ہم ہر وقت کسی نا کسی دھوکے کی گرفت میں رہتے ہیں لیکن کھلی اور واضح نشانیوں کے باوجود اُسے سمجھ نہیں پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہروقت دھوکہ کا شکار رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ دھوکہ کی گرفت میں صرف اَن پڑھ جاہل اور گنوار ہی رہتے ہیں بلکہ بڑے بڑے عالم فاضل لوگ بھی زندگی بھر دھوکے کا شکار رہتے ہیں۔ وہ لوگ بھی دھوکے کا شکار رہتے ہیں جن کے ایک اشارے سے ایسے ویسے کیسے کیسے ہوجاتے ہیں اور کیسے کیسے ایسے ویسے ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آدمی زندگی میں دوسروں کو کم اور خود کو زیادہ دھوکہ دیتاہے اکثر لوگ خود کو وہ سمجھتے ہیں جو وہ نہیں ہوتے اور پھر اس بات پر مُصر بھی رہتے ہیں کہ لوگ بھی انھیں وہی کچھ سمجھیں جو وہ خود کو سمجھتے ہیں۔ یہ دھوکہ ہے سراسر دھوکہ۔ سراب کے پیچھے بھاگنے سے سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ملتا۔
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دلیشن رکھتا تھا
کیا دھوکہ کھانے والے اندھے، بہرے، گونگے ہوتے ہیں َ؟ قطعاً نہیں ! پھر کیو ں دھوکہ کھاتے ہیں؟ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ جو لوگ دھوکہ نہیں دیتے وہ بھی دھوکے کھاتے رہتے ہیں اور جن کا کام ہی دھوکہ دینا ہوتاہے وہ بھی دھوکہ کھانے سے بچ نہیں پاتے یہ ایک کربناک حقیقت ہے کہ آدمی کے اندر کا دھوکہ اُسے معروضی اور موضوعی دونوں حقائق سے اس طرح بے بہرہ کریتاہے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے وہ دیکھ نہیں سکتا، کانوں کے ہوتے ہوئے سن نہیں سکتااور فر فر چلنے والی زبان رکھتے ہوئے بھی بول نہیں سکتا۔ دھوکہ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے لوگوں نے ڈھال بنا رکھا ہے اب اِس سے بڑا دھوکہ کیا ہوگا کہ آدمی دھوکے پر ہی تکیہ کرنے لگ جائے۔
دھوکے کے ماخذ بظاہر دوہی ہیں، جو دھوکہ دینے اور دھوکہ کھانے دونوں میں فیصلہ کن ہوتے ہیں، ایک محبت اور دوسرا نفرت۔ محبت اور نفرتوں سے لبریز شخص دھوکہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ کون سی محبت اور کون سی نفرت؟ مزے کی بات یہ ہے کہ خالص محبت اور خالص نفرت دھوکے سے بچاتی ہے کیونکہ خالص محبت اندھی نہیں ہوتی۔ اندھی محبت اور اندھی نفرت جو ہر گز خالص نہیں ہو تی اور ناہی خالص ہوسکتی ہے وہ دھوکہ دینے او ردھوکہ کھانے کی بنیاد بنتی ہے۔ جب علی ؓشیر خدا دشمن کے سینے پر چڑھ کر اُسکا تلوار سے خاتمہ کرنے لگتے ہیں اور وہ چہرے مبارک پر تھوک دیتاہے تو علیؓ فوراً سینے سے اترجا تے ہیں کیونکہ علیؓ ذاتی دشمنی میں اُسے نہیں ماررہے تھے بلکہ اللہ کی رضا کے لئے اُسے واصل جہنم کرنا چاہتے تھے۔ لہذا اُس کے تھوکنے سے بھی علی نے دھوکہ نہیں کھا یا تبھی تو فرمایا "میں ایسی دنیا کا کیا کروں جس کے حلا ل میں حساب ہے اور حرام میں عذاب"۔
جو چیز اچھی لگے وہ آدمی کی نظر میں بہترین نہیں تو بہتر ضرور ہوتی ہے آدمی سب سے پہلے اسی دھوکے کا شکار ہوتاہے اور ہر اُس شئے کو بہتر سمجھنے لگتاہے جو اُسے اچھی لگے اس صورت حال سے تضاد جنم لیتاہے جو بعض اوقا ت نہیں بلکہ اکثر اوقات فساد کا رنگ دھار لیتا ہے جسے انسان کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے منع فرمایا گیا ہے۔ ثابت ہواکہ دل لگی کو معیار بنانا دھوکے کی ٹٹی ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا نام خود فریبی ہوگا جس کا شکار تقریباً سبھی لوگ یکساں طور پر رہتے ہیں زندگی بھر اسکا شکار رہتے۔
صدیوں سے آدمیت اپنے ہی ہاتھوں تراشیدہ بتوں کو خدا مانتی چلی آرہی ہے اور کبھی نہیں مانی کہ دھوکے میں ہے۔ یہی زمانے کی سوچ کہلاتی ہے جو اکثر دھوکہ ہوتی ہے لیکن چونکہ انفرادی سوچ اجتماعی سوچ کے تابع ہوتی ہے اس لئے مسلسل دھوکے کا شکار رہتی ہے۔ جیسے ابراہیم ؑ کے زمانے کی اجتماعی سوچ ابراہیم ؑ کی سوچ کے مقابل سراسر دھوکہ تھی آج بھی اگر ابرہیم ؑ کاایمان پید ہوجائے تو آگ انداز گلستاں اختیار کر سکتی ہے اسلئے کہ عالمی سطح پر رائج آفاقی سوچ آج بھی آذر کی سوچ کی وارث ہے، آدمیت بین الاقوامی سطح پر اس وقت دھوکے کا شکار ہے کیونکہ یقین سے محروم ہے اکیسیویں صدی کی ساری چکا چوند کے باوجود دھوکے کا شکار ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ دھوکہ پائیدار نہیں ہوسکتا اسلئے کہ اگر پائیدار ہو تا تو نہ دھوکہ ہوتا۔ دھوکہ ہمیشہ وقتی ہوتاہے اس لئے کہ آفاقیت سے محروم ہوتاہے۔ سچ کی طرح آفاقیت سے محروم ہوتاہے جبکہ جھوٹ کے مقابلے میں پائیدار ہوتا ہے۔ اس قدر پائیدار ہوتاہے کہ جھوٹا بھی اُسے پائیدار سمجھتا ہے اسلئے کہ سچ کا انکار ناممکن ہوتاہے اور یہی پہچان ہے دھوکے کو صحیح صحیح سمجھنے کی پھر دھوکے کا منبہ کیا ہے؟ دھوکے کا منبہ خود آدمی ہے۔ اس لئے کہ دھوکہ پائیدار نہیں ہوسکتا۔ حیوانا ت، جمادات اور نباتات کے اندر دھوکہ نہیں ہوتا۔ لہذا وہ دھوکے کا شکار بھی نہیں ہوتے اگر ان کے اندر بھی دھوکہ ہوتا تو دھوکہ آفاقی ہوجاتا اور آدمی دھوکہ دینے اور دھوکہ کھانے پر مجبور ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ آدمی دھوکہ دینے اور دھوکہ کھانے پر بالکل بااختیار ہے اور اسی لئے مسلسل دھوکے کا شکار ہے۔ روشنی اور تاریکی ایک دوسرے کی زد ہونے کے باوجو د دھوکہ نہیں ہیں کیونکہ دونوں قدرت کی طرف سے ہیں جبکہ سچ دھوکہ نہیں لیکن جھوٹ دھوکہ ہے، ریاکاری دھوکہ ہے، لیکن مخلصی دھوکہ نہیں ہے جہالت دھوکہ ہے، لیکن علم دھوکہ نہیں ہے، کفر دھوکہ ہے جبکہ ایمان دھوکہ نہیں ہے، دھوکے کے اندر قدرت نے بے پناہ طاقت رکھ چھوڑی ہے عقل سے زیاد طاقت دھوکے کے اندررکھی گئی ہے کیونکہ دھوکہ علم اور عقل دونوں کو کھا جاتاہے سب سے زیادہ عقلمند لوگ ہی دھوکے کا شکار ہوتے ہیں۔
خود کو وہ سمجھتے ہیں جو وہ نہیں ہوتے اور یہی دھوکہ ہے۔ عالم جب اپنے آپ کو واقعی عالم سمجھنے لگ جائے تو دھوکے کی گرفت آجاتاہے اِس لئے ہر وقت دعا گو رہنا چاہئے کے اللہ دھوکے کی گرفت سے بچائے رکھے۔