اور ضلع پولیس کی ملی بھگت سے اپنے عملے کو بچا لیتے تھے اور مالکان کا اپنے عملے کو کہنا تھا کہ دل کھول کر ٹریفک قوانین کو روندو اور زیادہ سے زیادہ کما کر لاؤ۔
پولیس افسران کی اپنی بھی بسیں چلا کرتی تھیں جن میں قانون پر کوئی عمل نہیں ہوتا تھا اور صرف اندھا دھند کمائی اور بسوں پر بسیں بنانا مقصد تھا جس میں وہ کامیاب رہے۔ پرانی اور کھٹارا بسیں بھی کب تک چلتیں پھر ان کی جگہ منی بسیں اورکوچیں آگئیں جو اب اپنی عمر مکمل کرکے شہر میں بہت کم رہ گئی ہیں۔
سرکاری بسوں کے بعد پرائیویٹ بسیں، منی بسیں اور کوچوں کی تعداد میں بے حد کمی واقع ہوچکی ہے اور ان کی جگہ چنگچی رکشوں نے لے لی ہے جن میں مرضی کے مسافر بٹھائے اور من مانے کرائے وصول کیے جاتے ہیں جو اب ہائی ویز اور شہر کی تمام بڑی سڑکوں پر چل رہے ہیں جن سے مسافروں کو اگرچہ سفر کی کچھ سہولت تو مل رہی ہے مگر سڑکوں پر رش بڑھنے سے حادثے بھی روز کا معمول بن چکے ہیں۔
سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں سٹی حکومت نے کچھ بڑی بسیں چلوائی تھیں جو بعد میں غائب ہو کر کراچی سے باہر دوسرے شہروں میں چلی گئیں جن میں کچھ باسہولت سفر سے مسافروں کو کچھ اطمینان تھا اور اب مسافر خوار ہو رہے ہیں۔
چار سالوں میں وفاقی حکومت نے سرجانی سے نمائش چورنگی تک اور آگے ٹاور تک سندھ حکومت نے میٹرو کے طرز پر گرین لائن بسیں چلوانا تھیں۔ یہ منصوبہ نواز شریف کی وفاقی اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے شروع کرایا تھا مگر ڈھائی سالوں میں متحدہ کی جگہ کراچی کی نمایندگی کی نئی دعویدار پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت مکمل نہیں کرا رہی۔
کبھی کام چلتا ہے کبھی بند ہو جاتا ہے سفر کی یہ جدید سہولت کراچی کے شہریوں کو دلانے کے لیے نہ وفاقی حکومت کو فکر ہے نہ کراچی کی تیسرے نمبر پر نمایندگی کرنے والی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو۔ دونوں طرف سے صرف دعوے سننے کو مل رہے ہیں تعمیری کام مکمل نہیں ہو رہا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ریلوے نے بعض علاقوں تک محدود ٹرین تو چلا دی ہے جس میں مسافر کم مگر ریلوے خسارہ زیادہ ہے اور نہ جانے یہ بھی کب بند ہو جائے؟
کراچی میں نجی کاروں اور موٹرسائیکلوں کی بھرمار ہے۔ امیر کاروں میں متوسط طبقہ موٹرسائیکلوں اور غریب پرانی منی بسوں اور کوچوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر پر مجبور ہے۔ سندھ حکومت کے نئی بسوں کے لانے کے وعدے سالوں میں پورے نہیں ہوئے صرف امید پر شہری جی رہے ہیں کہ کب عملدرآمد ہو اور شہریوں کو سفر کی سہولیات کب ملے گی کچھ پتا نہیں۔
کاروں اور موٹرسائیکلوں کی بھرمار سے شہر میں خصوصاً کاروباری اور رش کے علاقوں میں پارکنگ سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے اور بلدیاتی ادارے، پولیس اور پارکنگ کرانے والے مافیا بن چکے ہیں۔ شہر میں غیر قانونی پارکنگ کھلے عام چل رہی ہے۔ سڑکیں بلدیہ کی ہیں مگر پارکنگ سے زیادہ کمائی پولیس اور پارکنگ مافیا کر رہی ہے۔
پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی ٹریفک پولیس موٹرسائیکلیں اٹھا کر کمانے میں مصروف ہے جس سے شہری سخت پریشان ہیں مگر شہریوں کی پریشانی اور انھیں پارکنگ کی سہولت فراہم کرنے کی فکر کسی کو نہیں بس اندھا دھند کمائی کی فکر ہے جس سے شہری اذیت میں مبتلا ہیں۔