Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Akhri Marka

Akhri Marka

پاکستان کی سیاست پر سوشل میڈیا کی اس پوسٹ سے بہتر تبصرہ شاید ہی کیا جا سکتا ہو، عنوان تو ہے کہ "پراپیگنڈہ کیا ہوتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ ابھینندن (بھارتی پائلٹ) نے ایف 16جہاز نہیں گرایا۔ امریکہ اور بھارت بھی جانتا ہے کہ ابھینندن نے ایف سولہ نہیں گرایا۔ ابھنندن بھی جانتا ہے کہ اس نے ایف سولہ نہیں گرایا۔ وہ ایف سولہ جو نہیں گرایا گیا۔ ابھینندن کو اس سنہری کارنامے پر بھارت کا تیسرا بڑا ایوارڈ(تمغہ) ویر چکر۔ دے دیا گیا۔ (ویر چکر جس کا پنجابی ترجمہ بھائی پھیرو بھی کیا جا سکتا ہے)چکر کیا ہے؟ مختصر الفاظ میں اس کو میڈیا وار اور پروپیگنڈہ کہتے ہیں۔

نہیں سمجھے؟ ؟ ہم جانتے ہیں، نواز شریف پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کے بعد عمر بھر کے لئے نااہل ہو چکے ہیں، انہوں نے اپیل کا آخری حق استعمال کر کے اس پر مہر تصدیق بھی لگوا لی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں نواز شریف نااہل ہے۔ وہ نواز شریف جس کو تین بار اقتدار سونپا گیا لیکن وہ ملک کو صحیح سمت دے سکا نہ اپنا اقتدار سنبھال سکا۔ نواز شریف جانتا ہے کہ وہ سیاست و اقتدار کے لئے نااہل، اس کی بیٹی اور بھائی جانتے ہیں وہ سیاست و انتخاب کے لئے نااہل ہے، مسلم لیگ نواز کا ہر لیڈر حتیٰ کہ ہر کارکن جانتا ہے کہ وہ نااہل ہے۔ میڈیا ہائوسز کے مالکان اور کارکن صحافی سب جانتے ہیں کہ نواز شریف نااہل، اس کے باوجود مزدوروں کو اکٹھا کر کے یہ نعرہ لگوایا جاتا ہے۔ اک واری فیر شیر شیر۔ مختصر الفاظ میں اس کو میڈیا وار کہتے ہیں۔ اس کے پیچھے اس جنگ کے نام نہاد ماہرین ہیں۔

آج کی زبان میں انہیں کبھی دانشور، کبھی صحافی کہیں ٹی وی پروگرام کے میزبان کہتے ہیں "ویر چکر" اور فیر چکر ایک ہی کہانی کے دو کردار ہیں۔ ابھینندن سے ابھینندن تک ایک ہی گول چکر ہے(منقول) اکتوبر سے مارچ تک سرگرم سیاست کا موسم ہے، جلسہ جلوس، دھرنا، سینکڑوں عوام پر مشتمل ملین مارچ لیکن دو برس میں جلسہ، جلوس، دھرنے اور اسمبلیوں سے استعفے کی سیاست پٹ جانے کے بعد اب کے بار اچھا موسم ہونے کے باوجود سیاست کے بازار میں مندی ہے۔

2018ء انتخابات کے بعد عمران خان اقتدار میں ہیں اور ان کے مخالفوں کی ہر رات کانٹوں پر بسر ہو رہی ہے تو حکومت و اقتدار کے باوجود چین کی نیند عمران خاں اور اس کے ہمراہیوں اور ہمدردوں کو بھی نصیب نہیں۔ مگر اگلا ایک برس ہنگامہ خیز سیاست کے لیے ناہموار ہے۔ پی ڈی ایم کی شکل میں اپوزیشن کا اتحاد بظاہر پیپلز پارٹی کے قریب آ جانے سے ذرائع ابلاغ۔ کی توجہ حاصل کر رہا ہے لیکن جن کو لبھانے اور دکھانے کے لئے یہ سرخی و غازہ ہے۔ ناز اور نخرے ہیں دھادرا اور قوالی ہے وہ آنکھ بند کئے چین کی نیند میں ہیں۔ ان میں کوئی بے چینی تو کیا جنبش تک نہیں۔ اس دسمبر یعنی دسمبر 2021ء سے مارچ 2022ء تک سیاست کی دنیا میں کوئی بڑی ہلچل کا امکان نہیں۔ حکومت اپنی مرضی کی قانون سازی کر چکی ہے۔ ان قوانین کے مطابق آئندہ انتخاب کی تیاری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

مولانا جس اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں، انہوں نے اپنے اتحادیوں کے سامنے کڑی شرائط رکھی ہیں، وہی شرائط جو پہلے اس اتحاد کی بڑی پارٹیوں کو قبول نہیں تھیں، وہ اب بھی مانی نہیں جا سکتیں۔ سب سے کڑی شرط یہ ہے کہ جب ہم اسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ کریں تو ممبران اسمبلی کے استعفے مولانا کی جیب میں ہونے چاہیں، یہ ایسی کڑی شرط ہے جو ممبران اسمبلی کو قبول نہیں ہونگی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی طرف سے گویا ناں ہی سمجھنا ہو گی۔ انتخاب کا زمانہ قریب ہے، حکومت اس کی تیاری کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس ایک محدود ایجنڈا ہے، اسے کسی نہ کسی طور پر سندھ کے دیہی علاقوں میں انتخاب جیتنا ہے اور بس۔ مولانا کی ترک تازیاں بھی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے ایک آدھ حلقے تک ہیں، انہیں انہی چند حلقوں کی فکر ہے کہ وہ اسی کے بل پر گزشتہ کئی عشروں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔

تحریک انصاف نے آ کر ان کی راہیں دشوار بنا دی ہیں۔ مولانا اکیلے تحریک انصاف کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے اور دوسری پارٹیاں ان کے منصوبے پر من و عن عمل کے لئے آمادہ نہیں، نہ ہی پی ڈی ایم کے انتخابی اتحاد بننے کا کوئی امکان ہے، اس لئے کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں، ہمیشہ سے ان کا آپس میں مقابلہ ہوتا آیا ہے، 2018ء کے انتخاب میں بھی اچکزئی جو دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں وہ مولانا فضل الرحمن کے امیدوار کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے، اسی طرح خیبر پختونخواہ میں اے این پی اور مولانا کی جمعیت ایک دوسرے کے حریف ہیں، سندھ میں پیپلز پارٹی اپنے حصہ رسدی میں سے کچھ بانٹنے کو تیار ہونگے نہ ہی پنجاب میں مسلم لیگ نواز کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے، اس لئے یہ زمانہ پی ڈی ایم کا دور آخر بنے۔ 2018ء کے انتخابات کے مقابلے میں تحریک انصاف عمران خاں کی قیادت میں پہلے سے نمایاں اور بڑے حریف کے طور پر سامنے آئی ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ماضی کی حریف اور بڑی سیاسی جماعتیں حکومت و اقتدار کا کھیل ان کے درمیان عشروں سے کھیلا جاتا رہا، ان کی باریاں بندھی ہوئی تھیں، ایک اقتدار میں ہے اور دوسری اپوزیشن اگلے انتخاب میں یہ اپنی جگہ بدل لیتی تھیں، اپوزیشن حکومت کر رہی ہوتی اور حکومت کا سربراہ اپوزیشن لیڈر کا کردار سنبھال لیتا۔ عمران خاں نے آ کر ان کے کھیل میں کھنڈت ڈال دی، اب ماضی کی سب چھوٹی بڑی پارٹیاں، علاقائی جماعتیں، مذہبی اور قوم پرست اور دیگر سب مل ملا کر ایک تحریک بنیں یا سیاسی جماعت کا روپ دھار لیں، تبھی حکمران جماعت یعنی تحریک انصاف کے مقابلے میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔

انتخابی دنگل اگرچہ سارے ملک میں ہو گا لیکن اس دنگل کا بڑا اور دلچسپ مقابلہ پنجاب میں دیکھنے کو ملے گا اور اس کے بعد دوسرا بڑا میدان اندرون سندھ ہے، جہاں کئی دہائیوں کے بعد پیپلز پارٹی کو ایک سنجیدہ مقابلے کا سامنا کرنا ہے۔ یہ مقابلہ تحریک انصاف کے ساتھ ہو گا، تازہ دم تحریک انصاف سندھ کے پرانے کھلاڑیوں کے تعاون سے میدان میں اترنے والی ہے۔ پچاس برس میں پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کو انتخابی سیاست میں بڑے چیلنج کا سامنا ہے، دیہی سندھ کی ایک شکست بھٹو کی مقبوضہ پارٹی کو قصہ پارینہ بنا دے گی، سندھ میں یہ پارٹی پنجاب اور سرحد کی طرح کے انجام سے دوچار ہونے والی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ کے عوام کے لئے خصوصاً کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، سندھ کے سرکاری اثاثہ جات اور وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا، دیہی شہر سندھ کی تفریق پیدا کر کے لسانیت کی بنیاد پر نفرت پیدا کی گئی، یہی نفرت پیپلز پارٹی کا انتخابی ہتھیار تھا، اس کے اقتدار کی بنیادیں دیہی سندھ تک تھیں چنانچہ سندھ کے شہر ان کے تعصب اور نفرت کی نذر ہو گئے اور دیہات استحصال کے ہاتھوں تباہ ہوئے، دیہی سندھ میں تعلیم، صحت کا نظام اور امن و امان کی صورت حال پچاس برس سے ناگفتہ بہ حالت میں ہے، دلچسپ اور حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس صورت حالات پر کبھی کوئی احتجاجی آواز سنائی نہیں دی، حکومت اور وڈیروں کی ملی بھگت نے عام آدمی سے قوت گویائی تک چھین لی ہے، تحریک انصاف کو بھی فی الوقت قدم جمانے کے لئے بڑے زمینداروں اور سیاست کے معروف خاندان کا ہی سہارا لینا ہو گا، اگر عمران خاں ایک مرتبہ سندھ کی سیاست کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گے، تو یہ نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کی خوش قسمتی سمجھا جائے گا، اس لئے کہ سندھی عوام فریب کھائے ہوئے ہیں، مگر سندھ کی سرزمین بڑی ذرخیز اور مردم خیز خطہ ہے۔

یہ پورے پاکستان کے لئے زرعی و صنعتی وسائل اور توانائی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سندھی خوش اخلاق، محبت کرنے والے اور آزادی کے لئے جان لڑانے کی غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ ان کے یہاں آزادی اور مذہبی غیرت کے سبب قربانیوں کی طویل تاریخ ہے، انہیں طالع آزمائوں نے تباہ کیا، انہیں ظلم و استحصال سے نجات دلا کر اچھی تعلیم اور صحت کے نظام سے منسک کرنے کی ضرورت ہے، سندھ کو دوسرے صوبوں کے مقابلے انصاف کے نظام اور صحت کارڈ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، سندھ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں وسائل سے مالا مال ہے اس کے باوجود غربت افلاس بھی اس صوبے میں سب سے زیادہ ہے، پولیس وڈیروں اور ڈاکو کی تگڑم نے عام سندھی کی زندگی کو عرصہ دراز سے جہنم بنا رکھا ہے۔ سب کچھ کے باوجود آئندہ پانچ برس کے لئے اقتدار کا اصل معرکہ پنجاب میں ہو گا پہلے نواز شریف، شہباز شریف اور ?