ملک کے سیاسی حالات جس نہج پر پہنچا دیے گئے ہیں، اس سے ملک کے محب وطن حلقوں میں تشویش پیدا ہو چکی ہے اور وہ پریشان ہیں کہ موجودہ صورتحال کے نتائج کیا نکلیں گے۔
موجودہ صورت حال میں کسی کو جمہوریت خطرے میں نظر آ رہی ہے توکسی کو ملک کی بقا۔ حکمران اپنے سوا دوسال پورے کر چکے اور انھیں صرف اپنی بقایا مدت پوری کرنے کی فکر ہے۔ ملک میں عوام کا مہنگائی اور بے روزگاری سے کیا حال ہے اس کی حکومت کو فکر صرف بیانات تک اور اپوزیشن کو فکر حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے تک محدود ہے، جس کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔
اس حکومت نے تبدیلی کے، ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے جو دعوے کیے تھے وہ تبدیلی تو عوام نے دیکھ لی مگر ترقی و خوشحالی دور دور تک نظر نہیں آ رہی، صرف روزانہ بڑھتی ہوئی گراں فروشی ضرور نظر آ رہی ہے اور پورا ملک بے روزگاری بڑھنے کا رونا رو رہا ہے مگر حکومت عوام کو اب دن میں بھی خواب دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ملک کے عوام کو درپیش مشکلات کا حکمرانوں کو زبانی طور پر جو احساس ہے وہ حکومت کی بیڈ گورننس پورا ہونے نہیں دے رہی اور ان سب کے درمیان دن رات اپوزیشن اور خصوصاً سابق وزیر اعظم نواز شریف کو رگیدنے کا مقابلہ تیزی سے چل رہا ہے اور غداری کے سرٹیفکیٹ دھڑا دھڑ بانٹے جا رہے ہیں۔
نواز شریف نے بھی اب مایوس ہو کر ذاتی مصلحتیں ختم کر دی ہیں اور ملک میں پہلی بار وہ کچھ منظر عام پر لا رہے ہیں جس کا اہل سیاست کو پتا تو تھا مگر مصلحت کے باعث کوئی حقائق منظر عام پر نہیں لا سکا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے پی ڈی ایم کے دو بڑے جلسوں اور اپنی پارٹی کے اجلاسوں میں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات عوام کو بتائے ہیں وہ پہلے بھی چھپے ہوئے نہیں تھے مگر لبوں پر نہیں آتے تھے۔
سابق وزیر اعظم متعدد بار واضح کرچکے ہیں کہ وہ پاک فوج کے حامی ہیں جس کے جوانوں نے ملک کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں جن کا پوری قوم سمیت انھیں اور مسلم لیگ (ن) کو اعتراف ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو انھوں نے بھی قومی اداروں کے خلاف سخت تقاریر کی تھیں اور پارلیمنٹ کو بھی نہیں بخشا تھا۔ موجودہ اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی نے ملک کے اداروں کا احترام صرف اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیا۔
وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ کسی صورت بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں اور ماضی میں پرویز مشرف نے اپنے مخالفوں کو مکے دکھائے تھے تو عمران خان اپوزیشن کو اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکی دے چکے ہیں۔
نواز شریف اپنے لوگوں کو مقتدر قوتوں سے ملنے سے روک چکے ہیں جب کہ اپوزیشن کے خلاف مقتدر قوتوں نے اپنا کوئی ردعمل نہیں دیا جس کے بعد واحد راستہ قومی جرگہ کا قیام ہی رہ گیا ہے جو چیف جسٹس سپریم کورٹ کی قیادت میں بنایا جا سکتا ہے کیونکہ موجودہ چیف جسٹس ہی ملک کی واحد با اختیار اور غیر متنازعہ شخصیت رہ گئے ہیں جن پر حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن اعتماد کر سکتے ہیں۔
ماضی میں ایک سابق چیف جسٹس پاکستان بھی ایسی تجویز دے چکے ہیں۔ سب بڑوں کے فیصلوں سے قومی جرگہ تشکیل دے کر منصفانہ فیصلہ کرایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں کس سے کیا غلطیاں ہوئیں، کس نے آئین پر عمل نہیں ہونے دیا۔ کس نے پارلیمنٹ کی توہین کی اور قومی اداروں کو متنازعہ بنوایا۔
ایک دوسرے پر باہمی اعتماد ختم ہو جانے کے بعد صرف سپریم کورٹ باقی رہ گیا جو تینوں فریقوں کی سُن کر آئین پر عمل کرانے کا انھیں پابند کر سکتا ہے۔ اگر تینوں فریق قومی جرگے پر راضی نہ ہوں تب بھی سپریم کورٹ ملک اور آئین کے تحفظ و عمل کرانے کا غیر جانبدارانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔