مسلم لیگ (ق) کے صدر اور سابق نگراں وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ کراچی میں لوگ شہر نہیں ہاتھ کی صفائی دکھاتے رہے ہیں۔ جہاں تمام سیاسی پارٹیوں کی حکومت رہی اور سب نے ہی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے سوا کچھ نہیں کیا، جب کسی اہم مسئلے پر صفائی کا موقعہ ہوتا ہے تو مسئلہ کوئی حل نہیں کرتا بلکہ اپنی اپنی صفائی پیش کرنے لگتے ہیں۔
کراچی میں اختیارات کی جو بات کی جاتی ہے، اس کا مطلب کمائی ہوتا ہے۔ حقیقت میں کراچی میں اختیارات نہیں بلکہ انتظامی امور کے متعلق پالیسی بنانا ہے۔ ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر ایک دوسرے کو الزام دینے کی بجائے اپنی اپنی تجاویز دیں اور مل جل کر کراچی کو درپیش مسائل کا حل نکالیں۔ کراچی میں لوگ اگر صفائی نہیں کرسکتے تو گندگی بھی نہ پھیلائیں اور گندگی پھیلانے والوں کا بھی سدباب کیا جائے۔
کراچی میں مسلم لیگ (ق) کی بھی حکومت رہی، دو وزیر اعلیٰ اور نائب سٹی ناظم رہے ہیں۔ کراچی میں پیپلز پارٹی 12 سال سے حکمران ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے بھی وزیر اعلیٰ رہے۔
ایم کیو ایم کا طویل عرصہ گورنر اور متعدد بار صوبائی وزرا اور اہم وزارتیں حق پرستی کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس رہی اور جنرل پرویز مشرف دور میں ایم کیو ایم کراچی کی بااختیار حکمران رہیں اورشہرمیں مقامی حکومت تین بار جماعت اسلامی اور تین بار ایم کیو ایم کے پاس رہی اور منتخب بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں صوبائی حکومتوں کے سرکاری ایڈمنسٹریٹر اور ایک ریٹائرڈ برگیڈیئر بھی بلدیہ عظمیٰ کے ایڈمنسٹریٹر رہ چکے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کبھی کراچی میں اپنا میئر منتخب نہ کرا سکی۔
+حالانکہ پی پی سندھ میں ایک نہیں 6 بار برسر اقتدار رہی مگر کراچی تو کیا حیدرآباد میں بھی کبھی اپنا میئر منتخب نہ کراسکی، البتہ سندھ کی تقسیم کی مخالف پی پی حکومت نے کراچی کو اب اپنے سیاسی مفاد کے لیے ایک ضلع سے سات اضلاع میں تقسیم کرنے کا ضرور ریکارڈ قائم کیا ہے جس سے کراچی ملک کا واحد شہر ہے جہاں 7سیاسی اضلاع ہیں۔
عشروں تک ایم کیو ایم کراچی کی مکمل نمایندگی کی دعویدار رہی ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں بھی شامل رہی جس میں اس کے لیے جنرل پرویز مشرف کا دور سب سے بہترین اور اختیار والا دور تھا اور کراچی میں سٹی حکومت میں مصطفیٰ کمال نے جو تعمیری و ترقیاتی کام کرائے وہ صدر پرویز مشرف دور میں کراچی کے لیے وفاقی گرانٹ سے مکمل ہوئے تھے جس کا کریڈٹ ایم کیو ایم سے زیادہ پرویز مشرف کا تھا۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ کراچی پر سیاست نہیں بلکہ مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاق صوبوں پر حملے کر رہا ہے تو صوبے بھی جواب دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کو حتمی شکل دی جائے، وفاقی حکومت کراچی سے آنکھیں بند نہیں کرسکتی جب کہ موجودہ حکومت نے دو سال سے کراچی سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اب تک کی تمام حکومتوں نے کراچی کو صرف کمائی، لوٹنے اور اپنوں کو نوازنے کا ہی شہر سمجھے رکھا ہے اور آنکھیں ہی نہیں کان بھی بند رکھے اور کما کر دینے والے شہر پر توجہ دی نہ کراچی کے مسائل کو اہمیت دی گئی، جس کے نتیجے میں ہی کراچی تباہ حالی کے موجودہ مقام پر پہنچا ہے۔
پرویز مشرف کے علاوہ تمام حکمران اور اقتدار میں رہنے والی تمام جماعتوں نے کراچی کو صرف سونے کی چڑیا سمجھا اور کراچی سے زبانی محبت اور عملی دشمنی کا ہی مظاہرہ کیا ہے اور کراچی پر ڈھٹائی سے جھوٹ پہ جھوٹ بولا ہے جس کا واضح ثبوت پی ٹی آئی حکومت کا دو سال سے جاری ناانصافی کا رویہ ہے جو کراچی کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کہلا تو رہی ہے مگر حکومت کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں اور کراچی کے لیے عملی طور پر وفاقی حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا اور شہریوں کو مایوس کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی کراچی دشمنی تو 12 سال سے عیاں ہے، حالانکہ بلاول بھٹو زرداری کی تو پیدائش ہی کراچی کی ہے۔
اپنے پیدائشی شہر سے ہر ایک کو قدرتی محبت ہوتی ہے مگر لاڑکانہ سے ہمیشہ الیکشن جیتنے والے رہنماؤں نے کراچی کو کبھی اپنا اس لیے نہیں سمجھا کہ کراچی شہر سے پیپلز پارٹی کو کبھی اکثریتی ووٹ نہیں ملا اور پی پی کی ہر حکومت نے کراچی کے دیہی علاقوں، لیاری اور ملیر کو ہی اپنا سمجھا کیونکہ وہاں واقعی پی پی کا ووٹ بینک ہے۔ لیاری کو بھی پی پی حکومت میں وہ اہمیت نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی کیونکہ وہاں مکس آبادی ہے جو بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔
ملک اور خصوصاً سندھ اور بلوچستان کے اکثر سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور سیاستدانوں کے بنگلے کراچی کے پوش علاقوں میں ہیں۔ ان کی اولادیں یہیں پڑھیں اور بگڑی ہیں، ان رئیسوں کی بگڑی ہوئی اولادوں میں سے بہت سوں کے خلاف مقامی تھانوں میں مقدمات درج ہوتے رہے ہیں۔
بہت سوں کے کاروبار بھی کراچی میں ہیں، ان کے اور ملک بھر کے افسروں کے لیے کراچی بلا شبہ بے شمار آمدنی کا گڑھ رہا ہے جن کی دولت بیرون ملک محفوظ ہے۔ کہنے کو پی پی کے دو وزیر اعظم ایک صدر، مسلم لیگ (ن) کا ایک صدر، سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کراچی کے تھے، موجودہ صدر اور تین وفاقی وزیر اور ایک ایم کیو ایم کا وزیر آئی ٹی بھی کراچی کے ہیں مگر کراچی سے کوئی مخلص نہیں جن سے کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
سب بڑوں نے کراچی کا نہیں صرف اپنا اور اپنے خاندان کے مفاد کو سامنے رکھا، کراچی کی بدولت اہم عہدوں پر پہنچے مگر جنرل پرویز مشرف کے سوا کسی نے کراچی سے وفا نہیں کی۔ یہ سب کراچی سے ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں میں شریک بلکہ شہر کے دشمن رہے۔ ایم کیو ایم کراچی پر مظالم کے باعث بنی اور پھر مختلف حکومتوں میں اقتدار میں رہی۔ دہشت گردی، خونریزی اور بھتوں اور سرکاری وسائل کو متحدہ کے رہنماؤں نے جی بھر کر لوٹا اور کروڑوں اور اربوں کے مالک بنے۔ جنھوں نے کراچی پر لگایا کم اور لوٹا زیادہ جس کی سزا وہ اب بھگت رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کراچی کی حقیقی نمایندہ جماعت نہیں ہے کیونکہ کہ انھیں بالاتروں نے نشستیں دلائیں۔ ادھر وزیر اعظم صاحب نے بھی کراچی کو دو سالوں میں وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اب متحدہ کی جگہ کراچی کی نمایندگی پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ کراچی کے کوٹے کی بنیاد پر بنے صدر مملکت اور وفاقی وزیروں کو بارشوں کے چھ سلسلوں میں کراچی آنے کی فرصت نہیں ملی اور وزیر اعظم جو خود بھی کراچی سے منتخب ہوئے تھے۔
بارشیں رکنے کے بعد کراچی آئے اور انھوں نے وفاق اور سندھ کے اشتراک سے کراچی کے لیے گیارہ سو ارب روپے کے تین سالہ پیکیج کا اعلان کیا ہے جب کراچی کے شہریوں کا جو مالی نقصان ہوچکا ہے وہ کھربوں روپے کا ہوا ہے۔ 11 سو ارب روپے تو کراچی کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ہی ناکافی ہیں، عوام کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کیسے ہوگی، البتہ پوش ایریاز نے اپنے علاقوں کے مسائل حل کرنے کے لیے لاکھوں روپے ادائیگی کے نوٹس ضرور بھیج دیے ہیں۔