عمران خان کی ابتدائی زندگی پر نظر ڈالیں تو وہ ایک مختلف انسان نظر آئے گا جس نے کھیل کے میدان میں بھی گہرے نقش چھوڑے، اس نے میرٹ پر بہت سے غیر معروف کھلاڑیوں کو اٹھایا، ان کی حوصلہ افزائی کی، تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے انہیں بے بدل کھلاڑی بنادیا جن کا اب تک کوئی ثانی پیدا نہیں اور انہیں ٹیم کی قیادت کا ہنر بھی سکھایا، کھیل کے میدان سے نکل کر ہم وطنوں کی فلاح اور ان کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے منصوبوں کا آغاز کیا تو شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے عالمی معیار کے ادارے بنا ڈالے اور ان کو بہترین ہنر مندوں کے ہاتھ سونپ کر الگ ہورہا۔ گویا اس کا کچھ تعلق نہ ہو، نہ کوئی مداخلت، نہ انتظامی امور میں شرکت۔
ہماری دنیا میں کوئی فرد، بشر ناگزیر ہے نہ ابدی اس لیے گھر، خاندان، ادارہ، مملکت یا ریاست سب کو زندگی کا تسلسل چلانے اور جاری رکھنے کیلئے کسی کو وارث، کسی کو نعم البدل کی تلاش رہتی ہے۔ بادشاہ ہو یا فقیر، انہیں بھی وارث کی ضرورت ہے، ریاستی ادارے، فوج، عدلیہ، شہری انتظامیہ کی ہر سطح اور ہر عہدے کے لیے ادارہ مسلسل نئے جوانوں کو بھرتی کرتا ہے تاکہ قدم بقدم تجربہ اور مہارت حاصل کرکے آگے بڑھتا رہے اور جانے والوں کی جگہ سنبھالے۔ سارے قومی، ریاستی، آئینی اداروں میں وارث نہیں، متبادل تیار کیے جاتے ہیں۔ بادشاہوں کو اپنی بادشاہت کیلئے وارث کی چاہ ہوتی ہے مگر جمہوری حکومت ہو یا آمرانہ، اسے نعم البدل تیار کرنا ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں جمہوری پارٹیاں ہوں، یا کیمونسٹ تحریکیں سب اپنی قیادت کا نائب تیار رکھتے ہیں تاکہ تسلسل قائم رہے بلکہ بہتر نعم البدل پیدا کیے جاتے ہیں۔ جمہوری ہوں یا فوجی حکومتیں انہوں نے سیاست میں وراثت چھوڑی نہ وارثوں کو سربراہ بنانے کی خواہش، نہ کوشش۔ مگر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے سیاست میں وراثت کو رواج دیا، یہ ایک معقول نعم البدل کا تصور ہی نہیں رکھتے۔ ان کے گھر میں حکومت رہے یا پھر سب کچھ ختم ہوجائے۔ لیاقت علی خان کے بعد عمران خان پہلا سیاسی حکمران ہے جس نے وراثت کے تصور سے نجات حاصل کی، ملک بھر کی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے سوا کسی میں بھی متبادل کا تصور نہیں، سب نے سیاسی پارٹی کو ذاتی جائیداد کی طرح استعمال کیا اور اسے ادارہ بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کہنے کو تو بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے لیکن وراثت میں بٹنے والی جمہوریت، جمہوریت ہوتی ہی نہیں۔ جو نظام وراثت میں تقسیم ہوتا ہے اس سے بدترین آمریت بھی بہتر ہے جو اپنا نعم البدل پیدا کرے، وراثت نہیں کہ حکمران کی معذوری یا موت کے بعد ہی سہی، کم از کم نئے لوگ ان کی جگہ سنبھال سکیں۔ روس، چین اور دوسری ترقی یافتہ غیر جمہوری ریاستوں میں بھی نائب اور متبادل ہوتے ہیں، وارث نہیں۔
عمران خان نے وعدہ کررکھا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو ذاتی جائیداد نہیں بلکہ ایک ادارہ بنائے گاجس طرح شوکت خانم ہسپتال یا نمل یونیورسٹی کو بنایا گیاکہ دونوں اداروں کے نظام چلانے اور انتظامی امور میں اسے کوئی دخل نہیں۔ حتی کہ فیصلوں میں اس کے پاس ویٹو کا اختیار بھی نہیں ہے، اس نے پارٹی کو ادارہ بنانے کا وعدہ کررکھا ہے مگر ابھی تک اس طرف معمولی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔ اب حالت یہ ہے کہ پچاس برس سے باری لینے والے اور وراثت میں چلنے والی سیاسی جماعتیں عوام کی بیزاری کے سبب اختتام کے قریب ہیں، ان کی بوسیدگی کے سبب ایک خلاء پیدا ہوا، ابتدا میں پیپلز پارٹی بوسیدہ عمارت کی طرح ڈھے گئی، اس خلاء کو عمران خان نے پُر کیا مگر عمران خان کا متبادل یا نعم البدل ابھی تک کہیں نظر نہیں آتا۔ نواز شریف کی نااہلی اور مسلم لیگ کی شکست وریخت نے اسے پنجاب کے چند اضلاع کی سیاسی جماعت بنادیا، اب عمران خان کی جگہ لینے کے لیے دوسری سیاسی پارٹی کے طور پر پی ڈی ایم کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا گیا ہے مگر پرانی بوسیدہ ہوکر ٹوٹ جانے والی رسی کو گانٹھ لگا کر نئی رسی کی طرح مضبوط نہیں بنایا جاسکتا، چنانچہ بوسیدہ ٹکڑوں کو جوڑ کر جو کچھ بنایا جائے گا وہ پہلے جھٹکے میں پھر سے ٹکڑوں میں بٹ جائے گا جیسے ہم نے حال ہی میں پی ڈی ایم کو دیکھا اور اس سے پہلے پی این اے کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔
اب حالت یہ ہے کہ عمران خان کا متبادل نہ حکومت کے اندر ہے نہ پارٹی میں اور نہ ہی پارٹی کے باہر دیگر سیاسی جماعتوں میں کہیں نظر آتا ہے، لیکن ریاست اور حکومت کو بطور خاص سیاسی حکومت کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے نہ صرف تحریک انصاف کے اندر نعم البدل کی تیاری کی ضرورت ہے بلکہ تحریک انصاف کے متبادل دوسری سیاسی جماعت بھی ناگزیر ہے کہ کوئی ریاست تادیر اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس وقت ہماری مملکت اور قومی اداروں میں جنہیں اسٹیبلشمنٹ بھی کہا جاتا ہے، ان کی ایک بڑی پریشانی یہ بھی ہے کہ عمران خان کے بعد کیا ہوگا؟ اور کون اس کی جگہ سنبھالے گا، یہ ان کے لیے گہرے غور وفکر کا مقام ہے، عمران خان کی صحت اگرچہ قابل رشک ہے مگر ان کی عمر ستر برس ہونے کو آئی اوران کا اپنا رجحان بھی تادیر اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کا نہیں، چنانچہ تحریک انصاف سے زیادہ ریاست کی فکر مندی ہے کہ ان سے بہتر نہیں تو کم از کم ایسا ہی متبادل تیار کریں۔ پاکستان کو نہ صرف عمران خان بلکہ تحریک انصاف کے مقابل ایک قومی سیاسی جماعت یا تحریک کی اشد ضرورت ہے۔ بوڑھے میدان سے ہٹ جانے والے کھلاڑی کو" رِنگ" میں نہیں اتارا جاتا بلکہ نیا کھلاڑی تیار کیا جاتا ہے جو میدان مارنے کی صلاحیت سے مالامال ہو۔
سب سے پہلی ذمہ داری خود عمران خان کی ہے جس نے طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد لٹیروں اور خون آشام بھیڑیوں سے قوم کو نجات دلائی، اس جدوجہد میں ملک بھر کے نوجوانوں نے بڑے خلوص اور جذبے کے ساتھ شرکت کی، ان سب کی اجتماعی کوششوں نے قوم کے وسائل لوٹ کھانے والوں کو ملک بدری پر مجبور کیا، سب خونی بلائیں نیم جاں سسک رہی ہیں لیکن ابھی تک ختم نہیں ہوئیں اور ان بلاؤں کے انڈے اور بچے بھی ہیں جو عمران خان کے ہارنے، تھک جانے یا طبعی عمر پوری ہونے کے منتظر ہیں۔ کیا تحریک انصاف جو وراثت پر یقین نہیں رکھتی، اپنا نعم البدل تیار کیے بغیر رہ پائے گی۔
عمران خان اور اس کی تحریک کو اس کی فکر ہونا چاہیے لیکن یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے، خصوصاً فوج، اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ریاستی ادارے ان مافیاز سے نجات اور ان سیاسی لٹیروں کو قریب نہ پھٹکنے دیں جو حکومت واختیار اور اقتدار کی ہوس میں ہمارے دشمنوں اور منافق دوستوں کی "پراکسی " یعنی خفیہ ہتھیار بن جاتے ہیں۔ پاکستان کے دانشوروں اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ ایک بھروسے کے قابل سیاسی جماعت بنائیں جو حکومت کے متوازی سیاسی جدوجہد میں حصہ لے۔ پیپلز پارٹی کے زوال سے پیدا ہونے والا خلاء پُر ہوچکا لیکن دوسری پارٹیوں کی تباہی کے بعد پیدا شدہ خلاء کو پُر کرنے کی سوچی سمجھی دانشمندانہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے اہل دل ہیں جو اپنی سیاسی جماعتوں کے رویے سے مایوس ہوکر پیچھے ہٹ گئے، ان کے اندر سمجھ بوجھ ہے، خلوص اور دیانت بھی۔ اس میں تحریک انصاف کے آئیڈیل ازم سے ہٹ جانے پر خاموش ہوگئے یا الگ ہوکر بیٹھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری جماعتوں، دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ میسر ہوں گے جو سیاست وحکومت کی حرکیات سے واقف ہیں، مخلص اور دیانت دار بھی۔