روزنامہ ایکسپریس کے مطابق سندھ حکومت جاگ گئی اور بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کے وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی نے دودھ اور مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لے لیا ہے اور انھوں نے کمشنر کراچی کو اس سلسلے میں خط لکھا ہے کہ وہ ناجائز اضافہ کرنے والے منافع خوروں کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
معاون خصوصی نے اسپیشل پرائسز مجسٹریٹ کی کارکردگی پر بھی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت دی کہ تمام متعلقہ افسران بنیادی اجناس کی ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور قیمتوں پر کنٹرول کے قانون 2005 کے تحت کارروائی عمل میں لائیں اور کراچی انتظامیہ کی بھرپور معاونت کریں۔
معاون خصوصی کی ہدایت سے قبل صوبائی وزیر اسمٰعیل راہو نے ایک ٹاک شو میں کہا تھا کہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر کنٹرول کے لیے کمشنر کراچی کو کہیں گے۔ ایکسپریس کی اس خبر کے ساتھ دوسری خبر میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں ڈاکو بے لگام ہونے سے شہری غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔
شہر میں جرائم اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ شہری اپنے گھروں اور گھروں کے باہر اپنے دروازوں پر بھی محفوظ نہیں اور ڈاکو انھیں اسلحے کے زور پر دن دہاڑے لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی نشاندہی کے باوجود پولیس ان ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ گلشن اقبال کراچی میں تین موٹر سائیکلوں پر چار ڈاکو دن دہاڑے صرف چالیس سیکنڈ میں شہری سے موٹرسائیکل اور موبائل فون چھین کر فرار ہوگئے۔
گلشن معمار میں ڈاکوؤں نے مسجد کو بھی نہیں بخشا جہاں دو چوروں نے مسجد کی پانی کی موٹر چوری کرلی۔ فوٹیج میں چوروں کو جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ شہر بھر میں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، موبائل فون چھن رہے ہیں اور کراچی پولیس سو رہی ہے۔
کراچی کے کمشنروں کا تو یہ حال رہا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں تین کمشنر تبدیل ہوئے مگر دودھ کی قیمتیں طے کرانے کے لیے کسی کمشنر کو ڈیری فارمرز کے ساتھ اجلاس منعقد کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ کراچی میں انتظامیہ کی نااہلی سے دودھ کی قیمت مقرر ہو سکی اور نہ ہی سرکاری نرخوں پر عمل کرایا جاسکا ہے۔
کچھ عرصہ قبل دودھ کی سرکاری قیمت 94 روپے لیٹر مقرر ہوئی تھی مگر دودھ ایک سو دس سے ایک سو بیس روپے فروخت ہوتا رہا۔ کراچی انتظامیہ کی خاموشی اور گراں فروشوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے دودھ اب مزید دس روپے مہنگا کردیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی کی میڈیا ٹاک میں ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے نمایندے نے بتایا کہ 2019 میں دودھ کی قیمتوں پر کمشنر نے آخری اجلاس منعقد کیا تھا جس کے بعد دودھ کی قیمتوں میں من مانا اضافہ ہوتا رہا جس پر شہری احتجاج کرتے رہے مگر کمشنر کراچی نے دودھ کی قیمت بڑھنے پر توجہ نہیں دی نہ کسی ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اپنے آرام دہ کمروں سے نکلتے اور مارکیٹوں اور بازاروں میں جاکر دودھ کے نرخ چیک کرتے اور دودھ کی نئی قیمت مقرر کرتے۔
اس دوران سردیوں کے دنوں میں جب دودھ کی طلب کم ہونے سے دودھ کی فروخت کم ہو جاتی ہے اور دودھ فروخت نہیں ہوتا تو دودھ کے ریٹیلرز خود ہی قیمت کم کردیتے ہیں اور ان کے باہمی مقابلے کی وجہ سے سردیوں میں شہریوں کو کم نرخوں پر دودھ مل جاتا تھا اور اب مارچ میں گرمی شروع ہوتے ہی دودھ فروخت اور گھروں میں سپلائی کرنے والوں نے دودھ کی قیمت میں دس روپے لیٹر اور دہی کی قیمت میں 20 روپے کلو کا اضافہ کردیا ہے اور اس طرح من مانی قیمتیں بڑھا کر ہر ماہ شہریوں سے کروڑوں روپے زائد وصول کیے جا رہے ہیں مگر کمشنر کراچی کو اپنے طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
دودھ کے ہول سیلر ہر سال بھینسوں کی قیمت اور چارے کے نرخوں میں اضافے کو بنیاد بنا کر قیمت بڑھاتے ہیں جب کہ ریٹیلرز اپنی دکانوں کو خوبصورت بنا کر دودھ میں پانی اور برف کی مقدار بڑھا کر دودھ کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ بعض دکانوں پر دودھ کی دکانوں پر دودھ خالص ہونے کے نام پر ہمیشہ مہنگا ملتا۔
ہول سیلر ریٹیلرز پر دودھ میں ملاوٹ کرنے کا الزام لگاتے ہیں جن پر گراں فروشی پر کبھی کبھی دکھاوے کے جرمانے ہو جاتے ہیں مگر غیر معیاری دودھ پر کبھی جرمانے نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے شہری کراچی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت سے مہنگے کے ساتھ غیر معیاری دودھ خریدنے پر مجبور ہیں جس کی انتظامیہ کو کوئی فکر نہیں ہے۔